نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*نیکی میں سبقت*

وَلِكُلٍّ ۔۔ وِجْهَةٌ ۔۔ هُوَ ۔۔ مُوَلِّيهَا 
اور ہر ایک کے لئے ۔۔۔ ایک سمت ہے ۔۔۔ وہ ۔۔ پھرنے والا ہے اس کی طرف 
فَاسْتَبِقُوا۔۔۔  الْخَيْرَاتِ ۔۔۔ أَيْنَ مَا ۔۔۔ تَكُونُوا ۔۔۔ يَأْتِ
پس تم سبقت کرو ۔۔۔ نیکیاں ۔۔ جہاں کہیں ۔۔۔ تم ہو گے ۔۔۔ لے آئے گا 
بِكُمُ ۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ جَمِيعًا ۔۔۔ إِنَّ ۔۔ اللَّهَ
تم کو ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اکٹھا ۔۔ بے شک ۔۔۔ الله تعالی 
عَلَى ۔۔ كُلِّ ۔۔۔ شَيْءٍ ۔۔۔قَدِيرٌ۔  1️⃣4️⃣8️⃣
پر ۔۔ ہر ۔۔ چیز ۔۔ قادر 

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا
إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.  1️⃣4️⃣8️⃣

اور ہر کسی کے لئے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ منہ کرتا ہے ۔ سو تم نیکیوں میں سبقت کرو ۔ جہاں کہیں تم ہو گے الله اکٹھا کر لائے گا ۔بے شک الله تعالی ہر چیز پر قادر ہے ۔ 

خَیْرَ ات ۔ ( نیکیاں ) ۔ خیر اس کا واحد ہے ۔ صدقہ و خیرات اور ہر قسم کی نیکی کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ ہر وہ کام جو شریعت کے مطابق کیا جائے اور مقصد محض الله تعالی کو خوش کرنا ہو ۔ خیرات میں داخل ہے ۔ 
اہل کتاب کی گروہ بندی اور خود غرضی بیان کرنے کے بعد الله تعالی نے انہیں سیدھی راہ کی تلقین کی ۔اور بتایا کہ سچائی ایک ہی ہے ۔ جو سب کو دی گئی تھی ۔ لیکن گذشتہ امتوں نے اسے گم کر دیا ۔ 
قبلہ کا مقرر ہونا دین کے بنیادی مسائل میں سے نہیں ہے کہ اسے حق و باطل کا معیار سمجھ لیا جائے ۔ ہر اُمّت کے لئے اپنا اپنا قبلہ ہے ۔اور وہ اس کی طرف رُخ کر کے عبادت کرتی ہے ۔اصل چیز جو سمجھنے اور کرنے کی ہے ۔ وہ ہے " خیرات "  یعنی نیک کام ۔اس لئے اس میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرو اور اسے ہی دینداری کی اصل بنیاد سمجھو ۔ 
اہلِ کتاب تعصب اور ضد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے ۔حق کی طرف رجوع ہی نہیں کرتے تھے ۔ ہمیشہ مسلمانوں کے دلوں میں شک ڈالتے ۔ شرارتوں اور سازشوں میں پیش پیش رہتے ۔یہ لوگ اپنے دین کی تعلیمات سے غافل ہو کر معمولی مسائل میں الجھنیں پیدا کرتے ۔ اور کچھ نہیں تو وہ قبلے کا ہی سوال لے بیٹھے ۔ حالانکہ وہ ایسا اہم نہیں کہ اس کی بحث میں اپنے عظیم وقت کو گنواؤ ۔ قبلہ کو الله تعالی کا حکم سمجھو ۔ جو وقت اور مصلحت پر موقوف ہے ۔ اصل کام تو نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے ۔
اگر اُمت کا اجماع نیکی پر ہو گا اور وہ اندگی میں نیکی کو شامل کر لیں گے تو الله تعالی ان سب کو ایک مرکز پر جمع کر دے گا ۔ اختلافات ختم ہو جائیں گے ۔ اور مخالفتیں مٹ جائیں گی ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...