نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*اہلِ کتاب اور پیغمبر اسلام*

الَّذِينَ ۔۔۔ آتَيْنَاهُمُ ۔۔۔ الْكِتَابَ ۔۔۔ يَعْرِفُونَهُ
وہ لوگ ۔۔ دی ہم نے ان کو ۔۔ کتاب ۔۔ وہ پہچانتے ہیں اس کو 
كَمَا ۔۔۔ يَعْرِفُونَ ۔۔۔ أَبْنَاءَهُمْ ۔۔۔ وَإِنَّ 
جیسا کہ ۔۔۔ وہ پہچانتے ہیں ۔۔۔ اپنے بیٹوں کو۔۔ اور بے شک 
فَرِيقًا۔۔۔۔۔  مِّنْهُمْ ۔۔۔ لَيَكْتُمُونَ ۔۔۔ الْحَقَّ
ایک جماعت ۔۔۔ ان میں سے ۔۔ البتہ چھپاتے ہیں ۔۔۔ سچ 
وَهُمْ ۔۔۔ يَعْلَمُونَ۔  1️⃣4️⃣6️⃣
اور وہ ۔۔۔ جانتے ہیں 
الْحَقُّ ۔۔۔ مِن ۔۔۔ رَّبِّكَ ۔۔۔ فَلَا
سچ ۔۔ سے ۔۔۔ آپ کا ربّ ۔۔۔پس نہ 
تَكُونَنَّ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الْمُمْتَرِينَ.  1️⃣4️⃣7️⃣
آپ ہوں ۔۔۔ سے ۔۔ شک کرنے والے 

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ.   1️⃣4️⃣6️⃣

جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے ایسی اچھی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو ۔ اور بے شک ان میں سے ایک گروہ ہے جو حق کو جانتے بوجھتے چھپاتے ہیں ۔ 

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ.  1️⃣4️⃣7️⃣

حق تمہارے ربّ کی طرف سے ہے ۔ پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں 

اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنی مذھبی کتابوں کے ذریعے اچھی طرح جانتے تھے کہ آخر وقت میں ایک نبی آئے گا ۔ وہ اپنے دل سے کوئی بات نہ کہے گا ۔ بلکہ الله تعالی کی وحی کے مطابق تعلیم دے گا ۔ جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو ان لوگوں نے وہ نشانیاں آپ میں پائیں ۔ جو ان کی کتابوں میں درج تھیں ۔ وہ اچھی طرح پہچان گئے کہ یہ وہی نبی آخر الزماں ہے ۔ اور اس کی تعلیمات حق اور سچ ہیں ۔ لیکن محض دشمنی اور ضد کی وجہ سے انہوں نے آپ کو ماننے سے انکار کر دیا ۔اور تمام پیشن گوئیوں کو چھپانے لگے ۔ جو ان کی آسمانی کتابوں میں موجود تھیں ۔ اور یوں ظاہر کرنے لگے جیسے انہیں اس کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں ۔ 
الله تعالی پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کو یقین دلا رہا ہے کہ اہلِ کتاب حق کو مانیں یا نہ مانیں آپ کے نبی ہونے کی پیشن گوئیوں کو چھپائیں یا ظاہر کریں آپ کے قبلہ کو صحیح سمجھیں یا نہ سمجھیں ۔ حق ہر حالت میں حق ہی ہے۔ نبی کی طرف سارے احکام ہمارے پاس سے بھیجے جاتے ہیں ۔ امت مسلمہ کا مستقل قبلہ خانہ کعبہ ہی ہو گا ۔ اس لئے کسی قسم کے شک اور تردد میں نہ پڑیں ۔ 
اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کے آنے کی پیشن گوئیاں قدیم آسمانی کتابوں میں موجود تھیں ۔ اہلِ کتا ب ان کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے تھے جیسا کہ باپ بہت سے بچوں میں سے اپنے بیٹوں کو پہچان لیتا ہے ۔ اور اپنے بچے کو پہچاننے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔ 
افسوس  اہلِ کتاب نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تمام نشانیاں  پائیں ۔ان کے دلوں نے گواہی دی مگر وہ آج تک پوری طرح تعصب سے بلند ہو کر حلقہ بگوش اسلام نہ ہوئے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...