نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*ملتِ ابراھیمی*

وَقَالُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  كُونُوا ۔۔۔هُودًا۔۔۔  أَوْ نَصَارَى 
اور کہا انہوں نے ۔۔۔ہوجاؤ ۔۔ یہودی ۔۔ یا عیسائی 
تَهْتَدُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    قُلْ ۔۔۔۔۔۔۔ بَلْ ۔۔۔ مِلَّةَ ۔۔۔إِبْرَاهِيمَ 
تم ھدایت پاؤ گے۔۔ کہہ دو ۔۔ بلکہ ۔۔ملّت ۔۔۔ ابراھیم علیہ السلام 
حَنِيفًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَمَا  ۔۔۔ كَانَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔الْمُشْرِكِينَ۔  1️⃣3️⃣5️⃣
ایک ہی طرف ۔۔۔ اور نہیں ۔۔ تھے وہ ۔۔۔ سے ۔۔ مشرک 

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ.  1️⃣3️⃣5️⃣

اور وہ کہتے ہیں یہودی یا نصرانی ہو جاؤ تو تم ھدایت پالو گے ۔فرما دیجئے کہ ہرگز نہیں بلکہ ہم نے ابراھیم علیہ السلام کی راہ اختیار کی جو ایک راہ اختیار کرنے والے تھے  اور شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے 

مِلَّةَ اِبْرَاھِیْمَ ۔ ( ابراھیم علیہ السلام ) ۔ اس سے مراد وہ خالص قواعد وضوابط اور قوانین ہیں ۔ جو حضرت ابراھیم علیہ السلام نے جاری کئے ۔ اور ایک جماعت ان اصولوں پر جمع ہو گئی ۔ 
حَنِیْفًا ۔ ( یک طرفہ ) ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگ مختلف چیزوں کو پوجتے تھے ۔اور سمجھتے تھے ہمارے تمام کام ان سے چلتے ہیں ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ان سب سے چھڑا کر ایک الله تعالی کی عبادت کی طرف بلایا اور خود بھی سب سے کٹ کر اس ایک الله کے ہو رہے ۔ اسی لئے آپ کو "حنیف" کا لقب ملا ۔ 
قرآن مجید میں الله تعالی نے اہلِ کتاب اور مشرکوں کے تمام جھوٹے دعووں کی تردید کر دی ۔ ان کی دلیلوں کو غلط ثابت کرکے روشن اور واضح دلائل کے ساتھ حق قبول کرنے کی دعوت دی ۔یہودیوں اور عیسائیوں کو چاہئیے تھا کہ قرآن مجید کی سیدھی اور سچی تعلیم قبول کر لیتے ۔ اس کے بجائے انہوں نے حسد اور ضد سے کام لیا ۔اور اُلٹا مسلمانوں کو یہودیت اور عیسائیت کی دعوت دینے لگے ۔مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ہمارا دین قبول کر لو ۔ تو تمہیں دُنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہو جائے گی ۔ 
الله تعالی نے ان کی اس دعوت کے بارے میں رسول الله صلی الله علیہ وسلمکو ساری اُمّت کی طرف سےیہ جواب دینے کو کہا کہ اے اھل کتاب ! تم نے اپنی کتابوں اور شریعتوں میں بے شمار تبدیلیاں کر دی ہیں ۔ اور ہمارا دین بس اسی قدیم دینِ توحید پر ہے ۔ جو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا تھا ۔ ہم اسی دین پر قائم ہیں اور ہم نے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ۔ 
دوسرے یہ کہ تم کس منہ سے اپنے دین کو حضرت ابراھیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہو ۔ وہ تو شرک کے قریب سے بھی نہیں ہو کر گزرے تھے ۔ وہ خالص توحید پر قائم تھے ۔اور تم لوگوں کا مذہب تو اب شرک کی گندگیوں سے بھرا ہوا ہے ۔ تم کس طرح دینِ حق اور نجات کے دعویدار ہو سکتے ہو ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...