نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*حضرت یعقوب علیہ السلام کی وصیت*

أَمْ ۔۔۔كُنتُمْ ۔۔۔شُهَدَاءَ ۔۔۔ إِذْ ۔۔حَضَرَ 
کیا ۔۔ تھے تم ۔۔۔ جب ۔۔۔   حاضر ہوئی 
يَعْقُوبَ ۔۔۔ الْمَوْتُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِذْ قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ لِبَنِيهِ 
یعقوب علیہ السلام ۔۔۔ موت ۔۔ جب کہا اس نے ۔۔ اپنے بیٹوں سے 
مَا ۔۔۔ تَعْبُدُونَ ۔۔۔۔۔ ۔۔ مِن بَعْدِي ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ قَالُوا 
کس کی ۔۔ تم عبادت کرو گے ۔۔ میرے بعد ۔۔۔ کہا انہوں نے 
 نَعْبُدُ ۔۔۔۔۔۔ ۔ إِلَهَكَ ۔۔۔ وَإِلَهَ ۔۔۔۔۔۔ ۔ آبَائِكَ 
ہم عبادت کریں گے ۔۔۔ تیرا معبود ۔۔ اور معبود ۔۔۔ تیرا باپ 
إِبْرَاهِيمَ ۔۔ وَإِسْمَاعِيلَ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وَإِسْحَاقَ ۔۔۔ ۔إِلَهًا
ابراھیم ۔۔۔ اسماعیل ۔۔۔ اور اسحاق علیھم السلام ۔۔۔ معبود 
وَاحِدًا ۔۔۔ وَنَحْنُ ۔۔۔ لَهُ ۔۔۔مُسْلِمُونَ۔  1️⃣3️⃣3️⃣
ایک ۔۔۔ اور ہم ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ فرمانبردار 

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَإِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.  1️⃣3️⃣3️⃣

کیا تم موجود تھے جس وقت موت یعقوب علیہ السلام کے قریب آئی  جب اس نے اپنے بیٹوں سے کہا تم میرت بعد کس کی عبادت کرو گے  انہوں نے کہا ہم تیرے اور تیرے باپ دادا ابراھیم ، اسماعیل اور اسحاق علیھم السلا م کے رب کی بندگی کریں گے وہی ایک معبود ہے ۔ اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں ۔ 

حضَرَ الْمَوْت ۔ ( موت قریب آئی ) ۔ یعنی موت کا وقت قریب آیا اور آپ کو اس کے آثار نظر آنے لگے ۔ 
اِسْحاقَ ۔ ( اسحاق علیہ السلام ) ۔ آپ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دوسرے صاحبزادےاور اسماعیل علیہ السلام کے چھوٹے بھائی تھے ۔ان کی والدہ حضرت ابراھیم علیہ وسلم کی پہلی بیوی حضرت سارہ علیھا السلام تھیں ۔ 
اس آیت میں یہودیوں کو خطاب کیا گیا ہے کہ تم جو اپنی طرف سے من گھڑت باتیں اپنے بزرگوں کے نام منسوب کرتے ہو اور اسلام قبول کرنے سے انکار کرتے ہو ۔ کیا تم اُس وقت موجود تھے جب یعقوب علیہ السلام نے مرنے سے پہلے اپنے بیٹوں سے معبود کے بارے میں سوال کیا تھا ۔اور انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہم اسی معبود کی پرستش کریں گے جس کی پرستش آپ کے دادا حضرت ابراھیم علیہ السلام اور آپ کے چچا حضرت اسماعیل علیہ السلام اور آپ کے والد حضرت اسحاق علیہ السلام کرتے آئے ہیں ۔ 
آج جب رسول الله صلی الله علیہ وسلماور الله کی کتاب قرآن مجید دوبارہ اہل کتاب کو اسی دین کی طرف بلا رہے ہیں ۔ تو وہ اس سے منہ موڑ رہے ہیں ۔ اور گمراہیوں میں بھٹک رہے ہیں ۔ 
وہ دین جسے ابراھیم علیہ السلام نے اختیار کیا تھا اور جس کی دعوت نبی آخرالزماں صلی الله علیہ وسلم دے رہے ہیں ۔ وہ یہی الله وحدہ لا شریک کی عبادت اور نیک عملی ہے ۔ جو فرد یا قوم بھی ان دو بنیادی اصولوں سے روگردانی کرے گی وہ دینِ ابراھیمی سے دور جا پڑے گی ۔ اور ھدایت سے محروم ہو جائے گی ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...