*صبر اور نماز*

يَا أَيُّهَا ۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔ اسْتَعِينُوا۔۔۔۔  بِالصَّبْرِ 
اے ۔۔ وہ لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔ مدد مانگو ۔۔ ساتھ صبر کے 
وَالصَّلَاةِ ۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ مَعَ ۔۔۔ الصَّابِرِينَ۔ 1️⃣5️⃣3️⃣
اور نماز ۔۔ بے شک ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ ساتھ ۔۔۔ صبر کرنے والے 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ.  1️⃣5️⃣3️⃣

اے ایمان والو۔ صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو  بے شک الله تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے 

اِسْتَعِینُوْا ۔ ( مدد چاہو ) ۔ اس کا مصدر استعانت ہے ۔ اور مادہ۔ "عون " ہے  ۔ اس کے معنی مدد کے ہیں ۔ 
الله تعالی نے مسلمانوں کو ایک بہت بلند منصب بخشا  یعنی یہ کہ وہ دنیا سے شرک اور بُت پرستی دور کریں گے اور اس گوشہ گوشہ میں توحید کا پیغام پہنچائیں گے ۔اور دنیا کی اقوام کی ہدایت اور پیشوائی کا فریضہ انجام دیں گے ۔ اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے ضروری تھا کہ مسلمانوں میں اعلی اوصاف اور اخلاق حسنہ پیدا کئے جائیں ۔ 
ان میں سے تین کا ذکر ہو چکا ۔ یعنی یہ کہ 
مسلمان الله کی اطاعت و عبادت میں سرگرم رہیں 
اس کی دی ہوئی قوتوں کو صحیح مواقع پر اس کے حکم کے مطابق استعمال کریں 
اس کی نعمتوں کی ناشکری اور نا قدری نہ کریں 
اب یہاں الله تعالی کی مدد حاصل کرنے کے دو طریقے ارشاد فرمائے ہیں 
اوّل یہ کہ ۔۔۔ مشکلات اور مصیبتوں پر صبر کرو 
دوم یہ کہ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے رہو 
ہر مقصد کے حصول میں تکلیفوں اور مصیبتوں کا پیش آنا لازمی ہے ۔ اس لئے مصیبتوں اور رکاوٹوں کی بنا پر اپنے نصب العین کو نہ چھوڑنا۔ صبر ہے 
صبر ۔۔۔ برداشت اور مقابلے کی طاقت
 تنگی اور نا خوشگواری کی حالت میں اپنے آپ کو گھبراہٹ سے روکنا 
 مشکلات اور تکالیف کا ہمت اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرنا 
نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب نہ آنے دینا 
نماز کی حقیقت یہ ہے ۔ کہ الله جل شانہ کے ذکر و فکر سے روح کو قوت ملتی ہے 
جس جماعت میں یہ دو قوتیں پیدا ہو جاتی ہیں وہ کبھی ناکام نہیں رہ سکتی 
اس کے بعد یہ فرمایا ۔ جو لوگ اس مقصد کی تکمیل میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر کریں گے ۔ انہیں الله تعالی کی خاص معیت اور رفاقت نصیب ہو گی ۔ اور ظاہر ہے جس فرد یا جماعت کے ساتھ الله تعالی خود ہو وہ کبھی اپنے مقصد میں ناکام نہیں ہو سکتی ۔ ہمیں اپنے اندر یہ صفتیں پیدا کر لینی چاہئیں ۔ اور دعوت و تبلیغ میں سرگرم ہو جانا چاہئیے ۔ 

*ذکر و شکر*

فَاذْكُرُونِي ۔۔۔ أَذْكُرْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاشْكُرُوا
پس تم میرا ذکر کرو ۔۔۔ میں ذکر کروں گا تمہارا ۔۔۔ اور شکر ادا کرو 
 لِي ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔۔۔تَكْفُرُونِ۔  1️⃣5️⃣2️⃣
میرے لئے ۔۔۔ اور نہ ۔۔۔ تم کفر کرو 

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ.   1️⃣5️⃣2️⃣

سو تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور تم میرا احسان مانو اور ناشکری مت کرو 

فَاذْکُرُوْنِیْ ۔ ( سو تم مجھے یاد کرو ) ۔ اس کا مادّہ ذکر ہے ۔ جس کے معنی یاد کے ہیں ۔ چنانچہ تسبیح اور وظائف کو ذکر اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ الله تعالی کی یاد کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ 
اشْکُرُوْلِیْ ۔ ( میرا احسان مانو ) ۔ شکر کے معنی قدر پہچاننا ہے ۔ جسے احسان ماننا بھی کہتے ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ الله تعالی کی بخشی ہوئی نعمتوں اور قوتوں کا صحیح اور عمدہ استعمال کرنا ۔ناقدری سے پرھیز کرنا ۔جسے کفرانِ نعمت بھی کہتے ہیں ۔ 
پہلی آیات میں اُمّت مسلمہ کی ترقی کے قاعدے اور اصول بیان کر دئیے گئے ہیں ۔ تو اب ضروری ہے کہ قرآن مجید کی دعوت قبول کرنے والوں کو ان قاعدوں کے مطابق عمل کرنے کے لئے ھدایات دی جائیں ۔ اور انہیں کہا جائے کہ ان باتوں کو سامنے رکھ کر سرگرم ِ عمل ہوجائیں ۔ چنانچہ انہیں سب سے پہلے یہ حکم دیا گیا کہ الله کو ہر دم یاد رکھو 
اپنے رب کو یاد رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس کی بتائی ہوئی راہ پر پوری ہمت اور شوق سے چلتا رہے ۔ اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ، سوتے جاگتے غرض ہر کام میں الله تعالی کی رضا اور پسند کو مقدم رکھے ۔خاص طور پر اسیادکے لئے طریقہ بھی عبادت کا طریقہ بھی مقرر کر دیا ۔ جس کا قائم رکھنا ہمارا فرض ہے ۔ اس کے صلہ میں الله تعالی وعدہ فرماتا ہے کہ میں تم پر دنیا اور آخرت دونوں میں اپنے فضل وکرم کی بارش کرتا رہوں گا ۔ اور تم پر نئی نئی رحمتیں اور عنائیتیں ہوتی رہیں گی ۔ 
دوسرا حکم امّت مسلمہ کو یہ ہوا کہ ہماری ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہو ۔شُکر کی بہترین شکل یہ ہے کہ الله جل شانہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کے حکم کے مطابق اسی کے کاموں میں لگایا جائے ۔ اور الله تعالی نے انسان کے کام کرنے کی جو حدیں مقرر فرمائی ہیں ان کے اندر رہ کر کام کیا جائے ۔ اس سے نعمتوں میں اضافہ اور زیادتی ہوتی ہے ۔اسی اضافے اور زیادتی کو برکت کہتے ہیں ۔ 
تیسرا حکم یہ ہے الله تعالی کی نعمتوں اس کی بخشی ہوئی طاقتوں اور قوتوں کی ناقدری نہ کرو ۔ نا شکری سے نہ صرف نعمت چھن جاتی ہے بلکہ شدید عذاب اور سزا ملتی ہے ۔ 
جب الله تعالی کی طرف سے اتمام نعمت اور تکمیل ھدایت ہوچکی تو اب اب امت مسلمہ پر لازم ہے کہ زبان سے  دل سے ذکر سے۔ فکر سے ہر طرح سے الله تعالی کو یاد کرے ۔ اور اطاعت کرے ۔ الله جل شانہ فرماتے ہیں بدلے میں ہم تم کو یاد کریں گے یعنی نئی نئی رحمتیں اور عنائیتیں تم پر ہوں گی ۔ اور الله تعالی کی نعمتوں کا خوب شکر ادا کرتے رہو اور اس کی ناشکری اور معصیت سے بچتے رہو ۔ 
الله تعالی نے مسلمانوں کو تمام قوموں کی تعلیم اور راہنمائی کے لئے مقرر فرمایا ہے ۔ اس فرض کو کامیابی سے نبھانے کے لئے ضروری تھا کہ پہلے ان میں اعلٰی درجے کے اخلاق اور خوبیاں پیدا کی جائیں ۔ ان خوبیوں میں سے تین خوبیاں آج کے سبق میں بیان کی گئی ہیں ۔ جو تمام خوبیوں کی جڑ اور بنیاد ہیں ۔ 
یعنی یہ کہ ہم الله تعالی کی عبادت اور اس کے احکام کی اطاعت کریں ۔
اس کی دی ہوئی نعمتوں اور قوتوں کو اسی کے حکم کے مطابق خرچ کریں ۔ 
اور اس نے ہمیں جو صلاحیتیں ، قوتیں اور اسباب بخشے ہیں انہیں اس کی نافرمانی میں نہ لگائیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*خانہ کعبہ اور اتمام حجت*


وَمِنْ ۔۔حَيْثُ ۔۔۔ خَرَجْتَ ۔۔۔ فَوَلِّ ۔۔۔  وَجْهَكَ
اور سے ۔۔ جگہ ۔۔۔ آپ نکلے ۔۔ پس آپ پھیر لیجئے ۔۔ اپنا منہ 
شَطْرَ ۔۔۔ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔۔۔ وَإِنَّهُ ۔۔۔ لَلْحَقُّ
طرف ۔۔ مسجد الحرام  ۔۔۔ اور بے شک وہ ۔۔ البتہ سچ ہے 
مِن ۔۔ رَّبِّكَ ۔۔۔ وَمَا ۔۔ اللَّهُ
سے ۔۔ آپ کا ربّ ۔۔ اور نہیں۔۔۔ الله تعالی 
بِغَافِلٍ ۔۔ عَمَّا ۔۔۔ تَعْمَلُونَ.   1️⃣4️⃣9️⃣
بے خبر ۔۔ ان کاموں سے ۔۔ جو تم کرتے ہو 

وَمِنْ ۔۔ حَيْثُ ۔۔۔ خَرَجْتَ ۔۔۔ فَوَلِّ ۔۔۔ وَجْهَكَ
اور سے ۔۔۔ جہاں ۔۔ آپ نکلیں ۔۔۔ پس پھیر لیں ۔۔۔ اپنا چہرہ 
شَطْرَ ۔۔۔ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔۔۔ وَحَيْثُ ۔۔۔ مَا ۔۔ كُنتُمْ 
طرف ۔۔ مسجد الحرام ۔۔۔ اور جس جگہ ۔۔ ہو۔۔۔ تم 
فَوَلُّوا ۔۔ وُجُوهَكُمْ ۔۔۔ شَطْرَهُ ۔۔۔ لِئَلَّا ۔۔۔ يَكُونَ 
پس تم پھیر لو ۔۔۔ اپنے چہرے ۔۔۔اس کی طرف ۔۔۔  تاکہ نہ ۔۔ ہو 
لِلنَّاسِ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ حُجَّةٌ ۔۔۔ إِلَّا ۔۔ الَّذِينَ
لوگوں کے لئے ۔۔ تم پر ۔۔ کوئی حجت ۔۔ مگر ۔۔ وہ لوگ 
ظَلَمُوا ۔۔ مِنْهُمْ ۔۔۔ فَلَا ۔۔۔ تَخْشَوْهُمْ ۔۔۔ وَاخْشَوْنِي
ظلم کیا انہوں نے ۔۔۔ ان میں سے ۔۔ پس نہ ۔۔ تم ڈرو اُن سے ۔۔ اور ڈرو مجھ سے 
وَلِأُتِمَّ ۔۔ نِعْمَتِي ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ وَلَعَلَّكُمْ ۔۔۔ تَهْتَدُونَ.  1️⃣5️⃣0️⃣
اور تاکہ میں مکمل کروں ۔۔ اپنی نعمت کو ۔۔ تم پر ۔۔ اور تاکہ تم ۔۔ ھدایت پاؤ 

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ
وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ۔  1️⃣4️⃣9️⃣
اور جس جگہ سے آپ نکلیں تو اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیں ۔ اور بے شک آپ کے ربّ کی طرف سے یہی حق ہے اور الله تعالی تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں ہے ۔ 

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ
وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ   1️⃣5️⃣0️⃣

اور جہاں سے آپ نکلیں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیجئے  اور جس جگہ تم ہو اپنے منہ اسی کی طرف کر لو تاکہ لوگوں کو تم سے جھگڑنے کا موقع  نہ رہے ۔ مگر ان میں جو بے انصاف ہیں سو ان سے نہ ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرو اور تاکہ میں تم پر اپنا فضل مکمل کروں اور تاکہ تم سیدھی راہ پاؤ ۔ 

ان آیات میں بھی قبلہ کی تبدیلی  کا حکم مذکور ہے ۔اور ساتھ ہی ارشاد ہے کہ ایسا نہ ہو تمہارے عمل سے لوگوں کو حجت بازی کا موقع ملے اور مکہ کے کافر و مشرک یہ کہہ سکیں یہ دین ابراھیمی کے اچھے پیروکار ہیں ۔ جو ان کے کعبہ کو قبلہ بھی نہیں مانتے ۔ جہاں تک ڈر کا تعلق ہے تو ڈر صرف الله جل شانہ کا ہونا چاہئیے ۔ فضل و کرم کی تکمیل اور ہدایت و کامرانی اسی کے اختیار میں ہے ۔ 

*آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی خصوصیات*

كَمَا ۔۔ أَرْسَلْنَا ۔۔۔ فِيكُمْ ۔۔۔ رَسُولًا ۔۔۔ مِّنكُمْ 
جیسا ۔۔ ہم نے بھیجا ۔۔ تم میں ۔۔۔ رسول ۔۔۔ تم میں سے 
يَتْلُوا ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ آيَاتِنَا ۔۔۔ وَيُزَكِّيكُمْ
وہ تلاوت کرتا ہے ۔۔۔ تم پر ۔۔۔ ہماری آیات ۔۔۔ اور وہ پاک کرتا ہے تم کو 
وَيُعَلِّمُكُمُ ۔۔۔ الْكِتَابَ ۔۔۔ وَالْحِكْمَةَ
اور وہ سکھاتا ہے تم کو ۔۔۔ کتاب ۔۔ اور۔۔ اور حکمت کی باتیں 
وَيُعَلِّمُكُم ۔۔۔ مَّا ۔۔۔ لَمْ تَكُونُوا ۔۔۔۔ تَعْلَمُونَ۔  1️⃣5️⃣1️⃣
اور وہ سکھاتا ہے تم کو ۔۔ جو ۔۔ نہیں ہو تم ۔۔۔ جانتے 

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ.  1️⃣5️⃣1️⃣

جیساکہ ہم نے تم میں تمہیں میں سے رسول بھیجا  جو تمہارے سامنے ہماری آیات پڑھتا ہے ۔ اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں سکھاتا ہے کتاب اور اس کے اسرار اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے 

اس آیت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جن خصوصیات کا ذکر ہے وہ اس سے قبل آیہ نمبر  ۱۲۹ ۔ میں بھی بیان ہوچکی ہیں ۔
آپ صلی الله علیہ وسلم الله تعالی کی آیات پڑھتے ہیں اور لوگوں کو سناتے ہیں ۔
لوگوں کا تزکیۂ نفس فرماتے ہیں ۔ 
الله تعالی کی کتاب کی تعلیم دیتے ہیں 
کتاب کے اسرار و رموز اور عملی صورتیں سکھاتے ہیں 
اور یہ کہ تمہیں وہ کچھ بتاتے ہیں جو اس سے پہلے تمہیں بالکل معلوم نہ تھا ۔ 
انسانی ھدایت کے لئے الله تعالی نے مختلف اوقات میں مختلف قوموں کی طرف اپنے نبی بھیجے اور سچائی کا پیغام ان تک پہنچانے کا انتظام فرما دیا ۔رفتہ رفتہ ہر ایک قوم گروہ بندی میں مبتلا ہو گئی ۔ ضد اور تعصب سے کام لینے لگی ۔ اور آسمانی علم و ھدایت کے راستے سے بہت دُور جا پڑی ۔ الله تعالی نے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۔ تاکہ پہلی امتوں کے ناکارہ ہو جانے کے بعد نئی امت کی بنیاد ڈالیں ۔ اپنی تعلیم اور صحبت کے اثر سے انہیں عدل پسند بنائیں ۔ اور یہ امت تمام دنیا کی قوموں کی راہنمائی اور ھدایت کا منصب سنبھالے ۔ 
اس آیت میں اشارہ ہے کہ تحویل کعبہ یعنی قبلہ کا بدلنا ان نعمتوں کی تکمیل ہے ۔ جن کا سلسلہ پہلے ہی سے شروع ہو چکا ہے ۔ جس کی پہلی کڑی تمہارے ہی اندر سے ایک آدمی کو رسول بنا کر بھیجنا ہے ۔ تاکہ وہ تمہارے لئے تمام عظیم الشان نعمتوں کا سر چشمہ بنے ۔تمہیں قرآن مجید کی آیات سنائے ۔ظاہری اور باطنی پاکیزگی حاصل کرنے کے طریقے بتائے ۔ قرآن مجید کے قوانین پر چلنا سکھائے ۔ اور ان قوانین و اصولوں کی باریکیاں تمہیں سمجھائے ۔ تاکہ تم علم و عمل دونوں اعتبار سے دوسری امتوں پر فوقیت لے جاؤ ۔ اور انہیں تمہارا علم و عمل دیکھ کر سب سے افضل ماننے کے سوا کوئی چارا نہ رہے ۔ 
یہ بات بالکل واضح اور ظاہر ہے کہ اگر رسول الله صلی الله علیہ وسلم یہ سب انتظام تمہارے لئے نہ کر جاتے تو تم انجان رہتے ۔اور زندگی کے حل کا طریقہ تمہیں کبھی معلوم نہ ہو سکتا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*نیکی میں سبقت*

وَلِكُلٍّ ۔۔ وِجْهَةٌ ۔۔ هُوَ ۔۔ مُوَلِّيهَا 
اور ہر ایک کے لئے ۔۔۔ ایک سمت ہے ۔۔۔ وہ ۔۔ پھرنے والا ہے اس کی طرف 
فَاسْتَبِقُوا۔۔۔  الْخَيْرَاتِ ۔۔۔ أَيْنَ مَا ۔۔۔ تَكُونُوا ۔۔۔ يَأْتِ
پس تم سبقت کرو ۔۔۔ نیکیاں ۔۔ جہاں کہیں ۔۔۔ تم ہو گے ۔۔۔ لے آئے گا 
بِكُمُ ۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ جَمِيعًا ۔۔۔ إِنَّ ۔۔ اللَّهَ
تم کو ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اکٹھا ۔۔ بے شک ۔۔۔ الله تعالی 
عَلَى ۔۔ كُلِّ ۔۔۔ شَيْءٍ ۔۔۔قَدِيرٌ۔  1️⃣4️⃣8️⃣
پر ۔۔ ہر ۔۔ چیز ۔۔ قادر 

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا
إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.  1️⃣4️⃣8️⃣

اور ہر کسی کے لئے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے ۔ سو تم نیکیوں میں سبقت کرو ۔ جہاں کہیں تم ہو گے الله اکٹھا کر لائے گا ۔بے شک الله تعالی ہر چیز پر قادر ہے ۔ 

خَیْرَ ات ۔ ( نیکیاں ) ۔ خیر اس کا واحد ہے ۔ صدقہ و خیرات اور ہر قسم کی نیکی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ ہر وہ کام جو شریعت کے مطابق کیا جائے اور مقصد محض الله تعالی کو خوش کرنا ہو ۔ خیرات میں داخل ہے ۔ 
اہل کتاب کی گروہ بندی اور خود غرضی بیان کرنے کے بعد الله تعالی نے انہیں سیدھی راہ کی تلقین کی ۔اور بتایا کہ سچائی ایک ہی ہے ۔ جو سب کو دی گئی تھی ۔ لیکن گذشتہ امتوں نے اسے گم کر دیا ۔ 
قبلہ کا مقرر ہونا دین کے بنیادی مسائل میں سے نہیں ہے کہ اسے حق و باطل کا معیار سمجھ لیا جائے ۔ ہر اُمّت کے لئے اپنا اپنا قبلہ ہے ۔اور وہ اس کی طرف رُخ کر کے عبادت کرتی ہے ۔اصل چیز جو سمجھنے اور کرنے کی ہے ۔ وہ ہے " خیرات "  یعنی نیک کام ۔اس لئے اس میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو اور اسے ہی دینداری کی اصل بنیاد سمجھو ۔ 
اہلِ کتاب تعصب اور ضد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔حق کی طرف رجوع ہی نہیں کرتے تھے ۔ ہمیشہ مسلمانوں کے دلوں میں شک ڈالتے ۔ شرارتوں اور سازشوں میں پیش پیش رہتے ۔یہ لوگ اپنے دین کی تعلیمات سے غافل ہو کر معمولی مسائل میں الجھنیں پیدا کرتے ۔ اور کچھ نہیں تو وہ قبلے کا ہی سوال لے بیٹھے ۔ حالانکہ وہ ایسا اہم نہیں کہ اس کی بحث میں اپنے عظیم وقت کو گنواؤ ۔ قبلہ کو الله تعالی کا حکم سمجھو ۔ جو وقت اور مصلحت پر موقوف ہے ۔ اصل کام تو نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے ۔
اگر اُمت کا اجماع نیکی پر ہو گا اور وہ اندگی میں نیکی کو شامل کر لیں گے تو الله تعالی ان سب کو ایک مرکز پر جمع کر دے گا ۔ اختلافات ختم ہو جائیں گے ۔ اور مخالفتیں مٹ جائیں گی ۔ 

*اہلِ کتاب اور پیغمبر اسلام*

الَّذِينَ ۔۔۔ آتَيْنَاهُمُ ۔۔۔ الْكِتَابَ ۔۔۔ يَعْرِفُونَهُ
وہ لوگ ۔۔ دی ہم نے ان کو ۔۔ کتاب ۔۔ وہ پہچانتے ہیں اس کو 
كَمَا ۔۔۔ يَعْرِفُونَ ۔۔۔ أَبْنَاءَهُمْ ۔۔۔ وَإِنَّ 
جیسا کہ ۔۔۔ وہ پہچانتے ہیں ۔۔۔ اپنے بیٹوں کو۔۔ اور بے شک 
فَرِيقًا۔۔۔۔۔  مِّنْهُمْ ۔۔۔ لَيَكْتُمُونَ ۔۔۔ الْحَقَّ
ایک جماعت ۔۔۔ ان میں سے ۔۔ البتہ چھپاتے ہیں ۔۔۔ سچ 
وَهُمْ ۔۔۔ يَعْلَمُونَ۔  1️⃣4️⃣6️⃣
اور وہ ۔۔۔ جانتے ہیں 
الْحَقُّ ۔۔۔ مِن ۔۔۔ رَّبِّكَ ۔۔۔ فَلَا
سچ ۔۔ سے ۔۔۔ آپ کا ربّ ۔۔۔پس نہ 
تَكُونَنَّ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الْمُمْتَرِينَ.  1️⃣4️⃣7️⃣
آپ ہوں ۔۔۔ سے ۔۔ شک کرنے والے 

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ.   1️⃣4️⃣6️⃣

جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے ایسی اچھی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو ۔ اور بے شک ان میں سے ایک گروہ ہے جو حق کو جانتے بوجھتے چھپاتے ہیں ۔ 

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ.  1️⃣4️⃣7️⃣

حق تمہارے ربّ کی طرف سے ہے ۔ پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں 

اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنی مذھبی کتابوں کے ذریعے اچھی طرح جانتے تھے کہ آخر وقت میں ایک نبی آئے گا ۔ وہ اپنے دل سے کوئی بات نہ کہے گا ۔ بلکہ الله تعالی کی وحی کے مطابق تعلیم دے گا ۔ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ان لوگوں نے وہ نشانیاں آپ میں پائیں ۔ جو ان کی کتابوں میں درج تھیں ۔ وہ اچھی طرح پہچان گئے کہ یہ وہی نبی آخر الزماں ہے ۔ اور اس کی تعلیمات حق اور سچ ہیں ۔ لیکن محض دشمنی اور ضد کی وجہ سے انہوں نے آپ کو ماننے سے انکار کر دیا ۔اور تمام پیشن گوئیوں کو چھپانے لگے ۔ جو ان کی آسمانی کتابوں میں موجود تھیں ۔ اور یوں ظاہر کرنے لگے جیسے انہیں اس کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں ۔ 
الله تعالی پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو یقین دلا رہا ہے کہ اہلِ کتاب حق کو مانیں یا نہ مانیں آپ کے نبی ہونے کی پیشن گوئیوں کو چھپائیں یا ظاہر کریں آپ کے قبلہ کو صحیح سمجھیں یا نہ سمجھیں ۔ حق ہر حالت میں حق ہی ہے۔ نبی کی طرف سارے احکام ہمارے پاس سے بھیجے جاتے ہیں ۔ امت مسلمہ کا مستقل قبلہ خانہ کعبہ ہی ہو گا ۔ اس لئے کسی قسم کے شک اور تردد میں نہ پڑیں ۔ 
اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کے آنے کی پیشن گوئیاں قدیم آسمانی کتابوں میں موجود تھیں ۔ اہلِ کتا ب ان کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے تھے جیسا کہ باپ بہت سے بچوں میں سے اپنے بیٹوں کو پہچان لیتا ہے ۔ اور اپنے بچے کو پہچاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔ 
افسوس  اہلِ کتاب نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تمام نشانیاں  پائیں ۔ان کے دلوں نے گواہی دی مگر وہ آج تک پوری طرح تعصب سے بلند ہو کر حلقہ بگوش اسلام نہ ہوئے ۔ 

*اہلِ کتاب کی ہٹ دھرمی*

وَلَئِنْ ۔۔أَتَيْتَ ۔۔۔الَّذِينَ ۔۔۔ أُوتُوا ۔۔۔ الْكِتَابَ 
اور اگر ۔۔ آپ لائیں ۔۔ وہ لوگ ۔۔ جو دئیے گئے ۔۔کتاب 
بِكُلِّ ۔۔۔ آيَةٍ ۔۔۔ مَّا ۔۔۔  تَبِعُوا ۔۔۔ قِبْلَتَكَ 
ساری ۔۔ نشانیاں ۔۔ نہیں ۔۔ وہ پیروی کریں گے ۔۔۔ آپ کا قبلہ 
وَمَا ۔۔ أَنتَ ۔۔ بِتَابِعٍ ۔۔۔ قِبْلَتَهُمْ ۔۔۔ وَمَا
اور نہیں ۔۔ آپ ۔۔ پیروی کرنے والے ۔۔ اُن کا قبلہ ۔۔ اور نہیں 
 بَعْضُهُم ۔۔۔ بِتَابِعٍ ۔۔ قِبْلَةَ ۔۔۔ بَعْضٍ 
ان کے بعض ۔۔ پیروی کرنے والے ۔۔ قبلہ ۔۔ بعض 
وَلَئِنِ ۔۔۔ اتَّبَعْتَ ۔۔۔ أَهْوَاءَهُم ۔۔۔ مِّن بَعْدِ ۔۔۔ مَا 
اور اگر ۔۔ پیروی کی آپ نے ۔۔ ان کی خواہشات کی ۔۔ بعد اس کے ۔۔ جو 
جَاءَكَ ۔۔ مِنَ ۔۔ الْعِلْمِ 
آچکا آپ کے پاس ۔۔ سے ۔۔ علم 
إِنَّكَ ۔۔۔ إِذًا ۔۔۔  لَّمِنَ ۔۔۔ الظَّالِمِينَ۔  1️⃣4️⃣5️⃣
بے شک آپ ۔۔ اس وقت ۔۔ میں سے ۔۔ بے انصاف 

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم 
مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ. 1️⃣4️⃣5️⃣

اور اگر آپ اہل کتاب کے پاس لائے ساری نشانیاں تو بھی وہ آپ کے قبلہ کو نہ مانیں گے ۔ اور نہ آپ ان کا قبلہ ماننے والے ہیں اور نہ ان میں کوئی ایک دوسرے کا قبلہ تسلیم کرتا ہے ۔ اور اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی اس علم کے بعد جو آپ کو پہنچا تو بے شک آپ بھی بے انصافوں میں ہوئے ۔ 

اس آیت میں یہود کی ہٹ دھرمی اور ضد بیان کی گئی ہے ۔ الله تعالی فرماتا ہے کہ اے پیغمبر ! اگر آپ اہل کتاب کو اپنی پیغمبری کی ساری نشانیاں دکھا دیں ۔ خانہ کعبہ کے اصلی قبلہ ہونے کے سارے دلائل بیان کر دے وہ پھر بھی اسے قبلہ ماننے کو تیار نہیں ہوں گے ۔ 
بلکہ ضد ، حسد ، دشمنی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنے قدیم قبلہ پر ہی قائم رہیں گے ۔ اور چونکہ تمہیں ہم نے سب سے افضل اور ( حضرت ابراھیم علیہ السلام کا )  قبلہ عطا فرمایا ہے ۔ اس لئے تمہیں ان کے قبلہ کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اسرائیل کی امامت ختم ہوجانے کی وجہ سے آپ کو ایک مستقل ، اعلٰی اور عالمگیر قبلہ دیا گیا ہے ۔لہذا اہل کتاب اس چیز سے نا اُمید ہو جائیں کہ کبھی آپ ان کے قبلہ کو مانیں گے ۔ کیونکہ اب استقبالِ قبلہ کا حکم قیامت تک منسوخ نہیں ہو سکتا ۔ 
یہ بھی بتایا گیا کہ خود اہل کتاب ایک قبلہ کے پیرو نہیں ہیں ۔ یہودیوں کا قبلہ صخرۂ بیت المقدس ہے ۔ اور نصارٰی کا قبلہ بیت المقدس کی شرقی جانب ہے ۔ جہاں عیسٰی علیہ السلام کا نفخ روح ہوا تھا ۔ جب وہ  خود ایک قبلہ پر متفق نہیں تو وہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ تم ان کا قبلہ مانو گے ۔ 
آخر میں خود پیغمبر علیہ السلام کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر یہ جان لینے کے بعد کہ اصلی قبلہ خانہ کعبہ ہی ہے ۔ آپ نے اہل کتاب کا کہا مانا اور ان کے قبلے کو اختیار کر لیا تو آپ بھی بے انصافوں میں شامل ہوگے ۔ 
کیونکہ کوئی رسول کبھی کسی گناہ سے آلودہ نہیں ہوتا اور نبی سے یہ کام کسی طرح ممکن نہیں تو معلوم ہوگیا کہ آپ اہل کتاب کی ہرگز متابعت نہیں کریں گے کیونکہ یہ سراسر علم کے خلاف یعنی جہل اور گمراہی ہے ۔  
اس تنبیہ سے اُمّت کو یہ بتانا مقصود ہے کہ جھوٹے دین کی پیروی کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ حتی کہ اس میں بڑے سے بڑے آدمی کو بھی کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*خانہ کعبہ قبلہ ہو گیا*

وَحَيْثُ ۔۔ مَا كُنتُمْ ۔۔۔ فَوَلُّوا ۔۔۔ وُجُوهَكُمْ ۔۔۔ شَطْرَهُ 
اور جس جگہ بھی ۔۔۔ ہو تم ۔۔۔ پس پھیر لو ۔۔۔ اپنے چہرے ۔۔۔ اس کی سمت 
وَإِنَّ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ أُوتُوا ۔۔۔ الْكِتَابَ ۔۔۔۔ لَيَعْلَمُونَ 
اور بے شک ۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ دئیے گئے کتاب ۔۔۔ البتہ وہ جانتے ہیں 
أَنَّهُ ۔۔۔ الْحَقُّ ۔۔۔ مِن ۔۔۔ رَّبِّهِمْ ۔۔۔  وَمَا 
بے شک وہ ۔۔۔ سچ ۔۔۔ سے ۔۔۔ ان کا رب ۔۔۔ اور نہیں 
اللَّهُ ۔۔۔ بِغَافِلٍ ۔۔۔ عَمَّا ۔۔۔ يَعْمَلُونَ
الله تعالی ۔۔۔ بے خبر ۔۔ اس سے جو ۔۔۔ وہ کرتے ہیں 

وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ

اور جس جگہ تم ہوا کرو اسی کی طرف اپنے منہ پھیر لیا کرو  اور جنہیں کتاب دی گئی وہ خوب جانتے ہیں کہ یہی ٹھیک ہے ان کے رب کی طرف سے اور الله تعالی ان کاموں سے بے خبر نہیں جو وہ کرتے ہیں ۔ 

یہ بیان پہلے آچکا ہے کہ یہود و نصارٰی اپنے آپ کو دینِ ابراھیمی پر سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم ان کی اولاد میں سے ہیں ۔ لہذا ہمیں کوئی نیا دین قبول کرنے کی ضرورت نہیں ۔ قرآن مجید نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں صحیح معلومات دے کر بتایا کہ یہودیوں کا یہ قول غلط ہے ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام خالص توحید پر قائم تھے ۔ اور شرک سے بالکل پاک تھے ۔اگر یہودی یا عیسائی اپنے آپ کو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا پیروکار کہتے ہیں تو پھر انہیں دوسری راہیں چھوڑ کر اسلام کی بتائی ہوئی سیدھی راہ پر ہو لینا چاہئیے ۔ توحید اور نیک عملی کا قانون مضبوطی سے پکڑنا چاہئیے ۔ کیونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا مذہب یہی تھا ۔ 
اس کے بعد قرآن مجید میں الله تعالی نے فرمایا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام ہی کی دُعا کے نتیجے میں الله تعالی نے پیغمبر آخر الزماں کو دنیا میں بھیجا ۔اور ان کی تعلیم و تربیت سے یہ امت قائم ہوئی ۔اس لئے اس امّت کا جماعتی اور روحانی مرکز وہی ہو گا جو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا تھا ۔ یعنی خانہ کعبہ ۔۔۔ 
بیت المقدس صرف عارضی قبلہ تھا ۔ مسلامنوں کا قبلہ کعبہ ہی قرار دیا جاتا ہے ۔ مسلمان جس جگہ بھی ہوں گھر میں یا سفر میں ، شہر میں یا کسی گاؤں میں ، جنگل میں ، دشت میں یا صحرا میں ، بیت الله کے گرد و نواح میں یا بیت المقدس کے آس پاس غرض ہر جگہ نماز پڑھنے کے وقت کعبہ کی طرف رُخ کیا کریں ۔ 
اس کے ساتھ ہی الله تعالی نے یہ بھی فرمایا کہ اے مسلمانو !  تم اہل کتاب کی پرواہ نہ کرو ۔ کیونکہ وہ قبلہ کی تبدیلی کی حقیقت کو پہلے ہی اپنی کتابوں کے ذریعے جانتے ہیں ۔ اب اگر جان بوجھ کر وہ اس کے خلاف شک و شبہ پیدا کریں تو الله تعالی ان سے نبٹ لے گا ۔ کیونکہ وہ ان کے اعمال سے آگاہ ہے ۔ 

*رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آرزو*

قَدْ ۔۔ نَرَى ۔۔۔  تَقَلُّبَ ۔۔۔ وَجْهِكَ ۔۔۔فِي ۔۔۔السَّمَاءِ 
تحقیق ۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں ۔۔ آپ کا چہرہ ۔۔۔ میں ۔۔ آسمان 
فَلَنُوَلِّيَنَّكَ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ قِبْلَةً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ تَرْضَاهَا 
پس البتہ ہم ضرور بالضّرور پھیر دیں گے آپ کو ۔۔۔ قبلہ ۔۔ آپ راضی ہیں اس سے 
فَوَلِّ ۔۔۔ وَجْهَكَ ۔۔۔ شَطْرَ ۔۔۔ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
پس آپ پھیر لیجئے ۔۔ اپنا چہرہ ۔۔۔ طرف ۔۔ مسجد الحرام 

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ

تحقیق ہم آپ کے منہ کا آسمان کی طرف بار بار اٹھنا دیکھتے ہیں ۔ پس البتہ جس قبلہ کی طرف آپ راضی ہیں ہم آپ کو پھیر دیں گے  اب آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں ۔ 

ترضٰھَا ۔ ( جسے آپ پسند کرتے ہیں ) ۔ رضی اس کا مادہ ہے ۔ یہاں اس سے مراد خانہ کعبہ ہے ۔ جس کی تعمیر حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کی تھی ۔ تمام عربوں کا محبوب عبادت خانہ تھا ۔ 
وَجْھَکَ ۔ ( آپ کا چہرہ ) ۔لفظی معنی منہ یا چہرے کے ہیں ۔ لیکن اس میں سارا جسم بھی شامل ہوتا ہے ۔ یہاں مراد توجہ اور اشتیاق ہے ۔ 
اَلْمَسْجِدُ الحرام ۔ ( مسجد حرام ) ۔ عزت وحرمت والی مسجد ۔ یعنی مکہ مکرمہ کی وہ مسجد اعظم جس کے اندر خانہ کعبہ واقع ہے ۔ اسے مسجد حرام یعنی قابل احترام عبادت گاہ کہتے ہیں ۔ یہاں جنگ کرنا اور شکار کرنا حرام ہے ۔ 
مسلمانوں کا اصلی قبلہ خانہ کعبہ ہی تھا ۔ جو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا قبلہ تھا ۔ صرف تھوڑے دن  کے لئے بیت المقدس کو آزمائش کی خاطر قبلہ مقرر کیا گیا تھا ۔ یہودی طعنے دیتے تھے کہ جب مسلمانوں کی شریعت ہم سے مختلف ہے اور ابراھیمی مسلک کے موافق ہے تو ہمارا قبلہ کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دل چاہتا تھا کہ الله تعالی کی طرف سے خانہ کعبہ کو قبلہ بنانے کا حکم مل جائے ۔ تاکہ خانہ کعبہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھیں ۔ فرشتۂ وحی کے انتظار میں آپ کی نظر بار بار آسمان کی طرف اُٹھ جاتی تھی ۔ اس آیت میں اسی کیفیت کا بیان ہے ۔ 
الله جل شانہ نے آپ کی اس آرزو کو پورا کیا اور فرمایا جس قبلہ کی طرف رُخ کرکے تم نماز پڑھنا چاہتے ہو ۔ ہم اسی کو تمہارا قبلہ بنا دیں گے ۔جب قبلہ بدلنے کا حکم نازل ہوا تو آپ ظہر کی نماز با جماعت پڑھ رہے تھے ۔ دو رکعت بیت المقدس کی  طرف پڑھ چکے تھے ۔ نماز ہی میں آپ نے اور تمام نمازیوں نے کعبہ کی طرف رُخ پھیر لیا ۔اور باقی دو رکعتیں پوری کیں ۔ مدینہ منورہ کی اس مسجد کو " مسجد قبلتین " کہتے ہیں ۔ 

*تبدیلی قبلہ کی حکمت* ۔۔۔۔۔ *ایمان ضائع نہیں جاتا*

وَمَا ۔۔ جَعَلْنَا ۔۔۔  الْقِبْلَةَ ۔۔۔ الَّتِي ۔۔۔ كُنتَ 
اور نہیں ۔۔۔ ہم نے بنایا ۔۔ قبلہ ۔۔۔ وہ جو ۔۔ آپ تھے 
عَلَيْهَا ۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔ لِنَعْلَمَ ۔۔۔ مَنْ۔۔۔  يَتَّبِعُ 
اس پر ۔۔۔ مگر ۔۔ تاکہ ہم جان لیں ۔۔ کون ۔۔ وہ پیروی کرتا ہے 
الرَّسُولَ ۔۔۔ مِمَّن ۔۔۔ يَنقَلِبُ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ عَقِبَيْهِ
رسول ۔۔ اس سے جو ۔۔ پلٹ جاتا ہے ۔۔ پر ۔۔۔ اس کی ایڑیاں 

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ

اور ہم نے وہ قبلہ مقرر نہیں کیا تھا جس پر آپ پہلے تھے  مگر اس لئے کہ معلوم کریں کون رسول کا تابع رہے گااور کون اُلٹے پاؤں پِھر جائے گا ۔ 

لِنَعْلَمَ ۔ ( تاکہ معلوم کریں ) ۔ لفظ علم یہاں تمیز و شناخت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جس کام کے بارے میں الله تعالی کی طرف سے کوئی حکم موجود نہ ہوتا ۔ اس میں آپ پہلے انبیاء علیھم السلام کا طریقہ اختیار کرتے ۔مثلا نماز تو فرض ہو چکی تھی ۔ لیکن قبلہ کے بارے میں کوئی واضح حکم موجود نہ تھا ۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم یہودیوں کے قبلہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے ۔
وَمَا جَعَلْنَا ۔ سے صاف طور پر معلوم بھی ہوگیا کہ الله تعالی کو منظور تھا کہ شروع میں بیت المقدس قبلہ رہے ۔ جب آپ مکہ سے مدینہ تشریف لائے اس وقت بھی بیت المقدس ہی قبلہ رہا ۔ لیکن تقریبا سولہ ماہ بعد الله تعالی نے قبلہ بدلنے کا حکم دیا ۔ اور کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرمایا ۔ 
اس آیت میں الله تعالی فرماتا ہے کہ بیت المقدس کو عارضی طور پر تھوڑے عرصے کے لئے تمہارا قبلہ بنائے رکھنے سے غرض یہ تھی کہ فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں فرق کیا جا سکے ۔ 
مکہ کے مشرک بیت المقدس کے احترام کے قائل نہ تھے ۔اس لئے مکہ میں  اسلام  قبول کرنے کی واضح نشانی یہ رہی کہ مسلمان ہونے والا شخص بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے ۔ مدینہ کے یہودی اور عیسائی لوگوں کے نزدیک بیت الله کی کوئی عزت نہ تھی اس لئے مدینہ میں اسلام قبول کرنے کی نشانی یہ قرار پائی کہ بیت الله کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جائے ۔ اس طرح مسلمانوں اور غیر مسلم میں فرق کرنے میں آسانی میسر آئی ۔
 مکی زندگی میں بیت المقدس کی جگہ اگر خانہ کعبہ قبلہ ہوتا تو اس کو اہل مکہ شاید ایک قسم کی خوشامد سمجھتے ۔ اور دین کو خالص الله تعالی کے حکم کے طور پر نہیں بلکہ اپنے وطنی قبلہ کے اعتبار سے قبول کرتے ۔ حالانکہ اسلام ان تمام اغراض سے پاک ہے ۔ دین کی تعلیم کسی خاص قوم یا نسل کی رعایت سے نہیں آئی ۔ اسلام ساری دنیا کے لئے آیا ہے ۔ اس کی تعلیم تمام قوموں کے لئے آئی ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


ایمان ضائع نہیں جاتا


وَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   كَانَتْ ۔۔۔ لَكَبِيرَةً ۔۔۔۔۔۔۔  إِلَّا ۔۔۔عَلَى 

اور بے شک ۔۔۔ ہوئی ۔۔ البتہ دشوار ۔۔ مگر ۔۔ پر 

الَّذِينَ ۔۔۔۔۔هَدَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا ۔۔۔ كَانَ 

وہ لوگ ۔۔۔ ھدایت دی ۔۔ الله تعالی ۔۔ اور نہیں ۔۔ وہ 

اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لِيُضِيعَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   إِيمَانَكُمْ ۔۔۔۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔۔ ۔۔۔اللَّهَ 

الله تعالی ۔۔۔کہ ضائع کرے ۔۔ تمہارا ایمان ۔۔ بے شک ۔۔ الله تعالی 

بِالنَّاسِ ۔۔۔۔۔۔۔۔  لَرَءُوفٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     رَّحِيمٌ۔  1️⃣4️⃣3️⃣

لوگوں سے ۔۔ البتہ شفقت فرمانے والا ۔۔ مہربان 


وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ 

إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ.  1️⃣4️⃣3️⃣


اور بے شک یہ بات بھاری ہوئی سوائے ان لوگوں کے جنہیں الله تعالی نے ھدایت دی اور الله تعالی ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کرے  بے شک الله تعالی لوگوں پر بہت شفیق نہایت مہربان ہے ۔ 


اوّل سے آپ کے لئے خانہ کعبہ قبلہ مقرر ہوا تھا ۔ درمیان میں کچھ عرصے کے لئے امتحاناً بیت المقدس کو قبلہ بنا دیا گیا ۔ اور سب جانتے ہیں امتحان اُسی چیز کا ہوتا ہے جو نفس پر دشوار ہو ۔بیت الله مقدس ترین مقام ہے ۔ دنیا کے عبادت خانوں میں یہ سب سے قدیم اور متبرک ترین جگہ ہے ۔ لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مکی زندگی میں نماز بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھی جاتی تھی ۔ بیت المقدس کو قبلہ بنا دینا قریش اور عربوں  پر بھاری اور دشوار تھا ۔ 

اسی لئے الله تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ بیت المقدس کو قبلہ بنانا لوگوں کو بھاری اور دشوار معلوم ہوا ۔

عام لوگوں کو تو اس لئے کہ وہ عموما عرب اور قریش تھے اور کعبہ کی فضیلت کے معتقد تھے ۔ ان کو اپنے خیال ، عادت اور رسم و رواج کے خلاف کرنا پڑا ۔ وطن پرست عربوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا امتحان تھا ۔ عرب اور قریش دین ابراھیمی کے نام لیوا تھے اس لئے وہ کعبہ کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے  اور بیت المقدس کو قبلہ سمجھنا ان کے لئے ناگوار تھا ۔ 

الله تعالی نے فرمایا یہ امتحان اور آزمائش ان لوگوں کے لئے بھاری نہیں تھی جنہیں الله جل شانہ نے راہِ ھدایت دکھا دی ۔اور وہ اس کی حکمت سے واقفیت رکھتے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ساری دنیا کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ اور بیت المقدس کیونکہ انبیاء سابقین کا قبلہ رہا ہے اس لئے انہیں بیت المقدس کے قبلہ بنا دئیے جانے پر کوئی تعجب نہ تھا بلکہ وہ بلا چون و چرا الله تعالی کے سامنے جھک گئے اور اس امتحان سے بڑی کامیابی سے گزر گئے ۔ 

جب دوبارہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا تو یہودیوں نے کہا اگر کعبہ ہی قبلہ اصلی ہے تو اتنی مدت جو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی تھی وہ ضائع ہو گئی ۔ بعض مسلمانوں کو بھی شبہ گزرا کہ وہ تمام نمازیں جو بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے پڑھی گئیں وہ اکارت گئیں ۔ اور خاص طور پر وہ صحابہ تو بہت خسارے میں رہے جو قبلہ تبدیل ہونے سے پہلے فوت ہوگئے ۔ 

الله تعالی نے ان کے اس شک کو دور کر دیا ۔ اور فرمایا اصل چیز فرمانبرداری ہے ۔ بیت المقدس بھی ہمارے حکم سے قبلہ مقرر ہوا تھا ۔ اس لئے جنہوں نے اُس طرف منہ کرکے نماز یں ادا کیں ان کا ثواب اپنی جگہ قائم ہے ۔ الله تعالی تو انسانوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے ۔ وہ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تفسیر عثمانی 


*میانہ رو اور اعتدال پرور اُمّت*

وَكَذَلِكَ ۔۔۔ جَعَلْنَا۔۔۔ كُمْ ۔۔ أُمَّةً ۔۔۔ وَسَطًا 
اور اسی طرح ۔۔ ہم نے بنایا ۔۔ تم کو ۔۔ امت ۔۔ معتدل 
لِّتَكُونُوا ۔۔۔ شُهَدَاءَ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔  النَّاسِ 
تاکہ تم ہو ۔۔ گواہ ۔۔ پر ۔۔ لوگ 
وَيَكُونَ ۔۔۔ الرَّسُولُ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ شَهِيدًا 
اور ہو ۔۔۔ رسول۔۔۔ تم پر ۔۔۔ گوہی دینے والا 

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا 

اور اسی طرح ہم نے تم کو معتدل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہی دینے والا ہو ۔ 

وَسَطاً ۔ ( درمیانہ ۔ متوسط ۔ معتدل ) ۔اس کا مطلب ہے امّت مسلمہ ٹھیک سیدھی راہ پر ہے ۔ جس میں کچھ ٹیڑھا پن اور افراط و تفریط نہیں ۔اسلام کی حقیقی تعلیم اعتدال پسندی ہے ۔ اور اسلام پر ٹھیک ٹھیک عمل کرنے والے میانہ رو ہیں ۔ وہ ہر قسم کی زیادتی و کمی سے دور رہ کر درمیانہ راہ اختیار کرنے پر مامور ہیں ۔
شَھِیْدٌ ۔ ( گواہ ) ۔ شاہد اور شھادت کے لفظ بھی اسی مادے سے بنے ہیں ۔ گواہ کے معنی کے علاوہ اصطلاحی طور پر یہ لفظ الله تعالی کی راہ میں جان کی بازی لگا دینے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔یہاں اس کے معنی نگران بھی لئے جا سکتے ہیں ۔ 
اس آیت میں امت مسلمہ کی فضیلت اور برتری بیان کی گئی ہے ۔ 
الله تعالی فرماتا ہے کہ اے مسلمانو  !  جس طرح تمہارا قبلہ تمام دوسرے قبلوں سے افضل ہے ایسے ہی ہم نے تمہیں تمام امتوں سے افضل بنایا ہے ۔ اور تمہارے پیغمبر کو سب پیغمبروں سے برتر اور برگزیدہ کیا ہے ۔ 
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ کہ قیامت کے روز جب پہلی امتوں کے کافر اپنے پیغمبروں کے دعوے کو جھٹلائیں گے اور کہیں گے ہمیں تو کسی نے بھی دنیا میں ھدایت نہیں کی ۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت انبیاء کے دعوے کی صداقت کی گواہی دے گی ۔ اور رسول الله صلی علیہ وسلم جو اپنی اُمّت کے تمام احوال سے واقف ہوں گے اُنکی صداقت و عدالت پر گواہ ہوں گے ۔ اُس وقت وہ امتیں کہیں گی انہوں نے تو نہ ہمیں دیکھا اور نہ ہمارا زمانہ پایا پھر گواہی کیسے مقبول ہو سکتی ہے ۔ 
تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی امت جواب دے گی کہ ہمیں الله تعالی کی کتاب اور اُس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بتانے سے اس بات کا یقینی علم ہوا اس وجہ سے ہم گواہی دیتے ہیں ۔ 
اُمّتِ مسلمہ انفرادی اور اجتماعی طور پر دونوں حیثیتوں سے ساری دنیا کے لئے بطور نمونہ تیار کی گئی ہے دنیا کی ہر اُمت کو اسی  سانچہ میں ڈھلنا اور اسی معیار پر پورا اترنا چاہئیے ۔ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات بابرکات مسلمانوں کے لئے نمونہ اور مثال کی حیثیت رکھتی ہے ۔ 
اس آیت سے یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو دنیا کی دوسری قوموں کے لئے نمونہ کے طور پر قائم رکھیں ۔اخلاقی پستی سےہر صورت بچے رہیں۔ اور کبھی ایسی راہ اختیار نہ کریں ۔ جس سے ہماری اس اہم حیثیت میں فرق آئے ۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا نمونہ رکھنا چاہئیے ۔ معتدل مزاج امّت ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر قسم کی افراط و تفریط سے بچنا چاہئیے ۔ تاکہ ہم " اُمة وسطا " کے لقب کی لاج رکھنے کے قابل ہو سکیں۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*مسلمانوں کا قبلہ*

سَيَقُولُ ۔۔ السُّفَهَاءُ ۔۔۔  مِنَ ۔۔ النَّاسِ ۔۔۔مَا 
جلد ہی کہیں گے وہ ۔۔۔ بے وقوف ۔۔ سے ۔۔ لوگ ۔۔ کس نے 
وَلَّاهُمْ ۔۔۔ عَن ۔۔۔ قِبْلَتِهِمُ ۔۔۔الَّتِي ۔۔۔ كَانُوا
پھیر دیا اُن کو ۔۔ سے ۔۔ ان کا قبلہ ۔۔ وہ جو ۔۔ تھے وہ 
عَلَيْهَا ۔۔۔ قُل ۔۔۔ لِّلَّهِ ۔۔۔ الْمَشْرِقُ ۔۔۔ وَالْمَغْرِبُ ۔۔۔يَهْدِي
اس پر ۔۔ فرما دیجئے ۔۔ الله کے لئے ۔۔ مشرق ۔۔ اور مغرب ۔۔ وہ ھدایت دیتا ہے 
مَن ۔۔ يَشَاءُ ۔۔إِلَى ۔۔۔ صِرَاطٍ ۔۔۔۔مُّسْتَقِيمٍ۔ 1️⃣4️⃣2️⃣
جسے ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔ طرف ۔۔ راستہ ۔۔ سیدھا 

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ.  1️⃣4️⃣2️⃣

اب بے وقوف لوگ کہیں گے کہ مسلمانوں کو ان کے قبلے سے کس چیز نے پھیر دیا جس پر وہ تھے۔ فرما دیجئے مشرق اور مغرب الله ہی کا ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ پر چلائے ۔ 

اَلسُّفَھَآءُ مِنَ النَّاسِ ۔ ( بے وقوف لوگ ) ۔ سفھاء کا واحد سفیہ ہے ۔سفیہ کے معنی چھچھورے اور کم عقل کے ہیں ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو الله تعالی کے حکموں پر اعتراض اور تنقید کرتے ہیں ۔ یہاں یہودیوں کی طرف اشارہ ہے ۔ 
قِبْلَه ۔ ( قبلہ) ۔وہ چیز جو سامنے ہو ۔ یعنی وہ سمت اور جگہ جس کی طرف رُخ کر کے عبادت کی جائے ۔ یعنی مرکزِ توجہ اور عبادت میں رُخ کی سمت ۔ یہودیوں کا قبلہ بیت المقدس تھا ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب مکہ معظمہ  سے مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو سولہ سترہ مہینے بیت المقدس ہی کی طرف نماز پڑھتے رہے ۔ لیکن آپ کا دل بار بار چاہتا تھا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بنائے ہوئے خانہ کعبہ کو قبلہ بنائیں ۔ لیکن الله تعالی کے حکم کا انتظار تھا ۔ چنانچہ جب کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم آگیا تو یہود و نصارٰی اور مشرکین و منافقین کو مخالفت کا ایک اور بہانہ ہاتھ لگ گیا ۔ وہ اس پر طرح طرح کے اعتراض کرنے لگے ۔ کہ پہلے تو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے ۔ جو قدیم نبیوں کا قبلہ تھا ۔ اب انہیں کیا ہوا جو اُسے چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ بنا لیا ۔ بعض کہنے لگے کہ یہودیوں  سے عداوت اور حسد کی وجہ سے ایسا کیا ہے اور بعض نے کہا کہ وہ اپنے دین میں ہی شک وشبہ میں اور تردد میں ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سچے نبی نہیں ہیں ۔ 
مخالفوں کے اس اعتراض کے جواب میں الله تعالی نے فرما دیا ۔۔۔ کہ اے محمد صلی الله علیہ وسلم کہ ہم نے یہودیوں  سے حسد میں یا نفسانی خواہش کی پیروی میں یا اپنی مرضی و رائے سے قبلہ تبدیل نہیں کیا بلکہ الله جل شانہ کے حکم سے قبلہ کو بدلا ہے ۔ اور الله تعالی کے حکم کی فرمانبرداری و اتباع ہی ہمارا اصل دین ہے ۔ 
پہلے الله تعالی کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے  بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اب کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم آیا تو ہم نے اس کو دل سے قبول کر لیا ۔ ہم سے اس کی وجہ پوچھنا یا ہم پر اعتراض کرنا سخت حماقت ہے ۔ ہم تو ہر حکم میں الله تعالی کے فرمانبردار اور غلام ہیں ۔ یہ اعتراض کرنا کہ پہلے تم یہ کام کرتے تھے اب یہ کام کیوں کرنے لگے عقلمندوں کا کام نہیں ۔ اگر ان مختلف احکام کے اسرار دریافت کرتے ہو تو الله جل شانہ کے کاموں کی حقیقت اور مصلحت کون جان سکتا ہے ۔ اور تم بے وقوفوں کو کان سمجھا سکتا ہے ۔ 
اور قبلہ کی سمت کے تعین کرنے کا مقصد عبادت کرنے کا طریقہ سکھانا ہے اصل عبادت ہرگز نہیں ہے ۔ مشرق ہو یا مغرب ہر سمت الله تعالی کی ہے ۔ وہ ہر طرف ہے ۔ ہر سمت کی ہر شئے اس کے علم اور قبضے میں ہے اور اس بارے میں الله تعالی کا معاملہ جُدا جُدا ہے ۔ کسی کو اپنی حکمت اور رحمت کے مطابق ایک خاص رستہ بتایا جاتا ہے اور کسی کو دوسرا۔۔۔ 
تمام مواقع اور جہات کا وہ مالک ہے ۔جس کو جس وقت چاہتا ہےاس کو ایسا رستہ بتا دیتا ہے جو نہایت سیدھا اور سب راستوں سے مختصر اور قریب تر ہو ۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنے پیغام اور راہنمائی سے نوازتا ہے ۔ چنانچہ ہم کو اس وقت اُس قبلہ کی ھدایت فرمائی جو سب قبلوں میں افضل اور بہتر ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*پارہ اوّل کے اسباق کا خلاصہ*

الحمد لله قرآن مجید کا پہلا پارہ ہم نے الله رحمان و رحیم کی مہربانی اورکرم سے سبقاً سبقاً ختم کر لیا ہے ۔ اب ایک نظر اس کے اسباق کے خلاصے پر ڈالتے ہیں ۔ تاکہ چند الفاظ میں کلام الله کا مفہوم ذہن میں آجائے ۔ 
سورہ بقرہ کی تمہید میں یہ بیان کیا گیا کہ اس سورۃ کا موضوع یہ ہے کہ اس میں ایسی تعلیم دی جائے جو مسلمانوں میں صحیح چال و چلن پیدا کرے ۔ وہ اپنے مذہب اور اخلاق کے پابند ہو کر دنیا وآخرت کی انتہائی کامیابیاں حاصل کریں ۔خالص مذہب اور اخلاق حسنہ سمجھانے کے لئے ضروری تھا کہ دنیا میں جس قدر قومیں اور امتیں آباد ہیں ۔ ان کے مذہب ، رسموں اور عقیدوں کےاختلاف ظاہر کئے جائیں ۔ ان کی کمزوریوں سے آگاہ کیا جائے اور پھر سیدھے راستے کی تعلیم دی جائے ۔ 
قرآن مجید کے پہلے پارے میں سب سے پہلے وحی اور الہام کی ضرورت بتائی گئی ۔ اور بیان کیا گیا قرآن مجید ایک الہامی کتاب ہے ۔اس کی تعلیمات جو شخص قبول کرے گا اور اس کے احکام کی تعمیل کرے گا وہ سیدھی راہ پا لے گا ۔ اور کامیاب ہو گا ۔ 
اس کے بعد بتایا گیا کہ قرآن مجید کی تعلیمات جب پیش کی جائیں گی تو تین قسم کے لوگ ہوں گے ۔
جو قرآن مجید کی تعلیمات کو قبول کر لیں گے ۔اور اس کے احکام پر پابند ہو جائیں گے ۔یہ ہر قسم کی کامیابی حاصل کریں گے ۔ 
دوسرے وہ جو سختی سے مخالفت کریں گے ۔ اور اس کے ماننے والوں سے دشمنی رکھیں گے ۔ یہ کافر ہوں گے اور بڑے عذاب کے مستحق ہوں گے ۔ 
تیسرے وہ جو دونوں جماعتوں سے تعلق رکھیں گے ۔ مسلمانوں میں مسلمان اور کفّار میں کافر بن کر رہیں گے ۔ان منافقوں کو درد ناک عذاب ملے گا ۔ 
پھر کفار و منافقین کو نصیحت کرنے کے بعد انہیں قانون الہی کی طرف توجہ دلائی کہ وحی پر صرف وہی لوگ نکتہ چینی اور اعتراض کرتے ہیں جن میں تین مرض ہوں ۔ 
(ا) ۔ ایمان کمزور ہو ۔ 
(ب) ۔ طبیعت ضعیف ہو ۔ 
)ج) ۔ عقل  و دانش کی کمی ہو ۔ 
پھر بتایا کہ مذھب انسان کی فطرت میں داخل ہے ۔ اس لئے انسان الہام ربّانی کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہے اپنی فطرت کی وجہ سے ۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کو جب خلیفہ بنایا گیا اور پھر زمین پر بھیجا گیا تو آپ پریشان رہے ۔ یہاں تک کہ الله تعالی نے ان پر چند کلمات الہام کئے جو ان کے اطمینان قلب کا باعث ہوئے ۔ 
اس کے بعد قرآن مجید کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ۔ اور یہودیوں کی تین خرابیوں کا ذکر کیا گیا ۔ 
علمی ۔۔۔ عملی ۔۔۔ اور انتظامی 
اور انہیں بتایا گیا کہ تم نے بدکرداریاں اور بدعملیاں کی ہیں ۔ اس لئے تم سے حکومت چھین لی گئی ۔  ان کے عالموں ، دولت مندوں اور لوگوں کی باطل پرستیوں اور غلط عقیدوں کو بیان کیا گیا ۔ 
اور بتایا گیا کہ بنی اسرائیل مسلمانوں کی شریف رعایا بننے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے ۔ اس لئے مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے تعلقات ان سے توڑ لیں ۔ 
بعد میں ابراھیم علیہ السلام کی دُعا ، بیت الله کی تعمیر ،  حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ، آپ کے اخلاق و اوصاف اور امّت مسلمہ کا ذکر فرمایا ۔ 

*اپنے اعمال ہی کام آئیں گے*

تِلْكَ ۔۔   أُمَّةٌ ۔۔۔ قَدْ ۔۔۔ خَلَتْ ۔۔۔لَهَا
وہ ۔۔ جماعت ۔۔ تحقیق گزر چکی ۔۔۔ اس کے لئے 
مَا ۔۔ كَسَبَتْ ۔۔۔ وَلَكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ مَّا ۔۔۔۔۔ ۔۔ كَسَبْتُمْ
جو ۔۔۔ اس نے کمایا ۔۔ اور تمہارے لئے ۔۔ جو ۔۔ تم نے کمایا 
وَلَا ۔۔۔ تُسْأَلُونَ ۔۔۔ عَمَّا ۔۔ كَانُوا ۔۔۔  يَعْمَلُونَ.   1️⃣4️⃣1️⃣
اور نہیں ۔۔۔ تم سوال کئے جاؤ گے ۔۔۔ اس کا ۔۔ تھے وہ ۔۔۔ وہ کرتے 

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔  1️⃣4️⃣1️⃣

وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے لئے جو انہوں نے کیا اور تمہارے لئے جو تم نے کیا اور تم سے ان کے کاموں کی کچھ پوچھ نہیں ہوگی ۔

یہ آیت پہلے بھی گزر چکی ہے ۔اور اب دوبارہ یہودیوں اور عیسائیوں کو مزید تنبیہ کرنے کے لئے لائی گئی ہے ۔ اس میں عام فہم دلیل سے ان کے عقیدوں کو رد کیا گیا ہے ۔ 
اہل کتاب کو اس بات پر بڑا فخر تھا کہ وہ پیغمبروں کی نسل سے ہیں اس لئے ان کے گناہوں کی پکڑ نہیں ہوگی ۔اس عقیدے کی وجہ سےوہ لوگ ہر طرح کی خلاف شرع باتوں اور گناہوں کو جائز سمجھتے تھے ۔اور روز مرہ کی زندگی میں نیکی اور بدی میں تمیز نہیں کرتے تھے ۔ اور ان کا خیال تھا کہ ان کے بزرگ چونکہ انہی باتوں پر قائم تھے جن پر اب وہ قائم ہیں ۔ اس لئے انہیں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ 
الله تعالی نے ان کے ان غلط عقائد کو قطعی باطل قرار دیا اور فرمایا کہ پہلے جو لوگ گزر چکے ہیں میں ان کے بارے میں خوب جانتا ہوں ۔ وہ اصل توحید پر قائم تھے ۔ ہرگز یہودی یا نصرانی نہیں تھے بلکہ سب سے ہٹ کر صرف الله تعالی کے فرمانبردار تھے ۔ اور الله تعالی کے ہاں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمھارے باپ دادا کیا کرتے تھے بلکہ تم سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ۔ 
ان کی نیکیاں تمہارے یا کسی اور کے کام نہیں آسکتی ۔ ہر شخص اور ہر قوم کی اپنی نیکیاں ہی اس کے کام آ سکتی ہیں ۔ اس لئے دوسروں کے اعمال پر بھروسہ کرنا نادانی ہے ۔ 
کسبت  یعنی کمائی یہ قرآن مجید کا خاص انداز بیان ہے ہم جس کو فعل یا عمل کہتے ہیں ۔ الله تعالی اسے کسب یا کمائی کہتا ہے ۔ ہم جو بھی فعل یا عمل کرتے ہیں اس کا  اچھا یا برا نتیجہ ہوتا ہے  جو الله کی خوشنودی یا ناراضگی کا سبب بنتا ہے ۔ وہی نتیجہ ہماری کمائی ہے ۔ اور الله جل شانہ کے نزدیک کیونکہ اس نتیجے ہی کی اہمیت ہے اس لئے عمل کے لئے کسب کا لفظ فرمایا ہے ۔ 
جب کوئی قوم اچھے کام چھوڑ کر بزرگوں کی میراث پر بھروسہ کرکے بیٹھ جایا کرتی ہے ۔ اس قوم کا زندہ رہنا اور فلاح و کامرانی حاصل کرنا محال ہو جاتا ہے ۔دنیا میں بہت سی قومیں اس غلط فہمی کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں ۔
الله تعالی ہمیں صحیح عقائد پر قائم رکھے اور نیک کاموں کی توفیق بخشے ۔ آمین 

*کتمانِ حق*

أَمْ ۔۔۔تَقُولُونَ ۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔ إِبْرَاهِيمَ ۔۔۔وَإِسْمَاعِيلَ 
کیا ۔۔ تم کہتے ہو ۔۔ بے شک ۔۔ ابراھیم ۔۔ اور اسماعیل 
وَإِسْحَاقَ ۔۔۔ وَيَعْقُوبَ ۔۔۔ وَالْأَسْبَاطَ ۔۔۔كَانُوا 
اور اسحاق ۔۔ اوریعقوب ۔۔۔ اور اولادیں علیھم السلام ۔۔۔ تھے وہ 
هُودًا ۔۔۔ أَوْ نَصَارَى ۔۔۔ قُلْ ۔۔۔ أَ ۔۔ أَنتُمْ ۔۔ أَعْلَمُ
یہودی ۔۔۔ یا نصارٰی ۔۔ کہہ دو ۔۔ کیا ۔۔ تم ۔۔ زیادہ جانتے ہو 
أَمِ ۔۔ اللَّهُ ۔۔۔  وَمَنْ ۔۔۔ أَظْلَمُ ۔۔۔ مِمَّن
یا ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اور کون ۔۔ بڑا ظالم ۔۔ اس شخص سے 
كَتَمَ ۔۔۔ شَهَادَةً ۔۔۔ عِندَهُ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔اللَّهِ
چھپائی اس نے ۔۔۔ گواہی ۔۔ اس کے پاس ۔۔ سے ۔۔ الله تعالی 
وَمَا ۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ بِغَافِلٍ ۔۔۔ عَمَّا ۔۔۔تَعْمَلُونَ۔   1️⃣4️⃣0️⃣
اور نہیں ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ بے خبر ۔۔ اس سے جو ۔۔ تم کرتے ہو 


أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ.   1️⃣4️⃣0️⃣

کیا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب علیھم السلام اور ان کی اولادیں  وہ یہودی یا عیسائی تھے  فرما دیجئے کہ تمہیں زیادہ خبر ہے یا الله تعالی کو  اور اُس سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جس نے گواہی چھپائی جو اس کے پاس الله تعالی سے ثابت ہو چکی اور الله تعالی تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں ۔ 

اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کی ایک اور غلط فہمی اورمن گھڑت عقیدے کا جواب دیا گیا ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے بزرگ حضرت ابراھیم ۔ اسماعیل ۔ اسحاق ۔ یعقوب علیھم السلاماور ان کی اولادیں یا تو یہودی مذھب کے پیروکار تھے یا نصرانی ( عیسائی ) مذہب کے نعوذ بالله وہ بھی اس فرقہ پرستی میں مبتلا تھے ۔ 
الله تعالی فرماتا ہے ۔ کہ اے اہلِ کتاب تم واقعات کو توڑ موڑ کر اور صداقتوں کی صورتیں بدل بدل کر جو کچھ چاہوسمجھتے جاؤ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ سب حضرات خالص توحید کے دین پر قائم رہنے والے اور اسی پر دوسروں کو قائم کرنے والے تھے ۔ اور اسی کا نام اسلام ہے ۔ تمہارا علم الله تعالی کے مقابلے میں کچھ نہیں بلکہ تمہارے علم کو اُس کے علم سے کوئی نسبت نہیں ۔ تم لوگ سچائیوں کو جان بوجھ کر چھپاتے ہو ۔ تمہارے پاس الله تعالی کی کتابیں پہنچ چکی ہیں ۔ جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اسلام دینِ برحق ہے ۔
حضرت ابراھیم ، اسماعیل ، اسحاق اور یعقوب علیھم السلام کامل مؤمن اور توحید یعنی اسلام کے پیروکار تھے ۔ تمہاری کتابوں میں بھی یہ صاف لکھا ہوا ہے ۔ کہ آخر زمانہ میں ایک رسول برحق دنیا میں آئے گا ۔ تم جانتے بوجھتے اس واقعی اور حق بات کو چھپا رہے ہو اور حق بات کو چھپانے والے سے بڑا ظالم اور کون ہو گا ۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ سچائی اور حقیقت کو چھپانا الله تعالی کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے ۔ ہمیں بھی اس سے بچنا چاہئیے ۔ 

*ملتِ ابراھیمی*

وَقَالُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  كُونُوا ۔۔۔هُودًا۔۔۔  أَوْ نَصَارَى 
اور کہا انہوں نے ۔۔۔ہوجاؤ ۔۔ یہودی ۔۔ یا عیسائی 
تَهْتَدُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    قُلْ ۔۔۔۔۔۔۔ بَلْ ۔۔۔ مِلَّةَ ۔۔۔إِبْرَاهِيمَ 
تم ھدایت پاؤ گے۔۔ کہہ دو ۔۔ بلکہ ۔۔ملّت ۔۔۔ ابراھیم علیہ السلام 
حَنِيفًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَمَا  ۔۔۔ كَانَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔الْمُشْرِكِينَ۔  1️⃣3️⃣5️⃣
ایک ہی طرف ۔۔۔ اور نہیں ۔۔ تھے وہ ۔۔۔ سے ۔۔ مشرک 

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ.  1️⃣3️⃣5️⃣

اور وہ کہتے ہیں یہودی یا نصرانی ہو جاؤ تو تم ھدایت پالو گے ۔فرما دیجئے کہ ہرگز نہیں بلکہ ہم نے ابراھیم علیہ السلام کی راہ اختیار کی جو ایک راہ اختیار کرنے والے تھے  اور شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے 

مِلَّةَ اِبْرَاھِیْمَ ۔ ( ابراھیم علیہ السلام ) ۔ اس سے مراد وہ خالص قواعد وضوابط اور قوانین ہیں ۔ جو حضرت ابراھیم علیہ السلام نے جاری کئے ۔ اور ایک جماعت ان اصولوں پر جمع ہو گئی ۔ 
حَنِیْفًا ۔ ( یک طرفہ ) ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگ مختلف چیزوں کو پوجتے تھے ۔اور سمجھتے تھے ہمارے تمام کام ان سے چلتے ہیں ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ان سب سے چھڑا کر ایک الله تعالی کی عبادت کی طرف بلایا اور خود بھی سب سے کٹ کر اس ایک الله کے ہو رہے ۔ اسی لئے آپ کو "حنیف" کا لقب ملا ۔ 
قرآن مجید میں الله تعالی نے اہلِ کتاب اور مشرکوں کے تمام جھوٹے دعووں کی تردید کر دی ۔ ان کی دلیلوں کو غلط ثابت کرکے روشن اور واضح دلائل کے ساتھ حق قبول کرنے کی دعوت دی ۔یہودیوں اور عیسائیوں کو چاہئیے تھا کہ قرآن مجید کی سیدھی اور سچی تعلیم قبول کر لیتے ۔ اس کے بجائے انہوں نے حسد اور ضد سے کام لیا ۔اور اُلٹا مسلمانوں کو یہودیت اور عیسائیت کی دعوت دینے لگے ۔مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ہمارا دین قبول کر لو ۔ تو تمہیں دُنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہو جائے گی ۔ 
الله تعالی نے ان کی اس دعوت کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلمکو ساری اُمّت کی طرف سےیہ جواب دینے کو کہا کہ اے اھل کتاب ! تم نے اپنی کتابوں اور شریعتوں میں بے شمار تبدیلیاں کر دی ہیں ۔ اور ہمارا دین بس اسی قدیم دینِ توحید پر ہے ۔ جو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا تھا ۔ ہم اسی دین پر قائم ہیں اور ہم نے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ۔ 
دوسرے یہ کہ تم کس منہ سے اپنے دین کو حضرت ابراھیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہو ۔ وہ تو شرک کے قریب سے بھی نہیں ہو کر گزرے تھے ۔ وہ خالص توحید پر قائم تھے ۔اور تم لوگوں کا مذہب تو اب شرک کی گندگیوں سے بھرا ہوا ہے ۔ تم کس طرح دینِ حق اور نجات کے دعویدار ہو سکتے ہو ۔

الله کا رنگ. سورۃ بقرہ ۔ آیت : 138,139

الله کا رنگ 

صِبْغَةَ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔  وَمَنْ ۔۔۔ أَحْسَنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مِنَ 
رنگ ۔۔ الله تعالی ۔۔ اورکون ۔۔۔ زیادہ اچھا ہے ۔۔ سے 
اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔   صِبْغَةً ۔۔۔ وَنَحْنُ ۔۔۔ لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   عَابِدُونَ۔ 1️⃣3️⃣8️⃣
الله تعالی ۔۔۔ رنگ ۔۔ اور ہم ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔  عبادت گزار ہیں 

قُلْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَتُحَاجُّونَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهِ 
فرما دیجئے  ۔۔۔ کیا تم جھگڑا کرتے ہوں ہم سے ۔۔۔ میں ۔۔۔ الله تعالی 
وَهُوَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   رَبُّنَا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وَرَبُّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وَلَنَا 
اور وہ ۔۔۔ ہمارا رب ۔۔۔ اور تمہارا رب ۔۔ اور ہمارے لئے 
أَعْمَالُنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔      وَلَكُمْ ۔۔۔۔۔۔ ۔ أَعْمَالُكُمْ 
ہمارے اعمال ۔۔۔ اور تمہارے لئے ۔۔۔ تمہارے اعمال 
وَنَحْنُ ۔۔   لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    مُخْلِصُونَ. 1️⃣3️⃣9️⃣
اور ہم ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ خالص 

صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ.  1️⃣3️⃣8️⃣

ہم نے الله تعالی کا رنگ قبول کر لیا  اور کس کا رنگ بہتر ہے الله تعالی کے رنگ سے اور ہم اس کی ہی بندگی کرتے ہیں ۔

قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ.   1️⃣3️⃣9️⃣

فرما دیجئے کیا تم ہم سے جھگڑا کرتے ہو الله تعالی کے بارے میں حالانکہ وہی ہمارا اور تمہارا رب ہے ۔ اور ہمارے لئے ہمارے عمل ہیں اور تمہارے لئے تمہارے عمل اور ہم تو خالص اسی کے لئے ہیں ۔ 

صِبْغَۃَ اللهِ ۔ ( الله کا رنگ ) ۔ مراد ہے الله تعالی کا دین ۔ محاورہ کے اعتبار سے یہاں ایک لفظ مخذوف ہے ۔ یعنی قَبِلْنَا ۔ ( ہم نے قبول کیا ) ۔اس طرح پورے جملے کے معنی یہ ہوں گے ۔ ہم نے الله تعالی کا رنگ یعنی الله تعالی کا دین قبول کیا ۔
اہل کتاب یہودی اور عیسائی ان آیتوں سے پھر گئے اور شیخی میں آکر یہ کہنے لگے کہ ہمارے یہاں ایک رنگ ہے جو مسلمانوں کے ہاس نہیں ۔ وہ  اپنے بچوں کو رنگدار پانی میں بٹھا تے اور کوئی مسیح کا دین قبول کرے تو اس پر رنگین پانی چھڑکتے ۔  اسے اصطباغ  یعنی بپتسمہ  کہتے ہیں ۔اسی طرح نصرانیوں نے ایک زرد رنگ بنا رکھا ہے ۔ جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا یا کوئی ان کے دین میں آتا تو اُس کو اُس رنگ میں غوطہ دے کر کہتے کہ خالص پاکیزہ  نصرانی ہو گیا ہے ۔ گویا ان کے نزدیک مذہب کا رنگ پانی سے چڑھتا ہے ۔حالانکہ اصل رنگ وہ ہے جو ایمان اور کردار سے پیدا ہو ۔ 
اس کے مقابلے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے الله جل جلالہ کا رنگ قبول کیا ۔ کہ اس دین میں آکر انسان ہر طرح کی ناپاکی سے پاک ہوتا ہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں الله تعالی کا نام  پہنچا دیا کرو ۔ چنانچہ پیدا ہوتے ہی بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں تکبیر کہی جاتی ہے ۔یہ اس کو دینِ فطرت کی طرف بلاوا ہے ۔ 
اہلِ کتاب کو پھر کہا جاتا ہے کہ الله تعالی کے بارے میں تمہارا یہ خیال اور عقیدہ جس کی بنیاد محض  کَٹ حجتی ہے کہ الله کی عنایت و رحمت صرف تمہارے لئے خاص ہے سراسر غلط ہے ۔ وہ جیسا تمہارا ربّ ہے ۔ ویسا ہی ہمارا بھی ربّ ہے ۔اور ہم جو اعمال کرتے ہیں خالص اسی کے لئے کرتے ہیں ۔ تمہاری طرح ہم اپنے بزرگوں کی نیکیوں کواپنے لئے کافی سمجھ کر خود بدعملی اور گناہ کی زندگی بسر نہیں کرتے ۔ بلکہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے اعمال کو درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور نہ ہی تعصب اور نفسانیت سے کام لیتے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ الله تعالی تمہارے اعمال قبول کر لے اور ہمارے اعمال  اس کی بارگاہ میں مقبول نہ ہوں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
تفسیر عثمانی 

*الله کافی ہے*

فَإِنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِمِثْلِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔آمَنتُم 
پس اگر ۔۔۔ وہ ایمان لائیں ۔۔۔ جس طرح ۔۔۔ جو ۔۔ ایمان لائے تم 
بِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔   فَقَدِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اهْتَدَوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔ وَّإِن ۔۔۔۔۔۔   تَوَلَّوْا
اس پر ۔۔۔ پس تحقیق ۔۔۔ ہدایت پائی انہوں نے ۔۔۔ اور اگر ۔۔ وہ پھر گئے 
 فَإِنَّمَا ۔۔۔۔۔۔۔    هُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ شِقَاقٍ 
پس بے شک ۔۔۔ وہ ۔۔ میں ۔۔۔ ضد 
فَ ۔۔۔۔۔۔۔   سَيَكْفِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  كَ ۔۔۔  هُمُ 
پس ۔۔۔ عنقریب وہ کافی ہے ۔۔ آپ ۔۔ وہ 
اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     وَهُوَ ۔۔ السَّمِيعُ ۔۔۔۔الْعَلِيمُ۔ 1️⃣3️⃣7️⃣
الله تعالی ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ سننے والا ۔۔۔ جاننے والا 

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ 
فَسَيَكْفِیكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.  1️⃣3️⃣7️⃣

پس اگر وہ بھی اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے تو انہوں نے بھی ھدایت پائی  اور اگر پھر جائیں تو وہی ضد پر ہیں پس عنقریب ان کے مقابلے میں آپ کے لئے الله تعالی کافی ہے اور وہی سننے والا جاننے والا ہے ۔ 

قرآن مجید نے اپنی صداقت اور اپنے کلامِ الٰہی ہونے  کا ثبوت دے کر اہل کتاب کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ ان کے باطل عقیدوں کی تردید کی ۔ غلط آرزؤں کو بیہودہ قرار دیا ۔ اور انہی کے دلائل سے ثابت کر دیا کہ جس دینِ ابراھیمی پر قائم ہونے کا وہ دعوٰی کرتے ہیں اس کی اصل شکل ان کے پاس باقی نہیں رہی ۔اب اس قدیم دین کی اصلی شکل قرآن مجید پیش کر رہا ہے ۔ اس لئے انہیں ہر صورت اسلام قبول کرکے دین و دنیا کی فلاح حاصل کرنی چاہئیے ۔ 
 وعظ ونصیحت کی یہ تمام باتیں سُن کر بھی یہود و نصارٰی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے ۔ بلکہ خود اسلام قبول کرنے کی بجائے اُلٹا  مسلمانوں کو دعوت دیتے رہے کہ وہ یہودیت اور عیسائیت اختیار کر لیں ۔ اس سے زیادہ ڈھٹائی ، تعصب اور خود غرضی کیا ہو سکتی ہے ۔ 
اس آیت میں الله تعالی فرماتا ہے ۔ اے پیغمبر ( صلی الله علیہ وسلم ) ۔ آپ نے ہمارا پیغام پہنچا کر اپنا فرض پورا کر دیا ۔ اب اگر یہ لوگ اپنا بھلا چاہتے ہیں تو اسلام  قبول کر لیں ۔ کامیاب ہو جائیں گے ہم ان کے پچھلے گناہ معاف کر دیں گے ۔ لیکن اگر یہ سب کہنے سننے کے بعد بھی اس سے منہ پھیریں  تو پھر یہ ان کی سخت دلی اور ہٹ دھرمی ہے ۔ اور کچھ نہیں ۔ اے پیغمبر ان لوگوں کی اس ضد اور دشمنی و تعصب کی آپ کچھ فکر نہ کریں ۔ان سے نبٹنے کے لئے آپ کی طرف سے ہم کافی ہیں ۔ ہم یقینا ان کی سب باتیں سنتے ہیں ۔ اور ان کے دلوں کے احوال اور ظاہر و باطن سب جانتے ہیں ۔
آیت کے آخری حصہ میں جناب ِ رسول مقبول صلی الله علیہ وسلم اور آپ کی اُمّت کو کسقدر اعلٰی بشارت ہے کہ تمہارے لئے الله کافی ہے ۔ بھلا جس کا الله ہو جائے اسے اور کس کی ضرورت رہ جاتی ہے ۔ وہ مولا کریم جس کا دستگیر ہو جائے اسے کسی غیر کا سہارا درکار نہیں ۔۔۔ 
حسْبُناَ اللهُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلَ ۔۔۔ کافی ہے ہم کو الله تعالی اور بہترین ہے وہ کارساز 

*تمام نبیوں پر ایمان*


قُولُوا۔۔۔۔۔۔۔۔     آمَنَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    بِاللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔      وَمَا ۔۔۔ أُنزِلَ 
تم کہہ دو ۔۔۔ ہم ایمان لائے ۔۔۔ الله تعالی پر ۔۔ اور جو ۔۔۔ اُتارا گیا 
إِلَيْنَا ۔۔۔  وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔   أُنزِلَ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔   إِبْرَاهِيمَ 
ہم پر ۔۔۔ اور جو ۔۔ اتارا گیا ۔۔۔ طرف ۔۔ ابراھیم 
وَإِسْمَاعِيلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔    وَإِسْحَاقَ ۔۔۔   وَيَعْقُوبَ ۔۔۔   وَالْأَسْبَاطِ 
اور اسماعیل ۔۔۔ اور اسحاق ۔۔۔ اور یعقوب ۔۔۔ اور اولاد علیھم السلام 
وَمَا ۔۔۔۔۔۔  أُوتِيَ ۔۔۔  مُوسَى ۔۔۔۔  وَعِيسَى ۔۔۔   وَمَا ۔۔۔    أُوتِیَ 
اور جو ۔۔۔ دیا گیا ۔۔ موسی ۔۔  اور عیسی ۔۔۔ اور جو ۔۔ دیا گیا
النَّبِيُّونَ ۔۔ مِن ۔۔۔ رَّبِّهِمْ ۔۔۔ لَا نُفَرِّقُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بَيْنَ ۔۔۔ أَحَدٍ 
پیغمبر ۔  سے ۔۔ ان کا رب ۔۔ نہیں ہم فرق کرتے ۔۔  بیچ ۔۔ کسی ایک 
مِّنْهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَنَحْنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔    لَهُ ۔۔۔ مُسْلِمُونَ۔  1️⃣3️⃣6️⃣
ان میں سے ۔۔ اور ہم ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ فرمانبردار 

قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.   1️⃣3️⃣6️⃣

تم کہہ دو کہ ہم الله تعالی پر ایمان لائے اور اس پر جو ہم پر اُترا اور جو ابراھیم علیہ السلام پر اُترا اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب علیھم السلام اور ان کی اولادوں پر  اور جو موسٰی اور عیسٰی علیھماالسلام کو دیا گیا  اور جو دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے ملا ہم ان سب میں سے کسی میں بھی فرق نہیں کرتے  اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں 

اَلْاَسْبَاط ۔ ( اولاد ) ۔ جمع ہے سبط کی ۔ اس کے معنی ہیں اولاد کی اولاد یعنی پوتے ، نواسے وغیرہ ۔ یہاں حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل مراد ہے ۔ 
اس آیت میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ تم کہہ دو اے اہل کتاب !  تم ضد  ہٹ دھرمی ، حسد ، بغض اور تعصب کی لعنتوں میں مبتلا ہو ۔ تم بعض رسولوں کی پیروی کرتے ہو اور بعض کو جھٹلاتے ہو ۔ رسالت کو نسل اور قوم کے ساتھ مخصوص کرتے ہو ۔ اور صرف نسلی برتری کو ذریعہ نجات سمجھتے ہو اور اپنے مذہب کے سوا باقی تمام مذاہب کو غلط قرار دیتے ہو ۔ چاہے ان کا دین منسوخ ہی ہو چکا ہو ۔  اور ابنیاء کے احکام کو جھٹلاتے ہو جو دراصل الله تعالی کے احکام ہیں ۔ 
ہم مسلمان تمام نبیوں کا سچا ہونا مانتے ہیں کسی ایک کا بھی انکار نہیں کرتے ۔ دنیا میں جتنے بھی نبی اور رسول آئے خواہ وہ کسی زمانے اور کسی ملک وقوم  سے تعلق رکھتے ہوں سب ایک ہی سچائی کا پیغام لائے تھے ۔ ہم سب کی یکساں طور پر تصدیق کرتے ہیں ۔ اور سب کو حق سمجھتے ہیں اپنے اپنے زمانے میں سب کی اطاعت کرنا واجب تھی ۔ اور ہم الله جل شانہ کے فرمانبردار ہیں ۔ 
ہر شریعت میں تین باتیں ہوتی ہیں ۔ اوّل ۔۔ عقائد ۔۔ جیسے توحید اور نبوت وغیرہ ۔ اس میں تو سب دین والے شامل ہیں اور موافق ہیں اختلاف ممکن ہی نہیں ۔
 دوسرا قواعد کلیہ شریعت ۔۔ جس سے آگے جزیات و فروع مسائل حاصل ہوتے ہیں ۔ اور ملّت در حقیقت ان ہی اصول اور کلیات کا نام ہے اور ملّت محمدی اور ملّتِ ابراھیمی میں انہی کلیات میں اتفاق اور اتحاد ہے ۔ 
تیسرا ۔۔ مجموعہ کلیات و جُزئیات اور تمام اصول اور فروع  ۔۔ جس کو شریعت کہتے ہیں ۔ 
اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور حضرت ابراھیم علیہ السلام کی ملّت ایک ہے ۔ اور شریعت الگ لاگ ۔۔۔ 
جس وقت اور جس زمانے میں جو نبی ہوگا اس کے ذریعے سے جو احکام الٰہی پہنچیں گے اُن کا اتباع ضروری ہے ُان کا انکار کرنے والا درحقیقت الله جل شانہ کے احکام سے انکار کرتا ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی ۔ 

*اپنے عمل ہی کام آئیں گے*

تِلْكَ ۔۔ أُمَّةٌ ۔۔۔ قَدْ ۔۔۔ خَلَتْ 
وہ ۔۔۔ جماعت ۔۔۔ تحقیق ۔۔ گزر چکی 
لَهَا۔۔۔  مَا ۔۔ كَسَبَتْ ۔۔۔ وَلَكُم 
ان کے لئے ۔۔۔ جو ۔۔۔ انہوں نے کمایا ۔۔۔ اور تمہارے لئے 
مَّا ۔۔۔ كَسَبْتُمْ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔ تُسْأَلُونَ 
جو ۔۔ تم نے کمایا ۔۔ اور نہیں ۔۔۔ تم سے سوال کیا جائے گا 
عَمَّا ۔۔۔ كَانُوا ۔۔۔يَعْمَلُونَ۔  1️⃣3️⃣4️⃣
ان سے جو ۔۔۔ تھے وہ ۔۔۔ عمل کرتے 

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ.    1️⃣3️⃣4️⃣

وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی اُن کے لئے جو انہوں نے کیا اور تمہارے لئے جو تم نے کیا اور تم سے اُن کے کاموں کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا ۔ 

تِلْکَ اُمَّةٌ۔ ( یہ ایک جماعت ) ۔ اس سے مراد بنی اسرائیل کے بزرگ ہیں ۔ جن کے نام وہ لیتے اور ان کی پیروی کا دعوٰی کرتے تھے ۔ حالانکہ ان کا یہ دعوی غلط تھا ۔ ان گمراہ بد نصیب انسانوں کو الله تعالی کے جلیل القدر انبیاء سے نام کے سوا دور کی نسبت بھی نہ تھی ۔ 
یہودیوں کو اس بات پر بڑا فخر تھا کہ وہ نبیوں کی نسل سے ہیں ۔ اس وجہ سے انہوں نے یہ عقیدہ گھڑ رکھا تھا کہ ذاتی نیک عملی کی کوئی ضرورت نہیں ۔ نبیوں کی اولاد سے ہونا ہی آخرت کی نجات کے لئے کافی ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ الله تعالی اپنی عنایت سے باپ کی نیکیاں اولاد کی طرف منتقل کر دیتا ہے ۔ اس غلط عقیدہ کے سبب وہ لوگ نیکی سے بالکل لاپرواہ ہوچکے تھے ۔ اور ہر قسم کے گناہوں ، بدکاریوں اور نافرمانیوں میں مبتلا ہو گئے تھے ۔ 
قرآن مجید نے ان کے اس باطل عقیدے کی جڑ کاٹ دی ۔ اور بتایا کہ قانونِ الٰہی یہ ہے کہ ہر فرد اور جماعت کو وہی ملتا ہے جو اس نے خود کمایا ہے ۔ نہ تو کسی کی نیکی دوسرے کو پہنچتی ہے ۔ نہ کسی کی بدعملی کے لئے کوئی دوسرا جواب دہ ہوسکتا ہے ۔ اپنی ذاتی کوششوں کے بغیر صرف بزرگوں کی رشتہ داری سے کام نہیں چل سکتا اور نجات نہیں حاصل ہو سکتی ۔ 
اس میں ان لوگوں کے لئے بڑا سبق ہے جو اس غلط خیال میں پھنسے ہوئے ہیں کہ اگرچہ ہم نے خود نیک کام نہ کئے ہوں ہمارے بزرگوں کی نیکیاں ہی ہمارے کام آجائیں گی ۔ اور ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے گی ۔ الله تعالی فرماتا ہے کہ بزرگوں کا نیکوکار ہونے سے تمہیں فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ تم اپنی خبر لو اور ان کے نقشِ قدم پر چلو ۔ ان کی زندگیاں تمہارے لئےحسنِ عمل کا نمونہ ہیں ۔ ان کی پیروی سے تم اچھے اور نیک کام کر سکو گے ۔ 
ہم میں سے اگر کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ خاندانی بزرگی یا محض کسی بزرگ کی نسبت کافی ہو سکتی ہے تو اسے یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئیے ۔ الله جل جلالہ کے پاس صرف اپنے عمل کام دیں گے ۔ سب اپنے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے لئے جواب دہ ہوں گے ۔ 

*حضرت یعقوب علیہ السلام کی وصیت*

أَمْ ۔۔۔كُنتُمْ ۔۔۔شُهَدَاءَ ۔۔۔ إِذْ ۔۔حَضَرَ 
کیا ۔۔ تھے تم ۔۔۔ جب ۔۔۔   حاضر ہوئی 
يَعْقُوبَ ۔۔۔ الْمَوْتُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِذْ قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ لِبَنِيهِ 
یعقوب علیہ السلام ۔۔۔ موت ۔۔ جب کہا اس نے ۔۔ اپنے بیٹوں سے 
مَا ۔۔۔ تَعْبُدُونَ ۔۔۔۔۔ ۔۔ مِن بَعْدِي ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ قَالُوا 
کس کی ۔۔ تم عبادت کرو گے ۔۔ میرے بعد ۔۔۔ کہا انہوں نے 
 نَعْبُدُ ۔۔۔۔۔۔ ۔ إِلَهَكَ ۔۔۔ وَإِلَهَ ۔۔۔۔۔۔ ۔ آبَائِكَ 
ہم عبادت کریں گے ۔۔۔ تیرا معبود ۔۔ اور معبود ۔۔۔ تیرا باپ 
إِبْرَاهِيمَ ۔۔ وَإِسْمَاعِيلَ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وَإِسْحَاقَ ۔۔۔ ۔إِلَهًا
ابراھیم ۔۔۔ اسماعیل ۔۔۔ اور اسحاق علیھم السلام ۔۔۔ معبود 
وَاحِدًا ۔۔۔ وَنَحْنُ ۔۔۔ لَهُ ۔۔۔مُسْلِمُونَ۔  1️⃣3️⃣3️⃣
ایک ۔۔۔ اور ہم ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ فرمانبردار 

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.  1️⃣3️⃣3️⃣

کیا تم موجود تھے جس وقت موت یعقوب علیہ السلام کے قریب آئی  جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرت بعد کس کی عبادت کرو گے  انہوں نے کہا ہم تیرے اور تیرے باپ دادا ابراھیم ، اسماعیل اور اسحاق علیھم السلا م کے رب کی بندگی کریں گے وہی ایک معبود ہے ۔ اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں ۔ 

حضَرَ الْمَوْت ۔ ( موت قریب آئی ) ۔ یعنی موت کا وقت قریب آیا اور آپ کو اس کے آثار نظر آنے لگے ۔ 
اِسْحاقَ ۔ ( اسحاق علیہ السلام ) ۔ آپ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دوسرے صاحبزادےاور اسماعیل علیہ السلام کے چھوٹے بھائی تھے ۔ان کی والدہ حضرت ابراھیم علیہ وسلم کی پہلی بیوی حضرت سارہ علیھا السلام تھیں ۔ 
اس آیت میں یہودیوں کو خطاب کیا گیا ہے کہ تم جو اپنی طرف سے من گھڑت باتیں اپنے بزرگوں کے نام منسوب کرتے ہو اور اسلام قبول کرنے سے انکار کرتے ہو ۔ کیا تم اُس وقت موجود تھے جب یعقوب علیہ السلام نے مرنے سے پہلے اپنے بیٹوں سے معبود کے بارے میں سوال کیا تھا ۔اور انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہم اسی معبود کی پرستش کریں گے جس کی پرستش آپ کے دادا حضرت ابراھیم علیہ السلام اور آپ کے چچا حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کے والد حضرت اسحاق علیہ السلام کرتے آئے ہیں ۔ 
آج جب رسول الله صلی الله علیہ وسلماور الله کی کتاب قرآن مجید دوبارہ اہل کتاب کو اسی دین کی طرف بلا رہے ہیں ۔ تو وہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں ۔ اور گمراہیوں میں بھٹک رہے ہیں ۔ 
وہ دین جسے ابراھیم علیہ السلام نے اختیار کیا تھا اور جس کی دعوت نبی آخرالزماں صلی الله علیہ وسلم دے رہے ہیں ۔ وہ یہی الله وحدہ لا شریک کی عبادت اور نیک عملی ہے ۔ جو فرد یا قوم بھی ان دو بنیادی اصولوں سے روگردانی کرے گی وہ دینِ ابراھیمی سے دور جا پڑے گی ۔ اور ھدایت سے محروم ہو جائے گی ۔ 

*حضرت ابراھیم علیہ السلام کی وصیت*

إِذْ ۔۔ قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔  لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رَبُّهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أَسْلِمْ
جب ۔۔ کہااس نے ۔۔۔ اس سے ۔۔ اس کا رب ۔۔۔ فرمانبردار ہو 
 قَالَ ۔۔۔ أَسْلَمْتُ ۔۔۔ لِرَبِّ ۔۔۔۔الْعَالَمِينَ۔  1️⃣3️⃣1️⃣
اس نے کہا ۔۔۔ میں فرمانبردار ہوا ۔۔۔ رب کے لئے ۔۔۔ تمام جہان 
وَوَصَّى ۔۔۔ بِهَا ۔۔۔إِبْرَاهِيمُ۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔ بَنِيهِ
اور وصیت کی ۔۔۔ اس کی ۔۔۔ ابراھیم ۔۔۔ اس کے بیٹے 
وَيَعْقُوبُ ۔۔۔يَا بَنِيَّ ۔۔۔إِنَّ ۔۔۔اللَّهَ
اور یعقوب ۔۔ اے میرے بیٹو ۔۔۔ بے شک ۔۔۔ الله تاعالی 
 اصْطَفَى ۔۔۔لَكُمُ ۔۔۔الدِّينَ ۔۔۔فَلَا تَمُوتُنَّ
چُن لیا ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ دین ۔۔۔ پس  ہرگز نہ تم مرنا 
إِلَّا ۔۔۔وَأَنتُم ۔۔۔مُّسْلِمُونَ.  1️⃣3️⃣2️⃣
مگر ۔۔ اور ہوتم ۔۔۔ مسلمان 

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ.  1️⃣3️⃣1️⃣

یاد کرو جب اسے اس کے رب نے کہا حکم برداری کر تو بولا میں تمام عالم کے رب کا حکم بردار ہوں ۔ 

وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ.  1️⃣3️⃣2️⃣

اور یہی وصیت ابراھیم علیہ السلام اپنے بیٹوں کو کر گئے اور یعقوب علیہ السلام بھی کہ اے بیٹو بے شک الله تعالی نے تمہیں چُن کر دین دیا ہے سو تم ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان ہو کر 

اَسْلِمْ ۔ ( فرمانبرداری کر ) ۔دوسرے معنی ہیں اسلام لے آ ۔ یعنی اپنے آپ کو مکمل طور پر الله وحدہ لا شریک کے سپرد کر دے ۔ اس کے حکموں کی مکمل اطاعت قبول کر ۔ اور زندگی کے ہر معاملے میں اسی کے احکام کی اطاعت کو فرض سمجھ ۔ اسلام بھی اسی لفظ سے نکلا ہے ۔ جس کے بنیادی معنی  امن دینا ۔ سلامتی چاہنا  ۔ اور اطاعت قبول کرنا ہیں ۔ 
یَعْقُوْب ۔ ( یعقوب علیہ السلام ) ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے پوتے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے ۔ خود بھی نبی تھے  ۔ اسرائیل آپ ہی کا لقب ہے اسی مناسبت سے آپ کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے ۔ 
اَصْطَفٰی ۔ ( چُن لیا ) ۔ یہ لفظ اصطفا۔ سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چُن لینا اور ملاوٹ سے پاک کر دینا ۔  مصطفی بھی اسی لفظ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چُنا ہوا برگزیدہ 
تمام اہل کتاب اور مشرکین مکہ سب کے سب اس چیز کا دعوٰی کرتے تھے کہ وہ اپنے بزرگوں کے دین کو مانتے ہیں ۔ اسی پر وہ جمے رہیں گے ۔ اور کسی نئے دین کو ہرگز نہ قبول کریں گے ۔ قرآن مجید میں الله تعالی نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کا ذکر کر کے ان لوگوں کو بتایا کہ جن بزرگوں کو تم مانتے ہو اور جن کے دین پر تم چلنے کا دعوٰی کرتے ہو ۔ وہ تو اپنی نسل کو اپنے اسی دین کی پیروی کرنے کا حکم دے گئے ہیں ۔ جس پر وہ خود عمل کرتے تھے ۔ یعنی دینِ توحید اور ملّتِ اسلام ۔ اس لئے اگر تم انہیں پیشوا مانتے ہو تو ان کا اصل دین تو یہ ہے کہ جس کی طرف اب تمہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم دعوت دے رہے ہیں ۔ اب تم اسے مانو !  حضرت ابراھیم اور یعقوب علیھما السلام اپنی اولادوں کو یہی تاکید کر گئے تھے کہ تم سب الله تعالی کے فرمانبردار ہو کر مرنا ۔ موت کا وقت غیر یقینی ہے ۔ اس لئے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت مسلم بنے رہنا ۔ایمان کو ہر لحظہ دل میں مضبوطی سے جمائے رکھنا ۔ 

*دینِ ابراھیمی*

وَمَن ۔۔ يَرْغَبُ عَن ۔۔۔۔ ۔۔۔ مِّلَّةِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔إِبْرَاهِيمَ 
اور کون ۔۔۔ بے رغبت ہوتا ہے ۔۔۔ مذہب ۔۔۔ ابراھیم علیہ السلام 
إِلَّا ۔۔۔۔۔۔ مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ سَفِهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نَفْسَهُ 
مگر ۔۔۔ وہ شخص ۔۔۔ بے وقوف بنایا ۔۔  اپنے نفس کو 
وَلَقَدِ ۔۔۔۔۔۔  اصْطَفَيْنَاهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فِي الدُّنْيَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَإِنَّهُ 
اور البتہ تحقیق ۔۔ چُن لیا ہم نے اس کو ۔۔ دنیا میں ۔۔۔ اور بے شک وہ 
فِي ۔۔۔ الْآخِرَةِ ۔۔۔ لَمِنَ ۔۔۔الصَّالِحِينَ۔ 1️⃣3️⃣0️⃣
میں ۔۔۔ آخرت ۔۔۔ البتہ ہے ۔۔۔ نیکو کار 

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ.   1️⃣3️⃣0️⃣

اور کون ہے جو ابراھیم علیہ السلام کے مذہب سے پھرے سوائے اس کے جس نے اپنے آپ کو احمق بنایا  اور بے شک ہم نے اسے دنیا میں منتخب کیا اور آخرت میں وہ نیکوکاروں سے ہے ۔ 

یَرْغَبُ عَنْ ۔ ( پھرے ) لفظ رغبت سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں مائل اور متوجہ ہونا ۔ جب اس کے ساتھ عَن  آئے تو معنی اُلٹ ہو جاتے ہیں ۔ یعنی کسی کے خلاف جانا یا منہ پھیر لینا ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے بیان فرمایا ہے کہ ملّتِ ابراھیم کی بنیاد عین دینِ فطرت پر ہے ۔ اس کی تعلیمات نیک طبیعتوں کی ترجمانی کرتی ہیں ۔ اس سے تو وہی شخص منہ موڑ سکتا ہے جس کی فطرت ہی سلیم نہ رہی ہو ۔اور مسخ ہو چکی ہو ۔ 
ملّتِ ابراھیمی وہی دینِ توحید ہے جس کی دعوت آج صرف اسلام دے رہا ہے ۔ یہاں دینِ اسلام کو ملّتِ ابراھیم کا نام اس لئے دیا گیا کہ مخاطب یہاں یہودو نصارٰی ہیں ۔ اور انہیں بتانا مقصود ہے کہ قرآن مجید تمہیں کسی نئے دین کی دعوت نہیں دیتا تمہارے ہی بزرگ اور پیشوا حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دین کی طرف تمہیں بلا رہا ہے ۔
یہود و نصارٰی نے اپنے معصوم نبیوں کے بارے میں جھوٹے اور بیہودہ قصے گھڑنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی تھی ۔ اُن کے الزامات کو الله تعالی قرآن مجید میں غلط قرار دیتا ہے۔ اور جہاں جہاں انبیاء علیھم السلام کا ذکر آتا ہے ۔ان کی اخلاقی اور روحانی عظمت کو بھی بیان کرتا ہے ۔ 
ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں بتایا گیا کہ الله تعالی نے انہیں ان کی توحید پرستی اور ایمان بالله کے صلہ میں دُنیا میں ہر قسم کی نعمتوں اور سرفرازیوں کے لئے چُن لیا تھا ۔ اور انہیں منصبِ نبوت اور رسالت عطا کیا تھا ۔ انہیں دنیا میں لوگوں کا مذھبی اور روحانی پیشوا مقرر فرمایا ۔ اور آخرت میں وہ یقینا نیک اور صالح لوگوں میں شمار ہوں گے ۔ 
حضرت ابراھیم علیہ السلام کی بزرگی اور عظمت یہاں بیان کرنے سے الله تعالی کا مقصود یہ ہے کہ یہود و نصارٰی کو بتایا جائے کہ جس جلیل القدر پیغمبر کو وہ اپنا پیشوا مانتے ہیں ان کا دین یہی تھا ۔ جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں ۔ اگر وہ اُن کو اپنا مذہبی راہنما مانتے ہیں تو انہیں چاہئیے وہ اسلام قبول کر لیں ۔ یہی ان کے باپ دادا کی راہ ہے ۔ 

*ہدایت و اصلاح کے دو سلسلے ۔ کتاب الله اور رجال الله*

الله تبارک و تعالی نے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے ہمیشہ ہر زمانے میں دو سلسلے جاری رکھے ۔ ایک تو آسمانی کتابوں کا دوسرا ان کتابوں کی تعلیم دینے کے لئے رسولوں کا ۔ جس طرح صرف کتاب نازل کرنے کو کافی نہیں سمجھا اسی طرح صرف رسول بھیجنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ دونوں سلسلے برابر جاری رکھے ۔ اور علم کا ایک بڑا دروازہ کھول دیا کہ انسان کی صحیح تعلیم و تربیت کے لئے نہ تو صرف کتاب کافی ہے اور نہ ہی صرف انسان ۔ 
چنانچہ ایک طرف تو آسمانی ھدایات اور قوانین الہی کی ضرورت ہے تو دوسری طرف ایک مربّی اور معلم رہنماء کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ انسان کا اصل معلم و استاد ایک انسان ہی ہو سکتا ہے کوئی کتاب نہیں ۔ البتہ کتاب تعلیم و تربیت میں مددگار ضرور ہو سکتی ہے ۔ 
پورے قرآن مجید کا خلاصہ سورۃ فاتحہ ہے اور سورۃ فاتحہ کا خلاصہ صراطِ مستقیم کی ہدایت ہے اور صراط مستقیم کا پتہ دینے کے لئے بجائے اس کے کہ صراط القرآن  یا صراط الرسول ۔۔۔ یا صراط السنّہ فرما دیا جاتا کچھ ھدایت یافتہ انسانوں کا پتہ بتا دیا گیا کہ اُن سے صراط مستقیم کی راہنمائی لی جائے ۔ 
ارشاد باری تعالی ہے ۔ 

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
ان لوگوں کے راستے جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے۔ 
اٰمین۔۔۔ فاتحہ ۔۷
دوسری جگہ ان کی وضاحت اور تشریح فرمائی جن پر الله تعالی کا انعام ہے ۔

وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور صالحین اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔
نساء ۔۔۶۹
اسی طرح رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بعد کے لئے کچھ حضرات کے نام لے کر دینی معاملات میں ان کی پیروی کرنے کی ھدایت فرمائی ۔ 
یَاَیُّھَا النّاسُ اِنِّی تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ مَا اِنْ اَخَذْتُمْ بِہِ لَنْ تَضِلُّوْا  کِتَابُ اللهِ وَ عِتْرَتِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ 

اے لوگو ! میں تمہارے لئے اپنے بعد دو چیزیں چھوڑتا ہوں ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا تو تم گمراہ نہ ہو گے ۔ ایک کتاب الله اور دوسری میری اولاد اور اہلِ بیت ۔
ترمذی 
اور صحیح بخاری کی حدیث میں ہے 
۔اِقْتَدُوْا مِنْ بَعْدِیْ  اَبِیْ بَکْرٍ و عُمر۔ 
یعنی میرے بعد ابو بکر اور عمر کا اقتداء کرو 
اور ایک اور جگہ فرمایا ۔ 
عَلَیْکُمْ  بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ خُلَفَآءِ الرّاشِدِیْنَ 
میرے طریقہ کو اختیار کرو ، اور خلفائے راشدین کے طریقے کو 

یہ اصول تعلیم و  تربیت صرف دین اور اسلام ہی کے لئے مخصوص نہیں بلکہ تمام علوم و فنون کی صحیح تحصیل اسی بنیاد پر ہے کہ ایک طرف ہر فن کی بہترین کتا بیں ہوں تو دوسری طرف ماہرین کی تعلیم و تر بیت ۔ تمام علوم  و فنون خواہ وہ دنیا کے ہوں یا دین کے ان  کی ترقی اور تکمیل کے یہی دو بازو ہیں ۔
 لیکن دین کے معاملے میں لوگ افراط و تفریط میں پڑ جاتے ہیں جس کا نتیجہ  بجائے فائدہ اور اصلاح کے نقصان ہوتا ہے ۔ 
کچھ لوگ کتاب الله کو چھوڑ کر صرف علماء و مشائخ ہی کو اپنا مقصود بنا لیتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے وقت ان کے شریعت پر قائم ہونے کی تحقیق نہیں کرتے ۔ یہ اصلی مرض و خرابی یہود و نصاری کی ہے کہ 

اِتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَّا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
 توبہ ۔۳۱ 
انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا حالانکہ انکو یہ حکم دیا گیا تھا کہ معبود واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اسکے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
یہی کفر و شرک کا راستہ ہے ۔ اور لاکھوں انسان اس راستے پر چل کر برباد ہوئے اور ہو رہے ہیں ۔ 
اس کے مقابلے میں بعض وہ لوگ بھی ہیں وہ کہتے ہیں ہمیں صرف الله تعالی کی کتاب کافی ہے ۔ نہ ماہر علماء کی ضرورت نہ تربیت یافتہ مشائخ کی حاجت  یہ دوسری گمراہی ہے ۔ جس کا نتیجہ دین و ملت سے نکل کر نفسانی اغراض کا شکار ہونا ہے ۔ کیونکہ ماہرین کی امداد و تربیت کے بغیر کسی فن کا حاصل ہو جانا انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ ایسا کرنے والا یقینا ً غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اور یہ غلط فہمی بعض اوقات اُس کو دین و ملت سے باہر نکال دیتی ہے ۔ 
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دو چیزوں کو اپنے اپنے مقامات اور حدود میں رکھ کر ان سے فائدہ اُٹھایا جائے ۔ یہ سمجھا جائے کہ حکم اصلی صرف ایک۔ " وحدہ لا شریک لہ " کا ہے اور اطاعت اصل میں اسی کی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  بھی اس پر عمل کرنے اور کرانے کا ایک ذریعہ ہیں ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت بھی صرف اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ حقیقت میں الله جل شانہ کی اطاعت ہے ۔ 
ہاں اس کے ساتھ قرآن و حدیث کے سمجھنے میں جو علمی یا عملی مشکلات سامنے آئیں اس کے لئے ماہرین کے قول و فعل سے مدد لینے کو سرمایۂ افتخار و نجات سمجھنا چاہئیے ۔
قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم ضروری ہے اور اس کے بغیر قرآن مجید پر صحیح عمل کرنا ممکن نہیں تو جس طرح قرآن مجید قیامت تک محفوظ ہے ضروری ہے کہ تعلیماتِ رسول صلی الله علیہ وسلم بھی مجموعی حیثیت سے قیامت تک باقی اور محفوظ رہتیں ۔ ورنہ صرف الفاظِ قرآن کے محفوظ رہنے سے نزولِ قرآن کا اصل مقصد پورا نہ ہو گا ۔اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ تعلیماتِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم وہی ہیں جن کو "سنت"یا " حدیثِ رسول " صلی الله علیہ وسلم کہا جاتا ہے ۔
جس طرح قرآن مجید کے ہر لفظ زیر ، زبر کو محفوظ رکھنے کا وعدہ الله تعالی کا ہے کہ وہ قیامت تک محفوظ رہیں گے اور محفوظ ہیں اسی طرح 
سنت رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کا محفوظ رہنا بھی قرآن کی تعلیمات کے محفوظ رہنے کی رُو سے ضروری ہے ۔اور بحمد لله آج تک محفوظ چلی آرہی ہیں ۔ جب کسی طرف سے اس میں رخنہ اندازی یا غلط روایات کی آمیزش کی گئی ماہرینِ سنت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نکھار کر رکھ دیا ۔ اور قیامت تک یہ سلسلہ بھی یونہی رہے گا ۔ 
خلاصہ یہ کہ جب قرآن مجید پر عمل کرنے کے لئے تعلیمات رسول صلی الله علیہ وسلم ضروری ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ قرآن مجید پر عمل کرنا قیامت تک فرض اور ضروری ہے تو یہ یقین لازم ہے کہ تعلیماتِ رسول صلی الله علیہ وسلم بھی باقی اور محفوظ و موجود ہیں 
اس سے اس جھوٹ اور الحاد کی حقیقت کُھل جاتی ہے جو آج کل لوگوں نے احکامِ اسلام سے جان بچانے کے لئے یہ بہانہ تراشا ہے کہ موجودہ ذخیرہ حدیث محفوظ اور قابلِ اطمینان نہیں ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ آحادیث سے اعتماد اُٹھ جائے تو قرآن پر بھی اعتماد کا کوئی راستہ نہیں رہتا ۔   

*آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی چار خصوصیات*

رَبَّنَا ۔۔ وَابْعَثْ ۔۔ فِيهِمْ ۔۔۔ رَسُولًا ۔۔۔مِّنْهُمْ
اے ہمارے ربّ ۔۔۔ اور بھیج ۔۔ ان میں ۔۔۔ ایک رسول ۔۔۔ ان میں سے 
يَتْلُو ۔۔۔عَلَيْهِمْ ۔۔۔۔۔۔۔آيَاتِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔وَيُعَلِّمُهُمُ
وہ پڑھے ۔۔۔ ان پر ۔۔۔ تیری آئیتیں ۔۔۔ اور وہ سکھائے انہیں 
الْكِتَابَ ۔۔۔وَالْحِكْمَةَ ۔۔۔وَيُزَكِّيهِمْ
کتاب ۔۔۔ اور دانائی ۔۔۔ اور وہ پاک کرے انہیں 
 إِنَّكَ ۔۔۔أَنتَ ۔۔۔الْعَزِيزُ ۔۔۔الْحَكِيمُ۔  1️⃣2️⃣9️⃣
بے شک تو ۔۔۔ تو ۔۔ زبردست ۔۔ بڑی حکمت والا ہے 

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ.  1️⃣2️⃣9️⃣

اے ہمارے رب ان میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیج کہ ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب سکھادے اور حکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے بیشک تو ہی بہت زبردست بڑی حکمت والا ہے ۔

مِنْھُمْ ۔ ( ان ہی میں سے ) ۔ حضرت ابراھیم اور اسماعیل علیھما السلام مل کر دُعا کر رہے ہیں کہ ہم دونوں کی نسل سے اپنی فرمانبردار امّت پیدا کر ۔اور یہ بھی کہ انہی میں سے ایک رسول ان میں بھیج ۔ صاف ظاہر ہے کہ مراد یہ ہے کہ وہ 
بنو اسماعیل کی نسل سے ہو ۔ الله جل شانہ نے ان کی دُعا قبول کی ۔ اور حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم ان کی اولاد میں سے پیدا ہوئے ۔ 
یَتْلُو عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ ۔ ( ان پر تیری آیات پڑھے ) ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا سب سے پہلا کام اپنی امت کے سامنے تلاوتِ آیات ہے یعنی الله تعالی کا کلام پہنچانا اور پڑھانا ۔  گویا آپ صلی الله علیہ وسلم کی پہلی حیثیت  "مبلّغ اعظم"  کی ہے ۔ 
یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ ۔ ( انہیں کتاب سکھا دے ) ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا کام صرف تبلیغ اور پیام رسانی پر ختم نہیں ہو جاتا ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا کام کتابِ الہی کی تبلیغ کے بعد اس کی تعلیم کا بھی ہے ۔
 گویا آپ کی دوسری حیثیت  "معلّم اعظم"  کی ہے ۔ 
اَلْحِکْمَةَ ۔ ( دانائی کی باتیں ) ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا تیسرا کام حکمت اور دانائی سکھانا ہے ۔ قرآنی احکام و مسائل سمجھانا ، دین کے قاعدے اور آداب سکھانا اور زندگی کے مختلف اور پیچیدہ مسائل کا اسی کی روشنی میں بہترین حل بتانا ہے ۔ گویا آپ کی تیسری حیثیت  "مُرشد اعظم" کی ہے 
یُزَکِّیْھِمْ ۔ ( انہیں پاک کر دے ) ۔ تزکیہ سے مراد دل کی صفائی ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا چوتھا کام اپنی صحبت و تربیت سے اخلاق کی پاکیزگی اور نیتوں کا اخلاص پیدا کرنا ہے ۔ 
یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم کی چوتھی حیثیت "مصلح اعظم"  کی ہے ۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام اور آپ کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ الله تعالی سے دعا بھی کرتے جاتے تھے کہ اے ہمارے رب ہماری نسل سے ایک اپنی فرمانبردار اُمّت پیدا کر ۔ ان میں ان ہی میں سے ایک 
نبی مبعوث فرما ۔ اس کی چار خصوصیات ہوں ۔ وہ کتاب الله سنائے ۔۔۔۔ پڑھائے ۔۔۔ سمجھائے ۔۔۔ اور اس کے ذریعے دلوں کو پاک کرے ۔ یعنی وہ *مبلّغ* بھی ہو  *معلّم*  بھی  ۔ *حکیم و مُرشد* بھی ہو اور *مصلح* بھی ۔ 
یہ تمام باتیں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پر پوری ہوئیں ۔ سبحان الله و بحمدہ سبحان الله العظیم 

اَللّٰھُمَّ صَلِّ علٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کمَا صَلَّیْتَ عَلٰی ابْرَاھِیمَ وَعَلٰی آلِ ابْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌمَّجِیْدٌ 
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ 

*امّت مسلمہ کے لئے دعا*

وَإِذْ ۔۔ يَرْفَعُ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ إِبْرَاهِيمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  الْقَوَاعِدَ 
اور جب ۔۔۔ وہ بلند کرتے تھے ۔۔ ابراھیم علیہ السلام ۔۔۔ بنیادیں 
مِنَ ۔۔ الْبَيْتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَإِسْمَاعِيلُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رَبَّنَا 
سے ۔۔۔ گھر ۔۔۔ اور اسماعیل علیہ السلام ۔۔۔ اے ہمارے ربّ 
تَقَبَّلْ ۔۔۔ مِنَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِنَّكَ 
تو قبول کر ۔۔۔ ہم سے ۔۔۔ بے شک تو 
أَنتَ ۔۔۔ السَّمِيعُ ۔۔۔۔الْعَلِيمُ۔  1️⃣2️⃣7️⃣
تو ۔۔۔ سننے والا ۔۔۔ جاننے والا 

رَبَّنَا ۔۔۔  وَاجْعَلْنَا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ مُسْلِمَيْنِ ۔۔۔۔۔۔ لَكَ 
اے رب ہمارے ۔۔۔ اور ہم کو بنا ۔۔۔ دو مسلمان ۔۔۔ اپنے لئے 
وَمِن ۔۔۔ذُرِّيَّتِنَا ۔۔۔ أُمَّةً ۔۔۔۔۔۔ مُّسْلِمَةً ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَّكَ
اور ہماری اولاد ۔۔۔  امت ۔۔۔ مسلمان ۔۔۔ اپنے لئے 
  وَأَرِنَا ۔۔۔۔۔ ۔ مَنَاسِكَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وَتُبْ ۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْنَا 
اور سکھا ہم کو ۔۔۔ ہمارے حج کے طریقے ۔۔۔ اور تو متوجہ ہو ۔۔۔ ہم پر 
إِنَّكَ ۔۔۔ أَنتَ ۔۔۔ التَّوَّابُ ۔۔۔۔الرَّحِيمُ.  1️⃣2️⃣8️⃣
بے شک تو ۔۔۔ تو ۔۔۔ بڑا توبہ قبول کرنے والا ۔۔ مہربان ہے 



وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا
 إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.   1️⃣2️⃣7️⃣

اور یاد کرو جب اُٹھاتے تھے ابراھیم اور اسماعیل علیھما السلام خانہ کعبہ کی بنیادیں  ( اور ساتھ ساتھ دعا کر رہے تھے )  اے ہمارے رب ہم سے قبول فرما بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے 

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا
إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ.  1️⃣2️⃣8️⃣

اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا اور ہماری اولاد میں بھی ایک فرمانبردار جماعت بنا اور ہمیں حج کرنے کے طریقے سکھا اور ہمیں معاف کر دے بے شک تو ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ 

یَرْفَعُ ۔ ( اُٹھاتے تھے ) ۔  کعبہ کی عمارت کی بنیادیں حضرت آدم علیہ السلام اپنے زمانے میں رکھ گئے تھے ۔ یہ عمارت خستہ ہو کر ختم ہو چکی تھی ۔ اس لئے اسے دوبارہ سے بنایا جا رہا تھا ۔ یہ لفظ۔ رفعٌ سے بنا ہے ۔اس کے معنوں میں اٹھانا ، بلند کرنا  دونوں مفہوم شامل ہیں ۔ 
مُسْلِمَیْنِ ۔ ( حکم بردار ) ۔ اس سے دو معنی مراد ہیں ۔ ایک الله کی توحید ماننے والے ۔ دوسرے اسلام کے عام احکام کے پابند ۔ حضرت ابراھیم و اسماعیل علیھما السلام تو اس وقت بھی مسلمان تھے ۔ دُعا کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہماری فرمانبرداری کو زیادہ کر اور قائم رکھ ۔ اس کا واحد مسلم ہے ۔ اسلام بھی اسی مادہ سے ہے ۔ مسلم کے لفظی معنی ہیں سلامتی چاہنے والا ۔۔ امن دینے والا ۔۔ اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والا ۔
اُمّةٌ مُّسلِمَةً ۔ ( فرمانبردار جماعت ) ۔ اُمّة کے معنی گروہ اور جماعت کے ہیں ۔ اور مسلمہ کے معنی فرمانبردار اور اطاعت شعار ۔ 
جس کی اصل اور پوری مصداق حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی امّت ہوئی ۔
مَنَاسِکَنَا ۔ ( حج کرنے کے قاعدے ) ۔ یعنی دینی قاعدے خاص طور پر حج کے آداب وغیرہ ۔ انہیں مراسم ِ حج ، مناسکِ حج بھی کہا جاتا ہے ۔ 
حضرت ابراھیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام جب کعبہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے تو ساتھ ساتھ دُعائیں کرتے جاتے تھے ۔کہ اے ربّ ہماری فرمانبرداری میں توقی دے ۔ ہماری نسل سے فرمانبردار اُمّت پیدا کر ۔ ہمیں دین کے قاعدے  ، حج کرنے کے طریقے اور بیت الله کی زیادت کے آداب سکھا دے ۔ اور ہماری توبہ قبول فرما ۔ کیونکہ تُو ہی توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے ۔ 

*مکّہ ---- امن والا شہر*

وَإِذْ ۔۔ قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔ إِبْرَاهِيمُ ۔۔۔۔۔ رَبِّ ۔۔۔۔۔اجْعَلْ 
اور جب ۔۔۔ کہا ۔۔ ابراھیم  علیہ السلام نے ۔۔  ربّ ۔۔۔ تو بنا 
هَذَا ۔۔بَلَدًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ آمِنًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وَارْزُقْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔أَهْلَهُ 
یہ ۔۔ شہر ۔۔۔امن والا ۔۔۔ اور تو رزق دے ۔۔۔ اس میں رہنے والے 
مِنَ ۔۔ الثَّمَرَاتِ ۔۔۔ مَنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ آمَنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِنْهُم 
سے ۔۔۔ پھل ۔۔ جو شخص ۔۔۔۔  ایمان لایا ۔۔۔۔۔ ان میں سے 
بِاللَّهِ ۔۔۔ وَالْيَوْمِ ۔۔۔۔ ۔۔ الْآخِرِ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ قَالَ ۔۔۔۔۔ ۔۔وَمَن 
الله تعالی پر ۔۔۔ اور آخرت کے دن پر ۔۔۔ فرمایا ۔۔۔ اور جو شخص 
كَفَرَ ۔۔۔۔۔ ۔۔ فَأُمَتِّعُهُ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ قَلِيلًا ۔۔۔ ثُمَّ 
کفر کیا ۔۔۔ پس میں نفع پہنچاؤں گا اس کو ۔۔۔ تھوڑا ۔۔ پھر 
أَضْطَرُّهُ ۔۔۔۔ ۔۔ إِلَى ۔۔۔ عَذَابِ ۔۔۔ النَّارِ 
میں مجبور کروں گا اُس کو ۔۔۔ طرف ۔۔۔ عذاب ۔۔۔ آگ 
وَبِئْسَ ۔۔۔الْمَصِيرُ۔   1️⃣2️⃣6️⃣
اور بُرا ہے ۔۔۔ لوٹ کر جانے کی جگہ 

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ.   1️⃣2️⃣6️⃣

اور جب ابراھیم علیہ السلام نے کہا اے میرے رب اس شہر کو امن والا بنا اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں کی روزی دے ان میں سے جو کوئی الله اور قیامت کے دن پر ایمان لائے  فرمایا ( الله تعالی نے ) جو کفر کرے گا اس کو بھی تھوڑے دنوں نفع پہنچاؤں گا  پھر اسے جبراً دوزخ کے عذاب کی طرف بلاؤں گا  اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے ۔ 

قَلِیْلاً ۔ ( تھوڑے دن ) ۔ مراد ہے دنیا کی زندگی ۔ کیونکہ آخروی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی بہت تھوڑی سی  ہے ۔ 
فَاُمَتِّعُہُ ۔ ( پھر اسے نفع پہنچاؤں گا ) ۔ یہ لفظ متاعٌ سے نکلا ہے ۔جس کے معنی نفع اور سازوسامان کے ہیں ۔ 
جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کر لی تو چند دعائیں کیں ۔
اول یہ کہ اس عمارت کو ، اس کے شہر کو اور اردگرد کے علاقے کو امن والا بنا دے ۔
دوم یہ کہ یہاں کے رہنے والوں کو جو مؤمن ہوں پھل اور میوے کھانے کو دے ۔ آپ کی یہ دونوں دعائیں پوری ہوئیں ۔ چنانچہ اس جگہ پر نہ خونریزی ہوتی ہے نہ ڈاکے پڑتے ہیں ۔ حتی کہ جانور کا شکار تک نہیں کیا جاتا ۔ اگرچہ ساری زمین سخت 
پتھریلی اور ریتلی ہے ۔ لیکن تازہ پھل اور میوے ، ترکاریاں ، غلّے وغیرہ بکثرت  ملتے ہیں ۔ 
حضرت ابراھیم علیہ السلام کو بتایا گیا تھا کہ ظالموں اور بد کاروں کو امامت و پیشوائی کے منصب سے محروم رکھا جائے گا ۔ آپ نے اس حکم کو یاد رکھا ۔اور مکّہ کے رہنے والوں کے لئے دُعا کرتے وقت صرف ایمانداروں کے لئے دُعا فرمائی ۔ 
الله تعالی نے فرمایا ۔۔۔ دینی سرداری صرف اہل ایمان و اطاعت کے لئے ہی مخصوص ہے ۔ البتہ دنیوی زندگی سے کافروں اور منکروں کو بھی محروم نہ کیا جائے گا ۔ مگر یہ چیزیں انہیں صرف دنیا ہی میں تھوڑے عرصے کی زندگی میں ملیں گی ۔ اس کے بعد قیامت کے دن انہیں ان کی نافرمانی کی سزا میں جہنم میں جھونک دیا جائے گا ۔ جوکہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے ۔ 
اللھم اَجِرْنَا مِنَ النَّار ۔۔۔ الله تعالی ہمیں جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے ۔ 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں