نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*مذہبی گروہ بندیاں*

وَقَالَتِ ۔۔ الْيَهُودُ ۔۔۔  لَيْسَتِ ۔۔۔ النَّصَارَى 
اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہودی ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ نصارٰی 
 عَلَى ۔۔۔ شَيْءٍ ۔۔۔۔۔۔۔ وَقَالَتِ ۔۔۔ النَّصَارَى ۔۔۔لَيْسَتِ 
پر ۔۔ راہ ۔۔۔ اور کہتے ہیں ۔۔۔ نصارٰی ۔۔۔ نہیں 
الْيَهُودُ ۔۔۔ عَلَى ۔۔ ۔۔  شَيْءٍ ۔۔۔۔۔۔  وَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ يَتْلُونَ ۔۔۔ ۔۔ الْكِتَابَ 
یہودی ۔۔۔ پر ۔۔۔ کسی چیز ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ تلاوت کرتے ہیں ۔۔۔ کتاب 
كَذَلِكَ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔ لَا يَعْلَمُونَ ۔۔۔۔۔۔۔ مِثْلَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔قَوْلِهِمْ
اسی طرح ۔۔۔ کہا ۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ نہیں علم رکھتے ۔۔۔ مانند ۔۔۔ ان کی بات 
 فَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ يَحْكُمُ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ بَيْنَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
 پس الله تعالی ۔۔ وہ فیصلہ کرے گا ۔۔۔ ان کے درمیان ۔۔ قیامت کے دن 
فِيمَا ۔۔۔ كَانُوا ۔۔ فِيهِ ۔۔۔ يَخْتَلِفُونَ. 1️⃣1️⃣3️⃣
اس میں جو ۔۔۔ وہ تھے ۔۔۔ اس میں ۔۔ وہ اختلاف کرتے 

وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ۔ 1️⃣1️⃣3️⃣

اور یہودی کہتے ہیں نصارٰی کسی راہ پر نہیں۔ اور نصارٰی کہتے ہیں یہودی کسی راہ پر نہیں حالانکہ وہ سب کتاب پڑھتے ہیں اسی طرح جاہل لوگوں نے ان ہی کی سی بات کہی  اب الله تعالی ان میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا جس بات میں وہ جھگڑتے تھے ۔

لَا یَعْلَمُوْنَ ۔( جاہل ) ۔ یہاں علم سے مراد ہے آسمانی کتاب کا علم ۔ اور علم نہ رکھنے والے ان جاہل لوگوں سے مراد ہیں مشرکین ۔ اور ہر ایسے مذہب کے پیروکار جس کی بنیاد کسی آسمانی کتاب پر نہ ہو ۔ 
بَیْنَھُمْ ۔ ( ان میں ) ۔ مراد یہ ہے کہ ان دو گروھوں  کے درمیان جن میں ایک فریق اہل ایمان کا ہے اور دوسرا گروہ باطل پرستوں کا ہے ۔ 
تمام اہل کتاب الله جل شانہ کی دی ہوئی سچائی اور تعلیم کی پیروی کرنے کی بجائے مذہبی فرقہ بندی میں مبتلا ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک یہی دعوٰی کرتا ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہے ۔ اور دوسرے تمام فرقے اصل سے ہٹ گئے ہیں ۔ مثلا جب یہودیوں نے دیکھا کہ عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو الله کا بیٹا کہتے ہیں ۔ تو انہوں نے کہا یہ کافر ہیں ۔ اور جب عیسائیوں نے دیکھا کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہو گئے ہیں تو انہوں نے کہا وہ کافر ہیں ۔ حالانکہ یہ دونوں گروہ الله تعالی کی دی ہوئی کتابیں پڑھتے ہیں ۔ 
یہی حال اُن لوگوں کا ہے جن کے پاس آسمانی کتاب تو کوئی نہیں ۔ لیکن انہوں نے خود ہی عقیدے گھڑ رکھے ہیں ۔ کہ وہ سیدھی راہ پر ہیں ۔ اور دوسرے تمام فرقے حقیقی راہ سے بھٹک گئے ہیں ۔ ان لوگوں میں عرب کے مشرکین اور دوسرے باطل پرست شامل ہیں ۔ 
قرآن مجید میں الله تعالی فرماتے ہیں یہ مذہبی فرقہ بندی بالکل فضول ہے ۔اصل چیز ہے الله جل شانہ کا حکم ماننا اور نیک اعمال کرنا ۔ جو شخص ان دونوں اصولوں پر کاربند ہو گا ۔ بس وہی سیدھی راہ پر ہے ۔ 
  درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...