نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الله کا رنگ. سورۃ بقرہ ۔ آیت : 138,139

الله کا رنگ 

صِبْغَةَ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔  وَمَنْ ۔۔۔ أَحْسَنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مِنَ 
رنگ ۔۔ الله تعالی ۔۔ اورکون ۔۔۔ زیادہ اچھا ہے ۔۔ سے 
اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔   صِبْغَةً ۔۔۔ وَنَحْنُ ۔۔۔ لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   عَابِدُونَ۔ 1️⃣3️⃣8️⃣
الله تعالی ۔۔۔ رنگ ۔۔ اور ہم ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔  عبادت گزار ہیں 

قُلْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَتُحَاجُّونَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهِ 
فرما دیجئے  ۔۔۔ کیا تم جھگڑا کرتے ہوں ہم سے ۔۔۔ میں ۔۔۔ الله تعالی 
وَهُوَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   رَبُّنَا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وَرَبُّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وَلَنَا 
اور وہ ۔۔۔ ہمارا رب ۔۔۔ اور تمہارا رب ۔۔ اور ہمارے لئے 
أَعْمَالُنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔      وَلَكُمْ ۔۔۔۔۔۔ ۔ أَعْمَالُكُمْ 
ہمارے اعمال ۔۔۔ اور تمہارے لئے ۔۔۔ تمہارے اعمال 
وَنَحْنُ ۔۔   لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    مُخْلِصُونَ. 1️⃣3️⃣9️⃣
اور ہم ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ خالص 

صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ.  1️⃣3️⃣8️⃣

ہم نے الله تعالی کا رنگ قبول کر لیا  اور کس کا رنگ بہتر ہے الله تعالی کے رنگ سے اور ہم اس کی ہی بندگی کرتے ہیں ۔

قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ.   1️⃣3️⃣9️⃣

فرما دیجئے کیا تم ہم سے جھگڑا کرتے ہو الله تعالی کے بارے میں حالانکہ وہی ہمارا اور تمہارا رب ہے ۔ اور ہمارے لئے ہمارے عمل ہیں اور تمہارے لئے تمہارے عمل اور ہم تو خالص اسی کے لئے ہیں ۔ 

صِبْغَۃَ اللهِ ۔ ( الله کا رنگ ) ۔ مراد ہے الله تعالی کا دین ۔ محاورہ کے اعتبار سے یہاں ایک لفظ مخذوف ہے ۔ یعنی قَبِلْنَا ۔ ( ہم نے قبول کیا ) ۔اس طرح پورے جملے کے معنی یہ ہوں گے ۔ ہم نے الله تعالی کا رنگ یعنی الله تعالی کا دین قبول کیا ۔
اہل کتاب یہودی اور عیسائی ان آیتوں سے پھر گئے اور شیخی میں آکر یہ کہنے لگے کہ ہمارے یہاں ایک رنگ ہے جو مسلمانوں کے ہاس نہیں ۔ وہ  اپنے بچوں کو رنگدار پانی میں بٹھا تے اور کوئی مسیح کا دین قبول کرے تو اس پر رنگین پانی چھڑکتے ۔  اسے اصطباغ  یعنی بپتسمہ  کہتے ہیں ۔اسی طرح نصرانیوں نے ایک زرد رنگ بنا رکھا ہے ۔ جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا یا کوئی ان کے دین میں آتا تو اُس کو اُس رنگ میں غوطہ دے کر کہتے کہ خالص پاکیزہ  نصرانی ہو گیا ہے ۔ گویا ان کے نزدیک مذہب کا رنگ پانی سے چڑھتا ہے ۔حالانکہ اصل رنگ وہ ہے جو ایمان اور کردار سے پیدا ہو ۔ 
اس کے مقابلے میں ارشاد ہوتا ہے کہ ہم نے الله جل جلالہ کا رنگ قبول کیا ۔ کہ اس دین میں آکر انسان ہر طرح کی ناپاکی سے پاک ہوتا ہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں الله تعالی کا نام  پہنچا دیا کرو ۔ چنانچہ پیدا ہوتے ہی بچے کے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں تکبیر کہی جاتی ہے ۔یہ اس کو دینِ فطرت کی طرف بلاوا ہے ۔ 
اہلِ کتاب کو پھر کہا جاتا ہے کہ الله تعالی کے بارے میں تمہارا یہ خیال اور عقیدہ جس کی بنیاد محض  کَٹ حجتی ہے کہ الله کی عنایت و رحمت صرف تمہارے لئے خاص ہے سراسر غلط ہے ۔ وہ جیسا تمہارا ربّ ہے ۔ ویسا ہی ہمارا بھی ربّ ہے ۔اور ہم جو اعمال کرتے ہیں خالص اسی کے لئے کرتے ہیں ۔ تمہاری طرح ہم اپنے بزرگوں کی نیکیوں کواپنے لئے کافی سمجھ کر خود بدعملی اور گناہ کی زندگی بسر نہیں کرتے ۔ بلکہ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنے اعمال کو درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور نہ ہی تعصب اور نفسانیت سے کام لیتے ہیں ۔پھر کیا وجہ ہے کہ الله تعالی تمہارے اعمال قبول کر لے اور ہمارے اعمال  اس کی بارگاہ میں مقبول نہ ہوں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
تفسیر عثمانی 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...