نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*تبدیلی قبلہ کی حکمت* ۔۔۔۔۔ *ایمان ضائع نہیں جاتا*

وَمَا ۔۔ جَعَلْنَا ۔۔۔  الْقِبْلَةَ ۔۔۔ الَّتِي ۔۔۔ كُنتَ 
اور نہیں ۔۔۔ ہم نے بنایا ۔۔ قبلہ ۔۔۔ وہ جو ۔۔ آپ تھے 
عَلَيْهَا ۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔ لِنَعْلَمَ ۔۔۔ مَنْ۔۔۔  يَتَّبِعُ 
اس پر ۔۔۔ مگر ۔۔ تاکہ ہم جان لیں ۔۔ کون ۔۔ وہ پیروی کرتا ہے 
الرَّسُولَ ۔۔۔ مِمَّن ۔۔۔ يَنقَلِبُ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ عَقِبَيْهِ
رسول ۔۔ اس سے جو ۔۔ پلٹ جاتا ہے ۔۔ پر ۔۔۔ اس کی ایڑیاں 

وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ

اور ہم نے وہ قبلہ مقرر نہیں کیا تھا جس پر آپ پہلے تھے  مگر اس لئے کہ معلوم کریں کون رسول کا تابع رہے گااور کون اُلٹے پاؤں پِھر جائے گا ۔ 

لِنَعْلَمَ ۔ ( تاکہ معلوم کریں ) ۔ لفظ علم یہاں تمیز و شناخت کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جس کام کے بارے میں الله تعالی کی طرف سے کوئی حکم موجود نہ ہوتا ۔ اس میں آپ پہلے انبیاء علیھم السلام کا طریقہ اختیار کرتے ۔مثلا نماز تو فرض ہو چکی تھی ۔ لیکن قبلہ کے بارے میں کوئی واضح حکم موجود نہ تھا ۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم یہودیوں کے قبلہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے ۔
وَمَا جَعَلْنَا ۔ سے صاف طور پر معلوم بھی ہوگیا کہ الله تعالی کو منظور تھا کہ شروع میں بیت المقدس قبلہ رہے ۔ جب آپ مکہ سے مدینہ تشریف لائے اس وقت بھی بیت المقدس ہی قبلہ رہا ۔ لیکن تقریبا سولہ ماہ بعد الله تعالی نے قبلہ بدلنے کا حکم دیا ۔ اور کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرمایا ۔ 
اس آیت میں الله تعالی فرماتا ہے کہ بیت المقدس کو عارضی طور پر تھوڑے عرصے کے لئے تمہارا قبلہ بنائے رکھنے سے غرض یہ تھی کہ فرمانبرداروں اور نافرمانوں میں فرق کیا جا سکے ۔ 
مکہ کے مشرک بیت المقدس کے احترام کے قائل نہ تھے ۔اس لئے مکہ میں  اسلام  قبول کرنے کی واضح نشانی یہ رہی کہ مسلمان ہونے والا شخص بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھے ۔ مدینہ کے یہودی اور عیسائی لوگوں کے نزدیک بیت الله کی کوئی عزت نہ تھی اس لئے مدینہ میں اسلام قبول کرنے کی نشانی یہ قرار پائی کہ بیت الله کی طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جائے ۔ اس طرح مسلمانوں اور غیر مسلم میں فرق کرنے میں آسانی میسر آئی ۔
 مکی زندگی میں بیت المقدس کی جگہ اگر خانہ کعبہ قبلہ ہوتا تو اس کو اہل مکہ شاید ایک قسم کی خوشامد سمجھتے ۔ اور دین کو خالص الله تعالی کے حکم کے طور پر نہیں بلکہ اپنے وطنی قبلہ کے اعتبار سے قبول کرتے ۔ حالانکہ اسلام ان تمام اغراض سے پاک ہے ۔ دین کی تعلیم کسی خاص قوم یا نسل کی رعایت سے نہیں آئی ۔ اسلام ساری دنیا کے لئے آیا ہے ۔ اس کی تعلیم تمام قوموں کے لئے آئی ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


ایمان ضائع نہیں جاتا


وَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   كَانَتْ ۔۔۔ لَكَبِيرَةً ۔۔۔۔۔۔۔  إِلَّا ۔۔۔عَلَى 

اور بے شک ۔۔۔ ہوئی ۔۔ البتہ دشوار ۔۔ مگر ۔۔ پر 

الَّذِينَ ۔۔۔۔۔هَدَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا ۔۔۔ كَانَ 

وہ لوگ ۔۔۔ ھدایت دی ۔۔ الله تعالی ۔۔ اور نہیں ۔۔ وہ 

اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لِيُضِيعَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   إِيمَانَكُمْ ۔۔۔۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔۔ ۔۔۔اللَّهَ 

الله تعالی ۔۔۔کہ ضائع کرے ۔۔ تمہارا ایمان ۔۔ بے شک ۔۔ الله تعالی 

بِالنَّاسِ ۔۔۔۔۔۔۔۔  لَرَءُوفٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     رَّحِيمٌ۔  1️⃣4️⃣3️⃣

لوگوں سے ۔۔ البتہ شفقت فرمانے والا ۔۔ مہربان 


وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ 

إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ.  1️⃣4️⃣3️⃣


اور بے شک یہ بات بھاری ہوئی سوائے ان لوگوں کے جنہیں الله تعالی نے ھدایت دی اور الله تعالی ایسا نہیں کہ تمہارا ایمان ضائع کرے  بے شک الله تعالی لوگوں پر بہت شفیق نہایت مہربان ہے ۔ 


اوّل سے آپ کے لئے خانہ کعبہ قبلہ مقرر ہوا تھا ۔ درمیان میں کچھ عرصے کے لئے امتحاناً بیت المقدس کو قبلہ بنا دیا گیا ۔ اور سب جانتے ہیں امتحان اُسی چیز کا ہوتا ہے جو نفس پر دشوار ہو ۔بیت الله مقدس ترین مقام ہے ۔ دنیا کے عبادت خانوں میں یہ سب سے قدیم اور متبرک ترین جگہ ہے ۔ لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مکی زندگی میں نماز بیت المقدس کی طرف منہ کرکے پڑھی جاتی تھی ۔ بیت المقدس کو قبلہ بنا دینا قریش اور عربوں  پر بھاری اور دشوار تھا ۔ 

اسی لئے الله تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ بیت المقدس کو قبلہ بنانا لوگوں کو بھاری اور دشوار معلوم ہوا ۔

عام لوگوں کو تو اس لئے کہ وہ عموما عرب اور قریش تھے اور کعبہ کی فضیلت کے معتقد تھے ۔ ان کو اپنے خیال ، عادت اور رسم و رواج کے خلاف کرنا پڑا ۔ وطن پرست عربوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا امتحان تھا ۔ عرب اور قریش دین ابراھیمی کے نام لیوا تھے اس لئے وہ کعبہ کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے  اور بیت المقدس کو قبلہ سمجھنا ان کے لئے ناگوار تھا ۔ 

الله تعالی نے فرمایا یہ امتحان اور آزمائش ان لوگوں کے لئے بھاری نہیں تھی جنہیں الله جل شانہ نے راہِ ھدایت دکھا دی ۔اور وہ اس کی حکمت سے واقفیت رکھتے تھے ۔ وہ سمجھتے تھے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ساری دنیا کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ اور بیت المقدس کیونکہ انبیاء سابقین کا قبلہ رہا ہے اس لئے انہیں بیت المقدس کے قبلہ بنا دئیے جانے پر کوئی تعجب نہ تھا بلکہ وہ بلا چون و چرا الله تعالی کے سامنے جھک گئے اور اس امتحان سے بڑی کامیابی سے گزر گئے ۔ 

جب دوبارہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا تو یہودیوں نے کہا اگر کعبہ ہی قبلہ اصلی ہے تو اتنی مدت جو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی تھی وہ ضائع ہو گئی ۔ بعض مسلمانوں کو بھی شبہ گزرا کہ وہ تمام نمازیں جو بیت المقدس کی طرف رُخ کر کے پڑھی گئیں وہ اکارت گئیں ۔ اور خاص طور پر وہ صحابہ تو بہت خسارے میں رہے جو قبلہ تبدیل ہونے سے پہلے فوت ہوگئے ۔ 

الله تعالی نے ان کے اس شک کو دور کر دیا ۔ اور فرمایا اصل چیز فرمانبرداری ہے ۔ بیت المقدس بھی ہمارے حکم سے قبلہ مقرر ہوا تھا ۔ اس لئے جنہوں نے اُس طرف منہ کرکے نماز یں ادا کیں ان کا ثواب اپنی جگہ قائم ہے ۔ الله تعالی تو انسانوں پر نہایت شفیق اور مہربان ہے ۔ وہ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تفسیر عثمانی 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...