*اپنے عمل ہی کام آئیں گے*

تِلْكَ ۔۔ أُمَّةٌ ۔۔۔ قَدْ ۔۔۔ خَلَتْ 
وہ ۔۔۔ جماعت ۔۔۔ تحقیق ۔۔ گزر چکی 
لَهَا۔۔۔  مَا ۔۔ كَسَبَتْ ۔۔۔ وَلَكُم 
ان کے لئے ۔۔۔ جو ۔۔۔ انہوں نے کمایا ۔۔۔ اور تمہارے لئے 
مَّا ۔۔۔ كَسَبْتُمْ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔ تُسْأَلُونَ 
جو ۔۔ تم نے کمایا ۔۔ اور نہیں ۔۔۔ تم سے سوال کیا جائے گا 
عَمَّا ۔۔۔ كَانُوا ۔۔۔يَعْمَلُونَ۔  1️⃣3️⃣4️⃣
ان سے جو ۔۔۔ تھے وہ ۔۔۔ عمل کرتے 

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ.    1️⃣3️⃣4️⃣

وہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی اُن کے لئے جو انہوں نے کیا اور تمہارے لئے جو تم نے کیا اور تم سے اُن کے کاموں کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا ۔ 

تِلْکَ اُمَّةٌ۔ ( یہ ایک جماعت ) ۔ اس سے مراد بنی اسرائیل کے بزرگ ہیں ۔ جن کے نام وہ لیتے اور ان کی پیروی کا دعوٰی کرتے تھے ۔ حالانکہ ان کا یہ دعوی غلط تھا ۔ ان گمراہ بد نصیب انسانوں کو الله تعالی کے جلیل القدر انبیاء سے نام کے سوا دور کی نسبت بھی نہ تھی ۔ 
یہودیوں کو اس بات پر بڑا فخر تھا کہ وہ نبیوں کی نسل سے ہیں ۔ اس وجہ سے انہوں نے یہ عقیدہ گھڑ رکھا تھا کہ ذاتی نیک عملی کی کوئی ضرورت نہیں ۔ نبیوں کی اولاد سے ہونا ہی آخرت کی نجات کے لئے کافی ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ الله تعالی اپنی عنایت سے باپ کی نیکیاں اولاد کی طرف منتقل کر دیتا ہے ۔ اس غلط عقیدہ کے سبب وہ لوگ نیکی سے بالکل لاپرواہ ہوچکے تھے ۔ اور ہر قسم کے گناہوں ، بدکاریوں اور نافرمانیوں میں مبتلا ہو گئے تھے ۔ 
قرآن مجید نے ان کے اس باطل عقیدے کی جڑ کاٹ دی ۔ اور بتایا کہ قانونِ الٰہی یہ ہے کہ ہر فرد اور جماعت کو وہی ملتا ہے جو اس نے خود کمایا ہے ۔ نہ تو کسی کی نیکی دوسرے کو پہنچتی ہے ۔ نہ کسی کی بدعملی کے لئے کوئی دوسرا جواب دہ ہوسکتا ہے ۔ اپنی ذاتی کوششوں کے بغیر صرف بزرگوں کی رشتہ داری سے کام نہیں چل سکتا اور نجات نہیں حاصل ہو سکتی ۔ 
اس میں ان لوگوں کے لئے بڑا سبق ہے جو اس غلط خیال میں پھنسے ہوئے ہیں کہ اگرچہ ہم نے خود نیک کام نہ کئے ہوں ہمارے بزرگوں کی نیکیاں ہی ہمارے کام آجائیں گی ۔ اور ہماری دنیا اور آخرت سنور جائے گی ۔ الله تعالی فرماتا ہے کہ بزرگوں کا نیکوکار ہونے سے تمہیں فائدہ نہیں ہو سکتا ۔ تم اپنی خبر لو اور ان کے نقشِ قدم پر چلو ۔ ان کی زندگیاں تمہارے لئےحسنِ عمل کا نمونہ ہیں ۔ ان کی پیروی سے تم اچھے اور نیک کام کر سکو گے ۔ 
ہم میں سے اگر کوئی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ خاندانی بزرگی یا محض کسی بزرگ کی نسبت کافی ہو سکتی ہے تو اسے یہ خیال دل سے نکال دینا چاہئیے ۔ الله جل جلالہ کے پاس صرف اپنے عمل کام دیں گے ۔ سب اپنے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے لئے جواب دہ ہوں گے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں