نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*مکّہ ---- امن والا شہر*

وَإِذْ ۔۔ قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔ إِبْرَاهِيمُ ۔۔۔۔۔ رَبِّ ۔۔۔۔۔اجْعَلْ 
اور جب ۔۔۔ کہا ۔۔ ابراھیم  علیہ السلام نے ۔۔  ربّ ۔۔۔ تو بنا 
هَذَا ۔۔بَلَدًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ آمِنًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وَارْزُقْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔أَهْلَهُ 
یہ ۔۔ شہر ۔۔۔امن والا ۔۔۔ اور تو رزق دے ۔۔۔ اس میں رہنے والے 
مِنَ ۔۔ الثَّمَرَاتِ ۔۔۔ مَنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ آمَنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِنْهُم 
سے ۔۔۔ پھل ۔۔ جو شخص ۔۔۔۔  ایمان لایا ۔۔۔۔۔ ان میں سے 
بِاللَّهِ ۔۔۔ وَالْيَوْمِ ۔۔۔۔ ۔۔ الْآخِرِ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ قَالَ ۔۔۔۔۔ ۔۔وَمَن 
الله تعالی پر ۔۔۔ اور آخرت کے دن پر ۔۔۔ فرمایا ۔۔۔ اور جو شخص 
كَفَرَ ۔۔۔۔۔ ۔۔ فَأُمَتِّعُهُ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ قَلِيلًا ۔۔۔ ثُمَّ 
کفر کیا ۔۔۔ پس میں نفع پہنچاؤں گا اس کو ۔۔۔ تھوڑا ۔۔ پھر 
أَضْطَرُّهُ ۔۔۔۔ ۔۔ إِلَى ۔۔۔ عَذَابِ ۔۔۔ النَّارِ 
میں مجبور کروں گا اُس کو ۔۔۔ طرف ۔۔۔ عذاب ۔۔۔ آگ 
وَبِئْسَ ۔۔۔الْمَصِيرُ۔   1️⃣2️⃣6️⃣
اور بُرا ہے ۔۔۔ لوٹ کر جانے کی جگہ 

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ.   1️⃣2️⃣6️⃣

اور جب ابراھیم علیہ السلام نے کہا اے میرے رب اس شہر کو امن والا بنا اور اس کے رہنے والوں کو پھلوں کی روزی دے ان میں سے جو کوئی الله اور قیامت کے دن پر ایمان لائے  فرمایا ( الله تعالی نے ) جو کفر کرے گا اس کو بھی تھوڑے دنوں نفع پہنچاؤں گا  پھر اسے جبراً دوزخ کے عذاب کی طرف بلاؤں گا  اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے ۔ 

قَلِیْلاً ۔ ( تھوڑے دن ) ۔ مراد ہے دنیا کی زندگی ۔ کیونکہ آخروی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی بہت تھوڑی سی  ہے ۔ 
فَاُمَتِّعُہُ ۔ ( پھر اسے نفع پہنچاؤں گا ) ۔ یہ لفظ متاعٌ سے نکلا ہے ۔جس کے معنی نفع اور سازوسامان کے ہیں ۔ 
جب حضرت ابراھیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کر لی تو چند دعائیں کیں ۔
اول یہ کہ اس عمارت کو ، اس کے شہر کو اور اردگرد کے علاقے کو امن والا بنا دے ۔
دوم یہ کہ یہاں کے رہنے والوں کو جو مؤمن ہوں پھل اور میوے کھانے کو دے ۔ آپ کی یہ دونوں دعائیں پوری ہوئیں ۔ چنانچہ اس جگہ پر نہ خونریزی ہوتی ہے نہ ڈاکے پڑتے ہیں ۔ حتی کہ جانور کا شکار تک نہیں کیا جاتا ۔ اگرچہ ساری زمین سخت 
پتھریلی اور ریتلی ہے ۔ لیکن تازہ پھل اور میوے ، ترکاریاں ، غلّے وغیرہ بکثرت  ملتے ہیں ۔ 
حضرت ابراھیم علیہ السلام کو بتایا گیا تھا کہ ظالموں اور بد کاروں کو امامت و پیشوائی کے منصب سے محروم رکھا جائے گا ۔ آپ نے اس حکم کو یاد رکھا ۔اور مکّہ کے رہنے والوں کے لئے دُعا کرتے وقت صرف ایمانداروں کے لئے دُعا فرمائی ۔ 
الله تعالی نے فرمایا ۔۔۔ دینی سرداری صرف اہل ایمان و اطاعت کے لئے ہی مخصوص ہے ۔ البتہ دنیوی زندگی سے کافروں اور منکروں کو بھی محروم نہ کیا جائے گا ۔ مگر یہ چیزیں انہیں صرف دنیا ہی میں تھوڑے عرصے کی زندگی میں ملیں گی ۔ اس کے بعد قیامت کے دن انہیں ان کی نافرمانی کی سزا میں جہنم میں جھونک دیا جائے گا ۔ جوکہ بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے ۔ 
اللھم اَجِرْنَا مِنَ النَّار ۔۔۔ الله تعالی ہمیں جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...