*حضرت ابراھیم علیہ السلام کی وصیت*

إِذْ ۔۔ قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔  لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رَبُّهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أَسْلِمْ
جب ۔۔ کہااس نے ۔۔۔ اس سے ۔۔ اس کا رب ۔۔۔ فرمانبردار ہو 
 قَالَ ۔۔۔ أَسْلَمْتُ ۔۔۔ لِرَبِّ ۔۔۔۔الْعَالَمِينَ۔  1️⃣3️⃣1️⃣
اس نے کہا ۔۔۔ میں فرمانبردار ہوا ۔۔۔ رب کے لئے ۔۔۔ تمام جہان 
وَوَصَّى ۔۔۔ بِهَا ۔۔۔إِبْرَاهِيمُ۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔ بَنِيهِ
اور وصیت کی ۔۔۔ اس کی ۔۔۔ ابراھیم ۔۔۔ اس کے بیٹے 
وَيَعْقُوبُ ۔۔۔يَا بَنِيَّ ۔۔۔إِنَّ ۔۔۔اللَّهَ
اور یعقوب ۔۔ اے میرے بیٹو ۔۔۔ بے شک ۔۔۔ الله تاعالی 
 اصْطَفَى ۔۔۔لَكُمُ ۔۔۔الدِّينَ ۔۔۔فَلَا تَمُوتُنَّ
چُن لیا ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ دین ۔۔۔ پس  ہرگز نہ تم مرنا 
إِلَّا ۔۔۔وَأَنتُم ۔۔۔مُّسْلِمُونَ.  1️⃣3️⃣2️⃣
مگر ۔۔ اور ہوتم ۔۔۔ مسلمان 

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ.  1️⃣3️⃣1️⃣

یاد کرو جب اسے اس کے رب نے کہا حکم برداری کر تو بولا میں تمام عالم کے رب کا حکم بردار ہوں ۔ 

وَوَصَّى بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ.  1️⃣3️⃣2️⃣

اور یہی وصیت ابراھیم علیہ السلام اپنے بیٹوں کو کر گئے اور یعقوب علیہ السلام بھی کہ اے بیٹو بے شک الله تعالی نے تمہیں چُن کر دین دیا ہے سو تم ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان ہو کر 

اَسْلِمْ ۔ ( فرمانبرداری کر ) ۔دوسرے معنی ہیں اسلام لے آ ۔ یعنی اپنے آپ کو مکمل طور پر الله وحدہ لا شریک کے سپرد کر دے ۔ اس کے حکموں کی مکمل اطاعت قبول کر ۔ اور زندگی کے ہر معاملے میں اسی کے احکام کی اطاعت کو فرض سمجھ ۔ اسلام بھی اسی لفظ سے نکلا ہے ۔ جس کے بنیادی معنی  امن دینا ۔ سلامتی چاہنا  ۔ اور اطاعت قبول کرنا ہیں ۔ 
یَعْقُوْب ۔ ( یعقوب علیہ السلام ) ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے پوتے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے تھے ۔ خود بھی نبی تھے  ۔ اسرائیل آپ ہی کا لقب ہے اسی مناسبت سے آپ کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے ۔ 
اَصْطَفٰی ۔ ( چُن لیا ) ۔ یہ لفظ اصطفا۔ سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چُن لینا اور ملاوٹ سے پاک کر دینا ۔  مصطفی بھی اسی لفظ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چُنا ہوا برگزیدہ 
تمام اہل کتاب اور مشرکین مکہ سب کے سب اس چیز کا دعوٰی کرتے تھے کہ وہ اپنے بزرگوں کے دین کو مانتے ہیں ۔ اسی پر وہ جمے رہیں گے ۔ اور کسی نئے دین کو ہرگز نہ قبول کریں گے ۔ قرآن مجید میں الله تعالی نے حضرت ابراھیم علیہ السلام کا ذکر کر کے ان لوگوں کو بتایا کہ جن بزرگوں کو تم مانتے ہو اور جن کے دین پر تم چلنے کا دعوٰی کرتے ہو ۔ وہ تو اپنی نسل کو اپنے اسی دین کی پیروی کرنے کا حکم دے گئے ہیں ۔ جس پر وہ خود عمل کرتے تھے ۔ یعنی دینِ توحید اور ملّتِ اسلام ۔ اس لئے اگر تم انہیں پیشوا مانتے ہو تو ان کا اصل دین تو یہ ہے کہ جس کی طرف اب تمہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم دعوت دے رہے ہیں ۔ اب تم اسے مانو !  حضرت ابراھیم اور یعقوب علیھما السلام اپنی اولادوں کو یہی تاکید کر گئے تھے کہ تم سب الله تعالی کے فرمانبردار ہو کر مرنا ۔ موت کا وقت غیر یقینی ہے ۔ اس لئے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وقت مسلم بنے رہنا ۔ایمان کو ہر لحظہ دل میں مضبوطی سے جمائے رکھنا ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں