نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*ہدایت و اصلاح کے دو سلسلے ۔ کتاب الله اور رجال الله*

الله تبارک و تعالی نے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے ہمیشہ ہر زمانے میں دو سلسلے جاری رکھے ۔ ایک تو آسمانی کتابوں کا دوسرا ان کتابوں کی تعلیم دینے کے لئے رسولوں کا ۔ جس طرح صرف کتاب نازل کرنے کو کافی نہیں سمجھا اسی طرح صرف رسول بھیجنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ دونوں سلسلے برابر جاری رکھے ۔ اور علم کا ایک بڑا دروازہ کھول دیا کہ انسان کی صحیح تعلیم و تربیت کے لئے نہ تو صرف کتاب کافی ہے اور نہ ہی صرف انسان ۔ 
چنانچہ ایک طرف تو آسمانی ھدایات اور قوانین الہی کی ضرورت ہے تو دوسری طرف ایک مربّی اور معلم رہنماء کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ انسان کا اصل معلم و استاد ایک انسان ہی ہو سکتا ہے کوئی کتاب نہیں ۔ البتہ کتاب تعلیم و تربیت میں مددگار ضرور ہو سکتی ہے ۔ 
پورے قرآن مجید کا خلاصہ سورۃ فاتحہ ہے اور سورۃ فاتحہ کا خلاصہ صراطِ مستقیم کی ہدایت ہے اور صراط مستقیم کا پتہ دینے کے لئے بجائے اس کے کہ صراط القرآن  یا صراط الرسول ۔۔۔ یا صراط السنّہ فرما دیا جاتا کچھ ھدایت یافتہ انسانوں کا پتہ بتا دیا گیا کہ اُن سے صراط مستقیم کی راہنمائی لی جائے ۔ 
ارشاد باری تعالی ہے ۔ 

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ
ان لوگوں کے راستے جن پر تو اپنا فضل و کرم کرتا رہا نہ ان کے جن پر غصے ہوتا رہا اور نہ گمراہوں کے۔ 
اٰمین۔۔۔ فاتحہ ۔۷
دوسری جگہ ان کی وضاحت اور تشریح فرمائی جن پر الله تعالی کا انعام ہے ۔

وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہ قیامت کے روز ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور صالحین اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے۔
نساء ۔۔۶۹
اسی طرح رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے بعد کے لئے کچھ حضرات کے نام لے کر دینی معاملات میں ان کی پیروی کرنے کی ھدایت فرمائی ۔ 
یَاَیُّھَا النّاسُ اِنِّی تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمَرَیْنِ مَا اِنْ اَخَذْتُمْ بِہِ لَنْ تَضِلُّوْا  کِتَابُ اللهِ وَ عِتْرَتِیْ اَھْلِ بَیْتِیْ 

اے لوگو ! میں تمہارے لئے اپنے بعد دو چیزیں چھوڑتا ہوں ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رکھنا تو تم گمراہ نہ ہو گے ۔ ایک کتاب الله اور دوسری میری اولاد اور اہلِ بیت ۔
ترمذی 
اور صحیح بخاری کی حدیث میں ہے 
۔اِقْتَدُوْا مِنْ بَعْدِیْ  اَبِیْ بَکْرٍ و عُمر۔ 
یعنی میرے بعد ابو بکر اور عمر کا اقتداء کرو 
اور ایک اور جگہ فرمایا ۔ 
عَلَیْکُمْ  بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ خُلَفَآءِ الرّاشِدِیْنَ 
میرے طریقہ کو اختیار کرو ، اور خلفائے راشدین کے طریقے کو 

یہ اصول تعلیم و  تربیت صرف دین اور اسلام ہی کے لئے مخصوص نہیں بلکہ تمام علوم و فنون کی صحیح تحصیل اسی بنیاد پر ہے کہ ایک طرف ہر فن کی بہترین کتا بیں ہوں تو دوسری طرف ماہرین کی تعلیم و تر بیت ۔ تمام علوم  و فنون خواہ وہ دنیا کے ہوں یا دین کے ان  کی ترقی اور تکمیل کے یہی دو بازو ہیں ۔
 لیکن دین کے معاملے میں لوگ افراط و تفریط میں پڑ جاتے ہیں جس کا نتیجہ  بجائے فائدہ اور اصلاح کے نقصان ہوتا ہے ۔ 
کچھ لوگ کتاب الله کو چھوڑ کر صرف علماء و مشائخ ہی کو اپنا مقصود بنا لیتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے وقت ان کے شریعت پر قائم ہونے کی تحقیق نہیں کرتے ۔ یہ اصلی مرض و خرابی یہود و نصاری کی ہے کہ 

اِتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَّا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
 توبہ ۔۳۱ 
انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا حالانکہ انکو یہ حکم دیا گیا تھا کہ معبود واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اسکے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔
یہی کفر و شرک کا راستہ ہے ۔ اور لاکھوں انسان اس راستے پر چل کر برباد ہوئے اور ہو رہے ہیں ۔ 
اس کے مقابلے میں بعض وہ لوگ بھی ہیں وہ کہتے ہیں ہمیں صرف الله تعالی کی کتاب کافی ہے ۔ نہ ماہر علماء کی ضرورت نہ تربیت یافتہ مشائخ کی حاجت  یہ دوسری گمراہی ہے ۔ جس کا نتیجہ دین و ملت سے نکل کر نفسانی اغراض کا شکار ہونا ہے ۔ کیونکہ ماہرین کی امداد و تربیت کے بغیر کسی فن کا حاصل ہو جانا انسانی فطرت کے خلاف ہے ۔ ایسا کرنے والا یقینا ً غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اور یہ غلط فہمی بعض اوقات اُس کو دین و ملت سے باہر نکال دیتی ہے ۔ 
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان دو چیزوں کو اپنے اپنے مقامات اور حدود میں رکھ کر ان سے فائدہ اُٹھایا جائے ۔ یہ سمجھا جائے کہ حکم اصلی صرف ایک۔ " وحدہ لا شریک لہ " کا ہے اور اطاعت اصل میں اسی کی ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم  بھی اس پر عمل کرنے اور کرانے کا ایک ذریعہ ہیں ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت بھی صرف اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ حقیقت میں الله جل شانہ کی اطاعت ہے ۔ 
ہاں اس کے ساتھ قرآن و حدیث کے سمجھنے میں جو علمی یا عملی مشکلات سامنے آئیں اس کے لئے ماہرین کے قول و فعل سے مدد لینے کو سرمایۂ افتخار و نجات سمجھنا چاہئیے ۔
قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم ضروری ہے اور اس کے بغیر قرآن مجید پر صحیح عمل کرنا ممکن نہیں تو جس طرح قرآن مجید قیامت تک محفوظ ہے ضروری ہے کہ تعلیماتِ رسول صلی الله علیہ وسلم بھی مجموعی حیثیت سے قیامت تک باقی اور محفوظ رہتیں ۔ ورنہ صرف الفاظِ قرآن کے محفوظ رہنے سے نزولِ قرآن کا اصل مقصد پورا نہ ہو گا ۔اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ تعلیماتِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم وہی ہیں جن کو "سنت"یا " حدیثِ رسول " صلی الله علیہ وسلم کہا جاتا ہے ۔
جس طرح قرآن مجید کے ہر لفظ زیر ، زبر کو محفوظ رکھنے کا وعدہ الله تعالی کا ہے کہ وہ قیامت تک محفوظ رہیں گے اور محفوظ ہیں اسی طرح 
سنت رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کا محفوظ رہنا بھی قرآن کی تعلیمات کے محفوظ رہنے کی رُو سے ضروری ہے ۔اور بحمد لله آج تک محفوظ چلی آرہی ہیں ۔ جب کسی طرف سے اس میں رخنہ اندازی یا غلط روایات کی آمیزش کی گئی ماہرینِ سنت نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ نکھار کر رکھ دیا ۔ اور قیامت تک یہ سلسلہ بھی یونہی رہے گا ۔ 
خلاصہ یہ کہ جب قرآن مجید پر عمل کرنے کے لئے تعلیمات رسول صلی الله علیہ وسلم ضروری ہیں اور یہ بھی معلوم ہے کہ قرآن مجید پر عمل کرنا قیامت تک فرض اور ضروری ہے تو یہ یقین لازم ہے کہ تعلیماتِ رسول صلی الله علیہ وسلم بھی باقی اور محفوظ و موجود ہیں 
اس سے اس جھوٹ اور الحاد کی حقیقت کُھل جاتی ہے جو آج کل لوگوں نے احکامِ اسلام سے جان بچانے کے لئے یہ بہانہ تراشا ہے کہ موجودہ ذخیرہ حدیث محفوظ اور قابلِ اطمینان نہیں ۔ ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ آحادیث سے اعتماد اُٹھ جائے تو قرآن پر بھی اعتماد کا کوئی راستہ نہیں رہتا ۔   

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...