نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*مسلمانوں کا قبلہ*

سَيَقُولُ ۔۔ السُّفَهَاءُ ۔۔۔  مِنَ ۔۔ النَّاسِ ۔۔۔مَا 
جلد ہی کہیں گے وہ ۔۔۔ بے وقوف ۔۔ سے ۔۔ لوگ ۔۔ کس نے 
وَلَّاهُمْ ۔۔۔ عَن ۔۔۔ قِبْلَتِهِمُ ۔۔۔الَّتِي ۔۔۔ كَانُوا
پھیر دیا اُن کو ۔۔ سے ۔۔ ان کا قبلہ ۔۔ وہ جو ۔۔ تھے وہ 
عَلَيْهَا ۔۔۔ قُل ۔۔۔ لِّلَّهِ ۔۔۔ الْمَشْرِقُ ۔۔۔ وَالْمَغْرِبُ ۔۔۔يَهْدِي
اس پر ۔۔ فرما دیجئے ۔۔ الله کے لئے ۔۔ مشرق ۔۔ اور مغرب ۔۔ وہ ھدایت دیتا ہے 
مَن ۔۔ يَشَاءُ ۔۔إِلَى ۔۔۔ صِرَاطٍ ۔۔۔۔مُّسْتَقِيمٍ۔ 1️⃣4️⃣2️⃣
جسے ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔ طرف ۔۔ راستہ ۔۔ سیدھا 

سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ.  1️⃣4️⃣2️⃣

اب بے وقوف لوگ کہیں گے کہ مسلمانوں کو ان کے قبلے سے کس چیز نے پھیر دیا جس پر وہ تھے۔ فرما دیجئے مشرق اور مغرب الله ہی کا ہے وہ جسے چاہے سیدھی راہ پر چلائے ۔ 

اَلسُّفَھَآءُ مِنَ النَّاسِ ۔ ( بے وقوف لوگ ) ۔ سفھاء کا واحد سفیہ ہے ۔سفیہ کے معنی چھچھورے اور کم عقل کے ہیں ۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو الله تعالی کے حکموں پر اعتراض اور تنقید کرتے ہیں ۔ یہاں یہودیوں کی طرف اشارہ ہے ۔ 
قِبْلَه ۔ ( قبلہ) ۔وہ چیز جو سامنے ہو ۔ یعنی وہ سمت اور جگہ جس کی طرف رُخ کر کے عبادت کی جائے ۔ یعنی مرکزِ توجہ اور عبادت میں رُخ کی سمت ۔ یہودیوں کا قبلہ بیت المقدس تھا ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب مکہ معظمہ  سے مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو سولہ سترہ مہینے بیت المقدس ہی کی طرف نماز پڑھتے رہے ۔ لیکن آپ کا دل بار بار چاہتا تھا کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بنائے ہوئے خانہ کعبہ کو قبلہ بنائیں ۔ لیکن الله تعالی کے حکم کا انتظار تھا ۔ چنانچہ جب کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم آگیا تو یہود و نصارٰی اور مشرکین و منافقین کو مخالفت کا ایک اور بہانہ ہاتھ لگ گیا ۔ وہ اس پر طرح طرح کے اعتراض کرنے لگے ۔ کہ پہلے تو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے ۔ جو قدیم نبیوں کا قبلہ تھا ۔ اب انہیں کیا ہوا جو اُسے چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ بنا لیا ۔ بعض کہنے لگے کہ یہودیوں  سے عداوت اور حسد کی وجہ سے ایسا کیا ہے اور بعض نے کہا کہ وہ اپنے دین میں ہی شک وشبہ میں اور تردد میں ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سچے نبی نہیں ہیں ۔ 
مخالفوں کے اس اعتراض کے جواب میں الله تعالی نے فرما دیا ۔۔۔ کہ اے محمد صلی الله علیہ وسلم کہ ہم نے یہودیوں  سے حسد میں یا نفسانی خواہش کی پیروی میں یا اپنی مرضی و رائے سے قبلہ تبدیل نہیں کیا بلکہ الله جل شانہ کے حکم سے قبلہ کو بدلا ہے ۔ اور الله تعالی کے حکم کی فرمانبرداری و اتباع ہی ہمارا اصل دین ہے ۔ 
پہلے الله تعالی کے حکم کو تسلیم کرتے ہوئے  بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے اب کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم آیا تو ہم نے اس کو دل سے قبول کر لیا ۔ ہم سے اس کی وجہ پوچھنا یا ہم پر اعتراض کرنا سخت حماقت ہے ۔ ہم تو ہر حکم میں الله تعالی کے فرمانبردار اور غلام ہیں ۔ یہ اعتراض کرنا کہ پہلے تم یہ کام کرتے تھے اب یہ کام کیوں کرنے لگے عقلمندوں کا کام نہیں ۔ اگر ان مختلف احکام کے اسرار دریافت کرتے ہو تو الله جل شانہ کے کاموں کی حقیقت اور مصلحت کون جان سکتا ہے ۔ اور تم بے وقوفوں کو کان سمجھا سکتا ہے ۔ 
اور قبلہ کی سمت کے تعین کرنے کا مقصد عبادت کرنے کا طریقہ سکھانا ہے اصل عبادت ہرگز نہیں ہے ۔ مشرق ہو یا مغرب ہر سمت الله تعالی کی ہے ۔ وہ ہر طرف ہے ۔ ہر سمت کی ہر شئے اس کے علم اور قبضے میں ہے اور اس بارے میں الله تعالی کا معاملہ جُدا جُدا ہے ۔ کسی کو اپنی حکمت اور رحمت کے مطابق ایک خاص رستہ بتایا جاتا ہے اور کسی کو دوسرا۔۔۔ 
تمام مواقع اور جہات کا وہ مالک ہے ۔جس کو جس وقت چاہتا ہےاس کو ایسا رستہ بتا دیتا ہے جو نہایت سیدھا اور سب راستوں سے مختصر اور قریب تر ہو ۔ وہ جسے چاہتا ہے اپنے پیغام اور راہنمائی سے نوازتا ہے ۔ چنانچہ ہم کو اس وقت اُس قبلہ کی ھدایت فرمائی جو سب قبلوں میں افضل اور بہتر ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...