*پارہ اوّل کے اسباق کا خلاصہ*

الحمد لله قرآن مجید کا پہلا پارہ ہم نے الله رحمان و رحیم کی مہربانی اورکرم سے سبقاً سبقاً ختم کر لیا ہے ۔ اب ایک نظر اس کے اسباق کے خلاصے پر ڈالتے ہیں ۔ تاکہ چند الفاظ میں کلام الله کا مفہوم ذہن میں آجائے ۔ 
سورہ بقرہ کی تمہید میں یہ بیان کیا گیا کہ اس سورۃ کا موضوع یہ ہے کہ اس میں ایسی تعلیم دی جائے جو مسلمانوں میں صحیح چال و چلن پیدا کرے ۔ وہ اپنے مذہب اور اخلاق کے پابند ہو کر دنیا وآخرت کی انتہائی کامیابیاں حاصل کریں ۔خالص مذہب اور اخلاق حسنہ سمجھانے کے لئے ضروری تھا کہ دنیا میں جس قدر قومیں اور امتیں آباد ہیں ۔ ان کے مذہب ، رسموں اور عقیدوں کےاختلاف ظاہر کئے جائیں ۔ ان کی کمزوریوں سے آگاہ کیا جائے اور پھر سیدھے راستے کی تعلیم دی جائے ۔ 
قرآن مجید کے پہلے پارے میں سب سے پہلے وحی اور الہام کی ضرورت بتائی گئی ۔ اور بیان کیا گیا قرآن مجید ایک الہامی کتاب ہے ۔اس کی تعلیمات جو شخص قبول کرے گا اور اس کے احکام کی تعمیل کرے گا وہ سیدھی راہ پا لے گا ۔ اور کامیاب ہو گا ۔ 
اس کے بعد بتایا گیا کہ قرآن مجید کی تعلیمات جب پیش کی جائیں گی تو تین قسم کے لوگ ہوں گے ۔
جو قرآن مجید کی تعلیمات کو قبول کر لیں گے ۔اور اس کے احکام پر پابند ہو جائیں گے ۔یہ ہر قسم کی کامیابی حاصل کریں گے ۔ 
دوسرے وہ جو سختی سے مخالفت کریں گے ۔ اور اس کے ماننے والوں سے دشمنی رکھیں گے ۔ یہ کافر ہوں گے اور بڑے عذاب کے مستحق ہوں گے ۔ 
تیسرے وہ جو دونوں جماعتوں سے تعلق رکھیں گے ۔ مسلمانوں میں مسلمان اور کفّار میں کافر بن کر رہیں گے ۔ان منافقوں کو درد ناک عذاب ملے گا ۔ 
پھر کفار و منافقین کو نصیحت کرنے کے بعد انہیں قانون الہی کی طرف توجہ دلائی کہ وحی پر صرف وہی لوگ نکتہ چینی اور اعتراض کرتے ہیں جن میں تین مرض ہوں ۔ 
(ا) ۔ ایمان کمزور ہو ۔ 
(ب) ۔ طبیعت ضعیف ہو ۔ 
)ج) ۔ عقل  و دانش کی کمی ہو ۔ 
پھر بتایا کہ مذھب انسان کی فطرت میں داخل ہے ۔ اس لئے انسان الہام ربّانی کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہے اپنی فطرت کی وجہ سے ۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کو جب خلیفہ بنایا گیا اور پھر زمین پر بھیجا گیا تو آپ پریشان رہے ۔ یہاں تک کہ الله تعالی نے ان پر چند کلمات الہام کئے جو ان کے اطمینان قلب کا باعث ہوئے ۔ 
اس کے بعد قرآن مجید کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ۔ اور یہودیوں کی تین خرابیوں کا ذکر کیا گیا ۔ 
علمی ۔۔۔ عملی ۔۔۔ اور انتظامی 
اور انہیں بتایا گیا کہ تم نے بدکرداریاں اور بدعملیاں کی ہیں ۔ اس لئے تم سے حکومت چھین لی گئی ۔  ان کے عالموں ، دولت مندوں اور لوگوں کی باطل پرستیوں اور غلط عقیدوں کو بیان کیا گیا ۔ 
اور بتایا گیا کہ بنی اسرائیل مسلمانوں کی شریف رعایا بننے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے ۔ اس لئے مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے تعلقات ان سے توڑ لیں ۔ 
بعد میں ابراھیم علیہ السلام کی دُعا ، بیت الله کی تعمیر ،  حضرت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ، آپ کے اخلاق و اوصاف اور امّت مسلمہ کا ذکر فرمایا ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں