نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*دینِ ابراھیمی*

وَمَن ۔۔ يَرْغَبُ عَن ۔۔۔۔ ۔۔۔ مِّلَّةِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔إِبْرَاهِيمَ 
اور کون ۔۔۔ بے رغبت ہوتا ہے ۔۔۔ مذہب ۔۔۔ ابراھیم علیہ السلام 
إِلَّا ۔۔۔۔۔۔ مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ سَفِهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نَفْسَهُ 
مگر ۔۔۔ وہ شخص ۔۔۔ بے وقوف بنایا ۔۔  اپنے نفس کو 
وَلَقَدِ ۔۔۔۔۔۔  اصْطَفَيْنَاهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فِي الدُّنْيَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَإِنَّهُ 
اور البتہ تحقیق ۔۔ چُن لیا ہم نے اس کو ۔۔ دنیا میں ۔۔۔ اور بے شک وہ 
فِي ۔۔۔ الْآخِرَةِ ۔۔۔ لَمِنَ ۔۔۔الصَّالِحِينَ۔ 1️⃣3️⃣0️⃣
میں ۔۔۔ آخرت ۔۔۔ البتہ ہے ۔۔۔ نیکو کار 

وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَن سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ.   1️⃣3️⃣0️⃣

اور کون ہے جو ابراھیم علیہ السلام کے مذہب سے پھرے سوائے اس کے جس نے اپنے آپ کو احمق بنایا  اور بے شک ہم نے اسے دنیا میں منتخب کیا اور آخرت میں وہ نیکوکاروں سے ہے ۔ 

یَرْغَبُ عَنْ ۔ ( پھرے ) لفظ رغبت سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ہیں مائل اور متوجہ ہونا ۔ جب اس کے ساتھ عَن  آئے تو معنی اُلٹ ہو جاتے ہیں ۔ یعنی کسی کے خلاف جانا یا منہ پھیر لینا ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے بیان فرمایا ہے کہ ملّتِ ابراھیم کی بنیاد عین دینِ فطرت پر ہے ۔ اس کی تعلیمات نیک طبیعتوں کی ترجمانی کرتی ہیں ۔ اس سے تو وہی شخص منہ موڑ سکتا ہے جس کی فطرت ہی سلیم نہ رہی ہو ۔اور مسخ ہو چکی ہو ۔ 
ملّتِ ابراھیمی وہی دینِ توحید ہے جس کی دعوت آج صرف اسلام دے رہا ہے ۔ یہاں دینِ اسلام کو ملّتِ ابراھیم کا نام اس لئے دیا گیا کہ مخاطب یہاں یہودو نصارٰی ہیں ۔ اور انہیں بتانا مقصود ہے کہ قرآن مجید تمہیں کسی نئے دین کی دعوت نہیں دیتا تمہارے ہی بزرگ اور پیشوا حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دین کی طرف تمہیں بلا رہا ہے ۔
یہود و نصارٰی نے اپنے معصوم نبیوں کے بارے میں جھوٹے اور بیہودہ قصے گھڑنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی تھی ۔ اُن کے الزامات کو الله تعالی قرآن مجید میں غلط قرار دیتا ہے۔ اور جہاں جہاں انبیاء علیھم السلام کا ذکر آتا ہے ۔ان کی اخلاقی اور روحانی عظمت کو بھی بیان کرتا ہے ۔ 
ابراھیم علیہ السلام کے بارے میں بتایا گیا کہ الله تعالی نے انہیں ان کی توحید پرستی اور ایمان بالله کے صلہ میں دُنیا میں ہر قسم کی نعمتوں اور سرفرازیوں کے لئے چُن لیا تھا ۔ اور انہیں منصبِ نبوت اور رسالت عطا کیا تھا ۔ انہیں دنیا میں لوگوں کا مذھبی اور روحانی پیشوا مقرر فرمایا ۔ اور آخرت میں وہ یقینا نیک اور صالح لوگوں میں شمار ہوں گے ۔ 
حضرت ابراھیم علیہ السلام کی بزرگی اور عظمت یہاں بیان کرنے سے الله تعالی کا مقصود یہ ہے کہ یہود و نصارٰی کو بتایا جائے کہ جس جلیل القدر پیغمبر کو وہ اپنا پیشوا مانتے ہیں ان کا دین یہی تھا ۔ جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم پیش کر رہے ہیں ۔ اگر وہ اُن کو اپنا مذہبی راہنما مانتے ہیں تو انہیں چاہئیے وہ اسلام قبول کر لیں ۔ یہی ان کے باپ دادا کی راہ ہے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...