*اپنے اعمال ہی کام آئیں گے*

تِلْكَ ۔۔   أُمَّةٌ ۔۔۔ قَدْ ۔۔۔ خَلَتْ ۔۔۔لَهَا
وہ ۔۔ جماعت ۔۔ تحقیق گزر چکی ۔۔۔ اس کے لئے 
مَا ۔۔ كَسَبَتْ ۔۔۔ وَلَكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ مَّا ۔۔۔۔۔ ۔۔ كَسَبْتُمْ
جو ۔۔۔ اس نے کمایا ۔۔ اور تمہارے لئے ۔۔ جو ۔۔ تم نے کمایا 
وَلَا ۔۔۔ تُسْأَلُونَ ۔۔۔ عَمَّا ۔۔ كَانُوا ۔۔۔  يَعْمَلُونَ.   1️⃣4️⃣1️⃣
اور نہیں ۔۔۔ تم سوال کئے جاؤ گے ۔۔۔ اس کا ۔۔ تھے وہ ۔۔۔ وہ کرتے 

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ۔  1️⃣4️⃣1️⃣

وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی ان کے لئے جو انہوں نے کیا اور تمہارے لئے جو تم نے کیا اور تم سے ان کے کاموں کی کچھ پوچھ نہیں ہوگی ۔

یہ آیت پہلے بھی گزر چکی ہے ۔اور اب دوبارہ یہودیوں اور عیسائیوں کو مزید تنبیہ کرنے کے لئے لائی گئی ہے ۔ اس میں عام فہم دلیل سے ان کے عقیدوں کو رد کیا گیا ہے ۔ 
اہل کتاب کو اس بات پر بڑا فخر تھا کہ وہ پیغمبروں کی نسل سے ہیں اس لئے ان کے گناہوں کی پکڑ نہیں ہوگی ۔اس عقیدے کی وجہ سےوہ لوگ ہر طرح کی خلاف شرع باتوں اور گناہوں کو جائز سمجھتے تھے ۔اور روز مرہ کی زندگی میں نیکی اور بدی میں تمیز نہیں کرتے تھے ۔ اور ان کا خیال تھا کہ ان کے بزرگ چونکہ انہی باتوں پر قائم تھے جن پر اب وہ قائم ہیں ۔ اس لئے انہیں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ 
الله تعالی نے ان کے ان غلط عقائد کو قطعی باطل قرار دیا اور فرمایا کہ پہلے جو لوگ گزر چکے ہیں میں ان کے بارے میں خوب جانتا ہوں ۔ وہ اصل توحید پر قائم تھے ۔ ہرگز یہودی یا نصرانی نہیں تھے بلکہ سب سے ہٹ کر صرف الله تعالی کے فرمانبردار تھے ۔ اور الله تعالی کے ہاں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمھارے باپ دادا کیا کرتے تھے بلکہ تم سے یہ سوال کیا جائے گا کہ تم کیا کرتے رہے ۔ 
ان کی نیکیاں تمہارے یا کسی اور کے کام نہیں آسکتی ۔ ہر شخص اور ہر قوم کی اپنی نیکیاں ہی اس کے کام آ سکتی ہیں ۔ اس لئے دوسروں کے اعمال پر بھروسہ کرنا نادانی ہے ۔ 
کسبت  یعنی کمائی یہ قرآن مجید کا خاص انداز بیان ہے ہم جس کو فعل یا عمل کہتے ہیں ۔ الله تعالی اسے کسب یا کمائی کہتا ہے ۔ ہم جو بھی فعل یا عمل کرتے ہیں اس کا  اچھا یا برا نتیجہ ہوتا ہے  جو الله کی خوشنودی یا ناراضگی کا سبب بنتا ہے ۔ وہی نتیجہ ہماری کمائی ہے ۔ اور الله جل شانہ کے نزدیک کیونکہ اس نتیجے ہی کی اہمیت ہے اس لئے عمل کے لئے کسب کا لفظ فرمایا ہے ۔ 
جب کوئی قوم اچھے کام چھوڑ کر بزرگوں کی میراث پر بھروسہ کرکے بیٹھ جایا کرتی ہے ۔ اس قوم کا زندہ رہنا اور فلاح و کامرانی حاصل کرنا محال ہو جاتا ہے ۔دنیا میں بہت سی قومیں اس غلط فہمی کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئیں ۔
الله تعالی ہمیں صحیح عقائد پر قائم رکھے اور نیک کاموں کی توفیق بخشے ۔ آمین 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں