نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*الله کافی ہے*

فَإِنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِمِثْلِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔آمَنتُم 
پس اگر ۔۔۔ وہ ایمان لائیں ۔۔۔ جس طرح ۔۔۔ جو ۔۔ ایمان لائے تم 
بِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔   فَقَدِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اهْتَدَوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔۔ وَّإِن ۔۔۔۔۔۔   تَوَلَّوْا
اس پر ۔۔۔ پس تحقیق ۔۔۔ ہدایت پائی انہوں نے ۔۔۔ اور اگر ۔۔ وہ پھر گئے 
 فَإِنَّمَا ۔۔۔۔۔۔۔    هُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ شِقَاقٍ 
پس بے شک ۔۔۔ وہ ۔۔ میں ۔۔۔ ضد 
فَ ۔۔۔۔۔۔۔   سَيَكْفِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  كَ ۔۔۔  هُمُ 
پس ۔۔۔ عنقریب وہ کافی ہے ۔۔ آپ ۔۔ وہ 
اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     وَهُوَ ۔۔ السَّمِيعُ ۔۔۔۔الْعَلِيمُ۔ 1️⃣3️⃣7️⃣
الله تعالی ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ سننے والا ۔۔۔ جاننے والا 

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ 
فَسَيَكْفِیكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.  1️⃣3️⃣7️⃣

پس اگر وہ بھی اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے تو انہوں نے بھی ھدایت پائی  اور اگر پھر جائیں تو وہی ضد پر ہیں پس عنقریب ان کے مقابلے میں آپ کے لئے الله تعالی کافی ہے اور وہی سننے والا جاننے والا ہے ۔ 

قرآن مجید نے اپنی صداقت اور اپنے کلامِ الٰہی ہونے  کا ثبوت دے کر اہل کتاب کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ ان کے باطل عقیدوں کی تردید کی ۔ غلط آرزؤں کو بیہودہ قرار دیا ۔ اور انہی کے دلائل سے ثابت کر دیا کہ جس دینِ ابراھیمی پر قائم ہونے کا وہ دعوٰی کرتے ہیں اس کی اصل شکل ان کے پاس باقی نہیں رہی ۔اب اس قدیم دین کی اصلی شکل قرآن مجید پیش کر رہا ہے ۔ اس لئے انہیں ہر صورت اسلام قبول کرکے دین و دنیا کی فلاح حاصل کرنی چاہئیے ۔ 
 وعظ ونصیحت کی یہ تمام باتیں سُن کر بھی یہود و نصارٰی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر قائم رہے ۔ بلکہ خود اسلام قبول کرنے کی بجائے اُلٹا  مسلمانوں کو دعوت دیتے رہے کہ وہ یہودیت اور عیسائیت اختیار کر لیں ۔ اس سے زیادہ ڈھٹائی ، تعصب اور خود غرضی کیا ہو سکتی ہے ۔ 
اس آیت میں الله تعالی فرماتا ہے ۔ اے پیغمبر ( صلی الله علیہ وسلم ) ۔ آپ نے ہمارا پیغام پہنچا کر اپنا فرض پورا کر دیا ۔ اب اگر یہ لوگ اپنا بھلا چاہتے ہیں تو اسلام  قبول کر لیں ۔ کامیاب ہو جائیں گے ہم ان کے پچھلے گناہ معاف کر دیں گے ۔ لیکن اگر یہ سب کہنے سننے کے بعد بھی اس سے منہ پھیریں  تو پھر یہ ان کی سخت دلی اور ہٹ دھرمی ہے ۔ اور کچھ نہیں ۔ اے پیغمبر ان لوگوں کی اس ضد اور دشمنی و تعصب کی آپ کچھ فکر نہ کریں ۔ان سے نبٹنے کے لئے آپ کی طرف سے ہم کافی ہیں ۔ ہم یقینا ان کی سب باتیں سنتے ہیں ۔ اور ان کے دلوں کے احوال اور ظاہر و باطن سب جانتے ہیں ۔
آیت کے آخری حصہ میں جناب ِ رسول مقبول صلی الله علیہ وسلم اور آپ کی اُمّت کو کسقدر اعلٰی بشارت ہے کہ تمہارے لئے الله کافی ہے ۔ بھلا جس کا الله ہو جائے اسے اور کس کی ضرورت رہ جاتی ہے ۔ وہ مولا کریم جس کا دستگیر ہو جائے اسے کسی غیر کا سہارا درکار نہیں ۔۔۔ 
حسْبُناَ اللهُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلَ ۔۔۔ کافی ہے ہم کو الله تعالی اور بہترین ہے وہ کارساز 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...