*میانہ رو اور اعتدال پرور اُمّت*

وَكَذَلِكَ ۔۔۔ جَعَلْنَا۔۔۔ كُمْ ۔۔ أُمَّةً ۔۔۔ وَسَطًا 
اور اسی طرح ۔۔ ہم نے بنایا ۔۔ تم کو ۔۔ امت ۔۔ معتدل 
لِّتَكُونُوا ۔۔۔ شُهَدَاءَ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔  النَّاسِ 
تاکہ تم ہو ۔۔ گواہ ۔۔ پر ۔۔ لوگ 
وَيَكُونَ ۔۔۔ الرَّسُولُ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ شَهِيدًا 
اور ہو ۔۔۔ رسول۔۔۔ تم پر ۔۔۔ گوہی دینے والا 

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا 

اور اسی طرح ہم نے تم کو معتدل امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہی دینے والا ہو ۔ 

وَسَطاً ۔ ( درمیانہ ۔ متوسط ۔ معتدل ) ۔اس کا مطلب ہے امّت مسلمہ ٹھیک سیدھی راہ پر ہے ۔ جس میں کچھ ٹیڑھا پن اور افراط و تفریط نہیں ۔اسلام کی حقیقی تعلیم اعتدال پسندی ہے ۔ اور اسلام پر ٹھیک ٹھیک عمل کرنے والے میانہ رو ہیں ۔ وہ ہر قسم کی زیادتی و کمی سے دور رہ کر درمیانہ راہ اختیار کرنے پر مامور ہیں ۔
شَھِیْدٌ ۔ ( گواہ ) ۔ شاہد اور شھادت کے لفظ بھی اسی مادے سے بنے ہیں ۔ گواہ کے معنی کے علاوہ اصطلاحی طور پر یہ لفظ الله تعالی کی راہ میں جان کی بازی لگا دینے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔یہاں اس کے معنی نگران بھی لئے جا سکتے ہیں ۔ 
اس آیت میں امت مسلمہ کی فضیلت اور برتری بیان کی گئی ہے ۔ 
الله تعالی فرماتا ہے کہ اے مسلمانو  !  جس طرح تمہارا قبلہ تمام دوسرے قبلوں سے افضل ہے ایسے ہی ہم نے تمہیں تمام امتوں سے افضل بنایا ہے ۔ اور تمہارے پیغمبر کو سب پیغمبروں سے برتر اور برگزیدہ کیا ہے ۔ 
حدیث مبارکہ میں آتا ہے ۔ کہ قیامت کے روز جب پہلی امتوں کے کافر اپنے پیغمبروں کے دعوے کو جھٹلائیں گے اور کہیں گے ہمیں تو کسی نے بھی دنیا میں ھدایت نہیں کی ۔ اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت انبیاء کے دعوے کی صداقت کی گواہی دے گی ۔ اور رسول الله صلی علیہ وسلم جو اپنی اُمّت کے تمام احوال سے واقف ہوں گے اُنکی صداقت و عدالت پر گواہ ہوں گے ۔ اُس وقت وہ امتیں کہیں گی انہوں نے تو نہ ہمیں دیکھا اور نہ ہمارا زمانہ پایا پھر گواہی کیسے مقبول ہو سکتی ہے ۔ 
تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی امت جواب دے گی کہ ہمیں الله تعالی کی کتاب اور اُس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بتانے سے اس بات کا یقینی علم ہوا اس وجہ سے ہم گواہی دیتے ہیں ۔ 
اُمّتِ مسلمہ انفرادی اور اجتماعی طور پر دونوں حیثیتوں سے ساری دنیا کے لئے بطور نمونہ تیار کی گئی ہے دنیا کی ہر اُمت کو اسی  سانچہ میں ڈھلنا اور اسی معیار پر پورا اترنا چاہئیے ۔ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات بابرکات مسلمانوں کے لئے نمونہ اور مثال کی حیثیت رکھتی ہے ۔ 
اس آیت سے یہ سبق بھی حاصل ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو دنیا کی دوسری قوموں کے لئے نمونہ کے طور پر قائم رکھیں ۔اخلاقی پستی سےہر صورت بچے رہیں۔ اور کبھی ایسی راہ اختیار نہ کریں ۔ جس سے ہماری اس اہم حیثیت میں فرق آئے ۔اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا نمونہ رکھنا چاہئیے ۔ معتدل مزاج امّت ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر قسم کی افراط و تفریط سے بچنا چاہئیے ۔ تاکہ ہم " اُمة وسطا " کے لقب کی لاج رکھنے کے قابل ہو سکیں۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں