نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*صبر اور نماز*

يَا أَيُّهَا ۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔ اسْتَعِينُوا۔۔۔۔  بِالصَّبْرِ 
اے ۔۔ وہ لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔ مدد مانگو ۔۔ ساتھ صبر کے 
وَالصَّلَاةِ ۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ مَعَ ۔۔۔ الصَّابِرِينَ۔ 1️⃣5️⃣3️⃣
اور نماز ۔۔ بے شک ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ ساتھ ۔۔۔ صبر کرنے والے 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ.  1️⃣5️⃣3️⃣

اے ایمان والو۔ صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو  بے شک الله تعالی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے 

اِسْتَعِینُوْا ۔ ( مدد چاہو ) ۔ اس کا مصدر استعانت ہے ۔ اور مادہ۔ "عون " ہے  ۔ اس کے معنی مدد کے ہیں ۔ 
الله تعالی نے مسلمانوں کو ایک بہت بلند منصب بخشا  یعنی یہ کہ وہ دنیا سے شرک اور بُت پرستی دور کریں گے اور اس گوشہ گوشہ میں توحید کا پیغام پہنچائیں گے ۔اور دنیا کی اقوام کی ہدایت اور پیشوائی کا فریضہ انجام دیں گے ۔ اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے ضروری تھا کہ مسلمانوں میں اعلی اوصاف اور اخلاق حسنہ پیدا کئے جائیں ۔ 
ان میں سے تین کا ذکر ہو چکا ۔ یعنی یہ کہ 
مسلمان الله کی اطاعت و عبادت میں سرگرم رہیں 
اس کی دی ہوئی قوتوں کو صحیح مواقع پر اس کے حکم کے مطابق استعمال کریں 
اس کی نعمتوں کی ناشکری اور نا قدری نہ کریں 
اب یہاں الله تعالی کی مدد حاصل کرنے کے دو طریقے ارشاد فرمائے ہیں 
اوّل یہ کہ ۔۔۔ مشکلات اور مصیبتوں پر صبر کرو 
دوم یہ کہ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے رہو 
ہر مقصد کے حصول میں تکلیفوں اور مصیبتوں کا پیش آنا لازمی ہے ۔ اس لئے مصیبتوں اور رکاوٹوں کی بنا پر اپنے نصب العین کو نہ چھوڑنا۔ صبر ہے 
صبر ۔۔۔ برداشت اور مقابلے کی طاقت
 تنگی اور نا خوشگواری کی حالت میں اپنے آپ کو گھبراہٹ سے روکنا 
 مشکلات اور تکالیف کا ہمت اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرنا 
نفسانی خواہشات کو عقل پر غالب نہ آنے دینا 
نماز کی حقیقت یہ ہے ۔ کہ الله جل شانہ کے ذکر و فکر سے روح کو قوت ملتی ہے 
جس جماعت میں یہ دو قوتیں پیدا ہو جاتی ہیں وہ کبھی ناکام نہیں رہ سکتی 
اس کے بعد یہ فرمایا ۔ جو لوگ اس مقصد کی تکمیل میں پیش آنے والی مشکلات پر صبر کریں گے ۔ انہیں الله تعالی کی خاص معیت اور رفاقت نصیب ہو گی ۔ اور ظاہر ہے جس فرد یا جماعت کے ساتھ الله تعالی خود ہو وہ کبھی اپنے مقصد میں ناکام نہیں ہو سکتی ۔ ہمیں اپنے اندر یہ صفتیں پیدا کر لینی چاہئیں ۔ اور دعوت و تبلیغ میں سرگرم ہو جانا چاہئیے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...