نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*کتمانِ حق*

أَمْ ۔۔۔تَقُولُونَ ۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔ إِبْرَاهِيمَ ۔۔۔وَإِسْمَاعِيلَ 
کیا ۔۔ تم کہتے ہو ۔۔ بے شک ۔۔ ابراھیم ۔۔ اور اسماعیل 
وَإِسْحَاقَ ۔۔۔ وَيَعْقُوبَ ۔۔۔ وَالْأَسْبَاطَ ۔۔۔كَانُوا 
اور اسحاق ۔۔ اوریعقوب ۔۔۔ اور اولادیں علیھم السلام ۔۔۔ تھے وہ 
هُودًا ۔۔۔ أَوْ نَصَارَى ۔۔۔ قُلْ ۔۔۔ أَ ۔۔ أَنتُمْ ۔۔ أَعْلَمُ
یہودی ۔۔۔ یا نصارٰی ۔۔ کہہ دو ۔۔ کیا ۔۔ تم ۔۔ زیادہ جانتے ہو 
أَمِ ۔۔ اللَّهُ ۔۔۔  وَمَنْ ۔۔۔ أَظْلَمُ ۔۔۔ مِمَّن
یا ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اور کون ۔۔ بڑا ظالم ۔۔ اس شخص سے 
كَتَمَ ۔۔۔ شَهَادَةً ۔۔۔ عِندَهُ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔اللَّهِ
چھپائی اس نے ۔۔۔ گواہی ۔۔ اس کے پاس ۔۔ سے ۔۔ الله تعالی 
وَمَا ۔۔ اللَّهُ ۔۔۔ بِغَافِلٍ ۔۔۔ عَمَّا ۔۔۔تَعْمَلُونَ۔   1️⃣4️⃣0️⃣
اور نہیں ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ بے خبر ۔۔ اس سے جو ۔۔ تم کرتے ہو 


أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى قُلْ أَأَنتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ.   1️⃣4️⃣0️⃣

کیا تم کہتے ہو کہ ابراھیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب علیھم السلام اور ان کی اولادیں  وہ یہودی یا عیسائی تھے  فرما دیجئے کہ تمہیں زیادہ خبر ہے یا الله تعالی کو  اور اُس سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جس نے گواہی چھپائی جو اس کے پاس الله تعالی سے ثابت ہو چکی اور الله تعالی تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں ۔ 

اس آیت میں یہودیوں اور عیسائیوں کی ایک اور غلط فہمی اورمن گھڑت عقیدے کا جواب دیا گیا ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے بزرگ حضرت ابراھیم ۔ اسماعیل ۔ اسحاق ۔ یعقوب علیھم السلاماور ان کی اولادیں یا تو یہودی مذھب کے پیروکار تھے یا نصرانی ( عیسائی ) مذہب کے نعوذ بالله وہ بھی اس فرقہ پرستی میں مبتلا تھے ۔ 
الله تعالی فرماتا ہے ۔ کہ اے اہلِ کتاب تم واقعات کو توڑ موڑ کر اور صداقتوں کی صورتیں بدل بدل کر جو کچھ چاہوسمجھتے جاؤ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ سب حضرات خالص توحید کے دین پر قائم رہنے والے اور اسی پر دوسروں کو قائم کرنے والے تھے ۔ اور اسی کا نام اسلام ہے ۔ تمہارا علم الله تعالی کے مقابلے میں کچھ نہیں بلکہ تمہارے علم کو اُس کے علم سے کوئی نسبت نہیں ۔ تم لوگ سچائیوں کو جان بوجھ کر چھپاتے ہو ۔ تمہارے پاس الله تعالی کی کتابیں پہنچ چکی ہیں ۔ جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اسلام دینِ برحق ہے ۔
حضرت ابراھیم ، اسماعیل ، اسحاق اور یعقوب علیھم السلام کامل مؤمن اور توحید یعنی اسلام کے پیروکار تھے ۔ تمہاری کتابوں میں بھی یہ صاف لکھا ہوا ہے ۔ کہ آخر زمانہ میں ایک رسول برحق دنیا میں آئے گا ۔ تم جانتے بوجھتے اس واقعی اور حق بات کو چھپا رہے ہو اور حق بات کو چھپانے والے سے بڑا ظالم اور کون ہو گا ۔
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ سچائی اور حقیقت کو چھپانا الله تعالی کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے ۔ ہمیں بھی اس سے بچنا چاہئیے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...