نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آرزو*

قَدْ ۔۔ نَرَى ۔۔۔  تَقَلُّبَ ۔۔۔ وَجْهِكَ ۔۔۔فِي ۔۔۔السَّمَاءِ 
تحقیق ۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں ۔۔ آپ کا چہرہ ۔۔۔ میں ۔۔ آسمان 
فَلَنُوَلِّيَنَّكَ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ قِبْلَةً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ تَرْضَاهَا 
پس البتہ ہم ضرور بالضّرور پھیر دیں گے آپ کو ۔۔۔ قبلہ ۔۔ آپ راضی ہیں اس سے 
فَوَلِّ ۔۔۔ وَجْهَكَ ۔۔۔ شَطْرَ ۔۔۔ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
پس آپ پھیر لیجئے ۔۔ اپنا چہرہ ۔۔۔ طرف ۔۔ مسجد الحرام 

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ

تحقیق ہم آپ کے منہ کا آسمان کی طرف بار بار اٹھنا دیکھتے ہیں ۔ پس البتہ جس قبلہ کی طرف آپ راضی ہیں ہم آپ کو پھیر دیں گے  اب آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں ۔ 

ترضٰھَا ۔ ( جسے آپ پسند کرتے ہیں ) ۔ رضی اس کا مادہ ہے ۔ یہاں اس سے مراد خانہ کعبہ ہے ۔ جس کی تعمیر حضرت ابراھیم علیہ السلام نے کی تھی ۔ تمام عربوں کا محبوب عبادت خانہ تھا ۔ 
وَجْھَکَ ۔ ( آپ کا چہرہ ) ۔لفظی معنی منہ یا چہرے کے ہیں ۔ لیکن اس میں سارا جسم بھی شامل ہوتا ہے ۔ یہاں مراد توجہ اور اشتیاق ہے ۔ 
اَلْمَسْجِدُ الحرام ۔ ( مسجد حرام ) ۔ عزت وحرمت والی مسجد ۔ یعنی مکہ مکرمہ کی وہ مسجد اعظم جس کے اندر خانہ کعبہ واقع ہے ۔ اسے مسجد حرام یعنی قابل احترام عبادت گاہ کہتے ہیں ۔ یہاں جنگ کرنا اور شکار کرنا حرام ہے ۔ 
مسلمانوں کا اصلی قبلہ خانہ کعبہ ہی تھا ۔ جو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا قبلہ تھا ۔ صرف تھوڑے دن  کے لئے بیت المقدس کو آزمائش کی خاطر قبلہ مقرر کیا گیا تھا ۔ یہودی طعنے دیتے تھے کہ جب مسلمانوں کی شریعت ہم سے مختلف ہے اور ابراھیمی مسلک کے موافق ہے تو ہمارا قبلہ کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دل چاہتا تھا کہ الله تعالی کی طرف سے خانہ کعبہ کو قبلہ بنانے کا حکم مل جائے ۔ تاکہ خانہ کعبہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھیں ۔ فرشتۂ وحی کے انتظار میں آپ کی نظر بار بار آسمان کی طرف اُٹھ جاتی تھی ۔ اس آیت میں اسی کیفیت کا بیان ہے ۔ 
الله جل شانہ نے آپ کی اس آرزو کو پورا کیا اور فرمایا جس قبلہ کی طرف رُخ کرکے تم نماز پڑھنا چاہتے ہو ۔ ہم اسی کو تمہارا قبلہ بنا دیں گے ۔جب قبلہ بدلنے کا حکم نازل ہوا تو آپ ظہر کی نماز با جماعت پڑھ رہے تھے ۔ دو رکعت بیت المقدس کی  طرف پڑھ چکے تھے ۔ نماز ہی میں آپ نے اور تمام نمازیوں نے کعبہ کی طرف رُخ پھیر لیا ۔اور باقی دو رکعتیں پوری کیں ۔ مدینہ منورہ کی اس مسجد کو " مسجد قبلتین " کہتے ہیں ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...