*اہلِ کتاب کی ہٹ دھرمی*

وَلَئِنْ ۔۔أَتَيْتَ ۔۔۔الَّذِينَ ۔۔۔ أُوتُوا ۔۔۔ الْكِتَابَ 
اور اگر ۔۔ آپ لائیں ۔۔ وہ لوگ ۔۔ جو دئیے گئے ۔۔کتاب 
بِكُلِّ ۔۔۔ آيَةٍ ۔۔۔ مَّا ۔۔۔  تَبِعُوا ۔۔۔ قِبْلَتَكَ 
ساری ۔۔ نشانیاں ۔۔ نہیں ۔۔ وہ پیروی کریں گے ۔۔۔ آپ کا قبلہ 
وَمَا ۔۔ أَنتَ ۔۔ بِتَابِعٍ ۔۔۔ قِبْلَتَهُمْ ۔۔۔ وَمَا
اور نہیں ۔۔ آپ ۔۔ پیروی کرنے والے ۔۔ اُن کا قبلہ ۔۔ اور نہیں 
 بَعْضُهُم ۔۔۔ بِتَابِعٍ ۔۔ قِبْلَةَ ۔۔۔ بَعْضٍ 
ان کے بعض ۔۔ پیروی کرنے والے ۔۔ قبلہ ۔۔ بعض 
وَلَئِنِ ۔۔۔ اتَّبَعْتَ ۔۔۔ أَهْوَاءَهُم ۔۔۔ مِّن بَعْدِ ۔۔۔ مَا 
اور اگر ۔۔ پیروی کی آپ نے ۔۔ ان کی خواہشات کی ۔۔ بعد اس کے ۔۔ جو 
جَاءَكَ ۔۔ مِنَ ۔۔ الْعِلْمِ 
آچکا آپ کے پاس ۔۔ سے ۔۔ علم 
إِنَّكَ ۔۔۔ إِذًا ۔۔۔  لَّمِنَ ۔۔۔ الظَّالِمِينَ۔  1️⃣4️⃣5️⃣
بے شک آپ ۔۔ اس وقت ۔۔ میں سے ۔۔ بے انصاف 

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم 
مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ. 1️⃣4️⃣5️⃣

اور اگر آپ اہل کتاب کے پاس لائے ساری نشانیاں تو بھی وہ آپ کے قبلہ کو نہ مانیں گے ۔ اور نہ آپ ان کا قبلہ ماننے والے ہیں اور نہ ان میں کوئی ایک دوسرے کا قبلہ تسلیم کرتا ہے ۔ اور اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی اس علم کے بعد جو آپ کو پہنچا تو بے شک آپ بھی بے انصافوں میں ہوئے ۔ 

اس آیت میں یہود کی ہٹ دھرمی اور ضد بیان کی گئی ہے ۔ الله تعالی فرماتا ہے کہ اے پیغمبر ! اگر آپ اہل کتاب کو اپنی پیغمبری کی ساری نشانیاں دکھا دیں ۔ خانہ کعبہ کے اصلی قبلہ ہونے کے سارے دلائل بیان کر دے وہ پھر بھی اسے قبلہ ماننے کو تیار نہیں ہوں گے ۔ 
بلکہ ضد ، حسد ، دشمنی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنے قدیم قبلہ پر ہی قائم رہیں گے ۔ اور چونکہ تمہیں ہم نے سب سے افضل اور ( حضرت ابراھیم علیہ السلام کا )  قبلہ عطا فرمایا ہے ۔ اس لئے تمہیں ان کے قبلہ کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اسرائیل کی امامت ختم ہوجانے کی وجہ سے آپ کو ایک مستقل ، اعلٰی اور عالمگیر قبلہ دیا گیا ہے ۔لہذا اہل کتاب اس چیز سے نا اُمید ہو جائیں کہ کبھی آپ ان کے قبلہ کو مانیں گے ۔ کیونکہ اب استقبالِ قبلہ کا حکم قیامت تک منسوخ نہیں ہو سکتا ۔ 
یہ بھی بتایا گیا کہ خود اہل کتاب ایک قبلہ کے پیرو نہیں ہیں ۔ یہودیوں کا قبلہ صخرۂ بیت المقدس ہے ۔ اور نصارٰی کا قبلہ بیت المقدس کی شرقی جانب ہے ۔ جہاں عیسٰی علیہ السلام کا نفخ روح ہوا تھا ۔ جب وہ  خود ایک قبلہ پر متفق نہیں تو وہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ تم ان کا قبلہ مانو گے ۔ 
آخر میں خود پیغمبر علیہ السلام کو تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر یہ جان لینے کے بعد کہ اصلی قبلہ خانہ کعبہ ہی ہے ۔ آپ نے اہل کتاب کا کہا مانا اور ان کے قبلے کو اختیار کر لیا تو آپ بھی بے انصافوں میں شامل ہوگے ۔ 
کیونکہ کوئی رسول کبھی کسی گناہ سے آلودہ نہیں ہوتا اور نبی سے یہ کام کسی طرح ممکن نہیں تو معلوم ہوگیا کہ آپ اہل کتاب کی ہرگز متابعت نہیں کریں گے کیونکہ یہ سراسر علم کے خلاف یعنی جہل اور گمراہی ہے ۔  
اس تنبیہ سے اُمّت کو یہ بتانا مقصود ہے کہ جھوٹے دین کی پیروی کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ حتی کہ اس میں بڑے سے بڑے آدمی کو بھی کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں