*خانہ کعبہ کی اہمیت*

وَإِذْ ۔۔ جَعَلْنَا ۔۔۔ الْبَيْتَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔ مَثَابَةً 
اور جب ۔۔ ہم نے بنایا ۔۔ گھر ۔۔ اکٹھے ہونے کی جگہ 
لِّلنَّاسِ ۔۔۔ وَأَمْنًا ۔۔۔ ۔۔۔ وَاتَّخِذُوا ۔۔۔۔ ۔۔ مِن 
لوگوں کے لئے ۔۔۔ اورامن کی جگہ ۔۔۔ اور تم پکڑو ۔۔ سے 
مَّقَامِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِبْرَاهِيمَ ۔۔۔۔۔۔ مُصَلًّى
کھڑے ہونے کی جگہ ۔۔۔ ابراھیم علیہ السلام ۔۔۔ نماز کی جگہ 

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى

اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو مقرر کیا لوگوں کے واسطے اجتماع کی جگہ اور امن کی جگہ اور ( کہہ دیا کہ ) ابراھیم علیہ السلام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ بناؤ ۔

اَلْبَیْتَ ۔ ( خانہ کعبہ ) ۔بیت کے لفظی معنیٰ گھر کے ہیں ۔اَلْبَیْت سے مراد خاص الله تعالی کا گھر  "البیت الله الحرام "  ہے ۔
یہ عمارت مکہ معظمہ میں ہے ۔ یہ روئے زمین پر الله تعالی کی عبادت کا مکان ہے ۔ اور قرآن مجید میں اس کے قدیم اور سب سے پہلی عبادت گاہ ہونے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اس مرکزِقدیم کو قرآن مجید میں  اَوّلَ بَیْتٍ۔ کہا گیا ہے ۔ اسے خانہ کعبہ ، بیت الله ، اور قبلہ بھی کہتے ہیں ۔ 
مَثَابَةً ۔ ( اجتماع کی جگہ ) ۔ یہ لفظ ثوبٌ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی کسی چیز کا اصلی حالت کی طرف لَوٹنا ۔ اس لئے مَثَابة کے معنی ہوئے وہ مقام جس کی طرف انسان بار بار لَوٹ کر جائے ۔ اور اس کا جی نہ بھرے ۔البیت الحرام کی یہ خاص صفت ہے کہ لوگ بار بار حج کرتے ہیں اور اس سے اکتاتے نہیں ۔ 
لِلنَّاسِ ۔  ( لوگوں کے لئے ) ۔  عام لوگ مراد ہیں۔ جو زیارت کے لئے آئیں ۔ خانہ کعبہ کے گرد  ، دنیا کے ہر خطہ ہر علاقہ اور ہر ملک کے لوگ ہر سال حج اور عمرہ و زیارت کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔ 
اَمْنًا ۔ ( امن کی جگہ ) ۔ کعبہ کی عمارت اور اس کے اردگرد کا تمام علاقہ جو حرم میں داخل ہے اس میں خونریزی یا جانوروں کا شکار قطعاً منع ہے ۔قبل ِ اسلام بھی قاتل اور مجرم بچنے کے لئے خانہ کعبہ کی دیواروں کے درمیان آکر پناہ لیتے تھے 
مُقَامِ اِبْرَاھِیْمَ ۔ ( ابراھیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ) ۔ مراد وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراھیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے تھے ۔ یہ پتھر خانہ کعبہ سے تھوڑے فاصلے پر ایک حجرہ میں محفوظ ہے ۔ حج اور عمرہ کے موقع پر طواف کے بعد اس حجرہ کے سامنے دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے ۔ اس کا بہت ثواب ہے ۔ 
مُصَلّیٰ ۔ ( نماز پڑھنے کی جگہ ) ۔ اردو میں ہم مصلیٰ اس کپڑے یا چٹائی وغیرہ کو کہتے ہیں جس پر کھڑے ہو کر نماز پڑھی جاتی ہے عربی میں ہر اس جگہ کو مصلیٰ کہا جاتا ہے جہاں نماز ادا کی جاتی ہو ۔ 

*امامت کی وراثت*

قَالَ ۔۔۔ وَمِن ۔۔۔  ذُرِّيَّتِي ۔۔۔۔۔۔ ۔ قَالَ 
اس نے کہا ۔۔ اور سے ۔۔ اس نے کہا 
لَا يَنَالُ ۔۔۔عَهْدِي ۔۔۔الظَّالِمِينَ۔ 1️⃣2️⃣4️⃣
نہیں پہنچتا ۔۔۔ میرا عھد ۔۔۔۔۔ ظالم 

قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ.   1️⃣2️⃣4️⃣

اس  ( ابراھیم علیہ السلام ) نے کہا میری اولاد میں سے بھی اس ( الله تعالی ) )  نے فرمایا میرا اقرار ظالموں کو نہیں پہنچتا ۔ 

ذُرِّیَّتِیْ ۔ ( میری اولاد ) ۔  اس لفظ ذُرّیَّةٌ  کا مفہوم بہت وسیع ہے ۔ یعنی اس میں اولاد اور اس کی اولاد اور اس کی اولاد کی اولاد بھی شامل ہے ۔ 
حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت اسحاق علیہ السلام ۔ ان دونوں کی نسل آپ کی ذریة ہوئی ۔ الله تعالی نے اس خاندان کو بڑی برکت دی ۔ان میں بے شمار نبی اور رسول پیدا ہوئے ۔ 
یہودیوں کو اپنی نسلی برتری کا بڑا گھمنڈ تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ ہم حضرت ابراھیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں ۔ اور تورات میں لکھا ہے کہا خدا نے اس نسل کو برکت اور فضیلت دی ۔اس آیة نے واضح کر دیا کہ اول تو اس فخر و امتیاز اور نسلی برتری میں بنو اسماعیل بھی شامل ہیں ۔ دوسرا یہ کہ الله جل شانہ کا وعدہ صرف نیک کرداروں کے لئے تھا نہ کہ بد کرداروں کے لئے ۔ جن لوگوں نے ایمان و عمل کی سعادت کھو دی ان کے لئے نسل کا شرف کچھ بھی باعث امتیاز نہیں ۔ 
گذشتہ امتوں کے راہِ  حق سے ہٹ جانے کے بعد الله تعالی  منصب امامت کے لئے امتِ محمدیہ کی بنیاد رکھ رہا ہے ۔اس لئے ضروری تھا کہ دعوتِ قرآن کے ظہور کی معنوی تاریخ بیان کر دی جائے ۔
الله تعالی نے اپنے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراھیم علیہ السلام کا کئی طریقوں سے امتحان لیا ۔ انہیں آزمائش میں ڈالا ۔ بعض مصائب میں مبتلا کیا ۔ لیکن وہ سب میں کامیاب نکلے ۔ اور صبر و استقلال کو ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔ اس کامیابی کے صلے میں الله تعالی نے انہیں لوگوں کی ہدایت کے لئے پیشوا اور امام بنا دیا ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام نے الله تعالی سے سے دُعا کی کہ یہ امامت اور پیشوائی کا منصب ان کی اولاد کو بھی عطا ہو ۔ 
الله جل شانہ فرماتا ہے میرا یہ وعدہ ظالموں کے لئے نہیں ہوگا ۔ یعنی آپ کی نسل کو یہ منصب ضرور ملے گا لیکن صرف اس صورت میں جبکہ وہ لوگ ظالم نہ ہوں ۔ اور اگر انہوں نے نافرمانی اور سرکشی کی راہ اختیار کر لی تو پھر یہ منصب ان سے چھین لیا جائے گا ۔
ایک لمبے عرصے تک امامت و قیادت حضرت ابراھیم علیہ السلام کی نسل کے اندر حضرت یعقوب علیہ السلام ( بنی اسرائیل ) میں رہی ۔جب وہ گمراہ ہو گئے ۔ انہوں نے امامت کا حق ادا نہ کیا تو ان سے یہ امامت چھن کر حضرت ابراھیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے سپرد ہو گئی ۔اب یہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے اہل ثابت کریں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

*حضرت ابراھیم علیہ السلام کی قیادت و امامت*

وَإِذِ ۔۔۔۔ ابْتَلَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِبْرَاهِيمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رَبُّهُ 
اور جب ۔۔ آزمایا ۔۔۔  ابراھیم علیہ السلام ۔۔ اس کا رب 
بِكَلِمَاتٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَأَتَمَّهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَالَ 
کئی باتوں میں ۔۔۔ پس پورا کر دیا اس نے اُن کو ۔۔۔ فرمایا
إِنِّي۔۔۔۔۔۔۔۔  جَاعِلُكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لِلنَّاسِ ۔۔۔۔۔إِمَامًا
بے شک میں ۔۔۔ بنانے والا ہوں تجھ کو ۔۔۔ لوگوں کے لئے ۔۔۔ امام 

وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا

اور جب ابراھیم علیہ السلام کو آزمایا اُس کے رب نے کئی باتوں میں پھر اُس نے وہ پوری کیں۔ تب فرمایا بے شک میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بناؤں گا ۔

اِبْرَاھِیْمُ ۔ ( ابراھیم ) ۔  اس جلیل القدر نبی کے نام سے ہر شخص واقف ہے ۔ آپ ہمارے رسول صلی الله علیہ وسلم کے جد امجد تھے ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا وطن بابل تھا ۔ اور باپ کانام آزر تھا ۔ان کی نسل سے دو سلسلے چلے ۔ ایک ان کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے اور دوسرا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ۔ 
پہلے سلسلے کے نبیوں کو اسرائیلی انبیاء کہا جاتا ہے ۔ جن میں حضرت سلیمان ، داوود ، موسٰی اور عیسٰی علیھم السلام وغیرھم شامل ہیں ۔ دوسرے خاندان میں ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم مبعوث ہوئے ۔ 
حضرت ابراھیم علیہ السلام کو جد انبیاء کہا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کے علاوہ عیسائی یہودی سبھی ان کی عزت کرتے ہیں ۔ 
اِذَا ابتَلٰی ۔ ( جب آزمایا ) ۔ یہ لفظ بلیہ سے نکلا ہے ۔ اس کے معنی مصیبت اور آزمائش کے ہوتے ہیں ۔ الله تعالی نے اپنے اس بزرگ نبی کو کئی طریقوں سے آزمایا ۔ مثلا بُت پرست اور بُت گر باپ نے گھر سے نکالنے کی دھمکی دی ۔ قوم نے جلا وطن کرنے کا ڈراوا دیا ۔ بادشاہ نے آگ میں ڈال دیا ۔ مگر وہ اسلام سے باز نہ آئے ۔ اور حق پر قائم رہے ۔ پھر الله تعالی نے بیوی بچے کو جنگل میں چھوڑ آنے اور بچے کو قربان کرنے کا حکم دیا ۔ انہوں نے اس حکم کو بھی پورا کر دکھایا ۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی امتحان ہوئے اور وہ ہر ایک میں کامیاب رہے ۔ 
اِمَاماً ۔ ( پیشوا ۔ امام ) ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کی یہ امامت فقط روحانی اور مذہبی پیشوائی نہ تھی ۔ بلکہ الله تعالی نے انہیں سیاسی طور پر بھی سرفرازی اور برتری عطا فرمائی ۔ وہ اپنے زمانے میں واقعی سردار اور پیشوا بنے ۔ لوگوں نے ان کی پیشوائی تسلیم کی ۔

*یوم آخرت میں گرفت*

يَا ۔۔ بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔ اذْكُرُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ نِعْمَتِيَ
اے ۔۔ بنی اسرائیل ۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔ میری نعمتیں 
الَّتِي ۔۔۔ أَنْعَمْتُ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وَأَنِّي
وہ جو ۔۔۔ میں نے انعام کی ۔۔۔ تم پر ۔۔ اور بے شک میں نے 
فَضَّلْتُكُمْ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔ الْعَالَمِينَ۔  1️⃣2️⃣2️⃣
میں نے فضیلت دی تم کو ۔۔۔ پر ۔۔۔ اہل عالَم 
وَاتَّقُوا ۔۔۔  يَوْمًا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ لَّا تَجْزِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ نَفْسٌ
اور ڈرو ۔۔۔ اُس دن سے ۔۔ نہیں کام آئے گی ۔۔۔ کوئی جان 
عَن ۔۔ نَّفْسٍ ۔۔۔۔۔۔۔ شَيْئًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَا يُقْبَلُ
سے ۔۔ کوئی جان ۔۔ کچھ ۔۔۔ اور نہ قبول کیا جائے گا 
مِنْهَا ۔۔۔ عَدْلٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَا تَنفَعُهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ شَفَاعَةٌ
اس سے ۔۔۔ کوئی بدلہ ۔۔ اور نہ نفع دے گی اُس کو ۔۔۔ کوئی سفارش 
وَلَا ۔۔۔ هُمْ ۔۔۔۔۔۔ يُنصَرُونَ.  1️⃣2️⃣3️⃣
اور نہ  ۔۔۔ وہ ۔۔۔ مدد کئے جائیں گے 

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   1️⃣2️⃣2️⃣
اے بنی اسرائیل میرے احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں اہل عالم پر بڑائی دی ۔ 

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَّا تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ.  1️⃣2️⃣3️⃣

اور اُس دن سے ڈرو جب کوئی شخص کسی شخص کے ذرا کام نہ آئے گا اور نہ اُسے سفارش کام آئے گی اور نہ انہیں مدد پہنچے گی ۔ 

یہ دونوں آیات ہم پہلے بھی پڑھ چکے ہیں ۔ وہاں سے بنی اسرائیل کا ذکر شروع ہوا تھا ۔ اور یہاں ان کی علمی اور عملی کمزوریاں بیان کی گئی ہیں ۔ انہیں سیدھی راہ یعنی اسلام قبول کرنے کی دعوت بھی دی گئی ہے ۔ اور واضح اور روشن دلائل سے ثابت کر دیا گیا ہے کہ نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم برحق نبی ہیں ۔ اور اُن پر ایمان لانا اور اُن کی تعلیمات پر ثابت قدم رہنا ہر فرد کے لئے لازم ہو گیا ہے ۔ ان سے کہا گیا کہ تعصب ، ضد ، مذہبی گروہ بندی اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر الله تعالی کے بتائے ہوئے سیدھے راستے کو اختیار کر لو ۔
اب انہیں دوبارہ وہی باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں ۔ اور آخرت کے نتائج سے آگاہ کیا جا رہا ہے ۔ اور بتایا جا رہا ہے کہ اصل مقصد اس قصے کے بیان کا یہ ہی ہے ۔ 
 دنیا میں انسان کسی کی مدد سے ، بدلے یا جُرمانے سے سفارش یا زور زبردستی سے بچ سکتا ہے ۔لیکن الله جل جلالہ کے پاس ان میں سے کوئی چیز کام نہ دے گی ۔ وہاں انسان کے صرف اپنے اعمال کام آئیں گے ۔ نذرانے ، سفارشیں ،جُرمانے ، دوستی ، رشتہ داری یا کسی کی مدد کام نہ آسکے گی ۔

*کتب سابقہ میں تائید*

الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔ آتَيْنَاهُمُ ۔۔۔۔۔۔ الْكِتَابَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ يَتْلُونَهُ
وہ لوگ ۔۔۔ ہم نے اُن کو دی ۔۔۔ کتاب ۔۔۔ وہ تلاوت کرتے ہیں اُس کی 
حَقَّ ۔۔۔ تِلَاوَتِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أُولَئِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُؤْمِنُونَ 
حق ۔۔ تلاوت اس کی ۔۔۔ یہی لوگ ۔۔۔ وہ ایمان لاتے ہیں 
بِهِ۔۔۔۔۔۔۔۔   وَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ يَكْفُرْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ بِهِ 
اس پر ۔۔۔ اور جو شخص ۔۔۔ وہ کفر کرتا ہے ۔۔۔ اس کا 
فَأُولَئِكَ ۔۔۔ هُمُ ۔۔۔۔ الْخَاسِرُونَ۔ 1️⃣2️⃣1️⃣
پس یہی لوگ ۔۔۔ وہ ۔۔۔ خسارہ پانے والے 

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ.  1️⃣2️⃣1️⃣

وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی وہ اسے پڑھتے ہیں  جیسے اسے پڑھنے کا حق ہے  وہی اس پر ایمان لاتے ہیں  اور جو کوئی اس کا انکار کرے گا تو وہی لوگ نقصان پانے والے ہیں ۔ 

حَقَّ تِلاَوَتِہِ ۔ ( اس کے پڑھنے کا حق ) ۔ تلاوت کے معنی پڑھنے کے ہیں ۔ لفظ۔ تُلو  اس کا مادہ ہے ۔ اس کے لفظی معنی پیچھے چلنے کے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اس جملے کے معنی یہ ہوں گے ۔ کہ وہ لوگ الله تعالی کی کتاب کو ایسے پڑھتے ہیں جیسے پڑھنے کا حق ہے ۔ یعنی اس پر عمل بھی کرتے ہیں ۔ اس کی بتائی ہوئی راہ پر چلتے ہیں اور اس میں کمی بیشی نہیں کرتے ۔ 
اَلَّذینَ اٰتینٰھُمُ الکِتٰبَ ۔ ( جنہیں ہم نے کتاب دی ) ۔ مراد یہودی اور عیسائی ہیں ۔ 
پچھلی آیت میں مذہبی گروہ بندی کا نتیجہ بتایا گیا تھا ۔ یعنی یہ کہ حق پسندی اور حقیقت بینی کی جگہ گروہ پرستی کی روح کام کر رہی ہے ۔ لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ ایک انسان کا اعتقاد اور عمل کیسا ہے ۔ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہمارے گروہ میں داخل ہے یا نہیں ۔ جب لوگوں کی ذہنیت ایسی ہو جائے تو ظاہر ہے کہ دلائل کچھ کام نہیں دے سکتے ۔ کتنی ہی سچی اور معقول باتیں کیوں نہ کہی جائیں ان لوگوں کے لئے سب بے کار ہوتی ہیں ۔ 
آج کے سبق میں بتایا گیا ہے کہ اگر اہل کتاب ضد ، نفسانیت اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر اخلاص اور نیک نیتی سے کام لیں ۔ اور اپنی کتابوں کو خلوص سے پڑھیں ۔ تو وہ قرآن مجید  اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہو جائیں گے ۔ اور آپ پر ایمان لے آئیں گے ۔ یہودیوں میں کچھ لوگ انصاف پسند بھی تھے جو اپنی کتاب کو سمجھ کر پڑھتے تھے وہ قرآن مجید پر ایمان لے آئے ۔ جیسے حضرت عبد الله بن سلام اور ان کے ساتھی ۔ اور یہ آیت انہی لوگوں کے بارے میں ہے ۔ یعنی انہوں نے تورات کو غور سے پڑھا ہے اس لئے انہی کو ایمان نصیب ہوا ۔ 
اور جو  لوگ اپنی کتابوں میں بھی تبدیل و تحریف کرتے رہے  اور ان کے احکام میں نیک ارادے سے غور نہیں کیا ۔ وہ کبھی قرآن مجید کی صداقت کے قائل نہیں ہوں گے ۔ وہ تعصب ، ہٹ دھرمی ، نفس پرستی اور گروہ بندی میں مبتلا ہیں ۔ اور اگر یہی طور طریقے رہے تو وہ ہمیشہ کفر میں مبتلا رہیں گے ۔ وہ لگاتار حق سے انکار ہی کرتے رہیں گے ۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ دنیا میں بھی نقصان اُٹھائیں گے اور آخرت میں بھی تباہ و برباد ہوں گے ۔ 

*یہود و نصارٰی کی خواہش*

وَلَن ۔۔۔۔۔۔  تَرْضَى ۔۔۔۔۔۔ عَنكَ ۔۔۔۔۔۔۔الْيَهُودُ 
اور ہرگز نہیں ۔۔۔ راضی ۔۔۔تجھ سے ۔۔۔ یہودی 
 وَلَا ۔۔۔ النَّصَارَى ۔۔۔۔۔۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔ تَتَّبِعَ 
اور نہ ۔۔۔ عیسائی ۔۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔  تو پیروی کرے 
مِلَّتَهُمْ ۔۔۔۔۔ قُلْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ هُدَى اللَّهِ 
ان کا دین ۔۔۔  تو کہہ ۔۔۔ بے شک ۔۔۔ الله تعالی کی ہدایت 
هُوَ ۔۔۔ الْهُدَى ۔۔۔۔۔۔ وَلَئِنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اتَّبَعْتَ 
وہ ۔۔ ہدایت ۔۔۔ اور اگر ۔۔۔ پیروی کی تُو نے 
أَهْوَاءَهُم ۔۔۔ بَعْدَ ۔۔۔ الَّذِي ۔۔۔ جَاءَكَ 
ان کی خواہشات ۔۔۔ بعد ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ آچکا 
مِنَ ۔۔ الْعِلْمِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَكَ ۔۔۔۔۔۔۔ مِنَ ۔۔۔اللَّهِ 
سے ۔۔۔ علم ۔۔۔ نہیں ۔۔۔ تیرے لئے ۔۔۔ سے ۔۔۔ الله 
مِن ۔۔۔ وَلِيٍّ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔نَصِيرٍ۔ 1️⃣2️⃣0️⃣
سے ۔۔۔ دوست ۔۔۔ اورنہ ۔۔۔ مدگار 

وَلَن تَرْضَى عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ.  1️⃣2️⃣0️⃣

اور آپ سے یہودی ہرگز نہ راضی  ہوں گے اور نہ ہی نصارٰی جب تک آپ ان کے دین کی پیروی نہ کریں  تو آپ فرما دیجئے کہ الله تعالی جس راہ کی ہدایت دے وہی سیدھی راہ ہے ۔ اور اگر  ( بالفرض ) آپ ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے اس علم کے بعد جو آپ کو مل چکا ۔ تو الله تعالی کے نزدیک آپ کا کوئی حمایت کرنے والا اور مددگار نہیں ۔ 

مِلَّتَھُمْ ۔ ( ان کا دین ) ۔ اُردو میں لفظ ملت قوم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ عربی میں اس کے معنی مسلک ، دین اور طریقہ کے ہوتے ہیں ۔ 
اَھْوَاءَھُمْ ۔ ( اُن کی خواہشات ) ۔ اھوا سے مراد وہ خیالات اور آراء ہیں جن کی بنیاد علم اور حقیقت پر نہ ہو ۔ بلکہ نفسانی خواہشات پر ہو ۔ اھواء کا واحد   ھواء ہے ۔ 
یہودی اور عیسائی اس قدر متعصب تھے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم خواہ ان سے کتنا ہی ہمدردی کا برتاؤ کرتے یا ان کی کتنی ہی رعایت کرتے ۔ وہ ہرگز آپ کی بات ماننے یا سننے کے لئے تیار نہ ہوتے ۔ وہ صرف اس صورت میں آپ سے خوش ہو سکتے تھے ۔ جب آپ ان کا دین قبول کر لیتے ۔ 
الله جل شانہ فرماتا ہے کہ حقیقی راہ ھدایت اور سچا دین وہی ہے جو اس نے اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کو دیا ۔ یعنی الله کی اطاعت اور صالح اعمال ۔ جتنی الگ الگ گروہ بندیاں کر لی گئی ہیں یہ سب انسانی گُمراہی کی پیداوار ہیں ۔ جو شخص الله تعالی کی بتائی ہوئی سیدھی راہ سے جان بوجھ کر منہ موڑے گا اس کے لئے سخت سزا مقرر ہے ۔اور اس سزا سے بچانے والا اس کا کوئی حامی اور مددگار نہیں ہوگا ۔ 
اس آیت سے دو باتیں بالکل واضح ہو جاتی ہیں ۔۔۔ 
اول ۔۔۔ یہ کہ اہل کتاب کا دین اس قدر بدل چکا ہے کہ اس میں ان کی جھوٹی خواہشات اور آرزوؤں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا ۔ 
دوسرا ۔۔۔ یہ کہ حقیقی راستہ وہی ہے جو الله تعالی نے حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے سے انسانوں پر اچھی طرح واضح کر دیا ہے ۔ کیونکہ ہر زمانے میں وہی ہدایت معتبر ہے جو اُس زمانے کا نبی لائے ۔ اس لئے وہ اسلام کا طریقہ ہی ہے ۔ یہود و نصارٰی کا طریقہ نہیں ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی ذمہ داری*

إِنَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ أَرْسَلْنَاكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِالْحَقِّ 
بے شک ہم نے ۔۔۔ ہم نے بھیجا آپ کو ۔۔۔ حق کے ساتھ
بَشِيرًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَنَذِيرًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَلَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ تُسْأَلُ   
خوشخبری دینے والا ۔۔۔ اور ڈرانے والا ۔۔۔ اور نہیں ۔۔ آپ سے سوال کیا جائے گا 
عَنْ۔۔۔۔۔ أَصْحَابِ ۔۔۔الْجَحِيمِ.   1️⃣1️⃣9️⃣
سے ۔۔۔ رہنے والے ۔۔۔ دوزخ 

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ۔   1️⃣1️⃣9️⃣

بے شک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا اور دوزخ والوں کے بارے میں آپ سے پوچھا نہیں جائے گا ۔ 

بِالْحَقِّ ۔ ( حق کے ساتھ ) ۔ مراد یہ ہے کہ راہ حق کی طرف ہدایت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ اور اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ آپ سچی باتیں بتانے والے ہیں ۔ حق کے لئے روشن دلائل اور واضح ثبوت پیش کرنے والے ہیں ۔ 
بَشِیْرٌ ۔ ( خوشخبری دینے والا ) ۔ یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور الله تعالی اور نبی صلی الله علیہ وسلم کے احکام کی پیروی کریں  آپ انہیں نیک اعمال کے بدلے دنیا و آخرت میں فلاح اور بہتری کی خوشخبری دینے والے ہیں ۔ 
نَذِیْرٌ ۔ ( ڈرانے والا ) ۔ یعنی جو لوگ انکار اور سرکشی کریں ۔ انہیں ان کے اعمال کے بدلے دنیا اور آخرت میں عذاب سے ڈرانے والے ہیں 
آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی یہ دو بہت اہم خصوصیات ہیں ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے فرمایا کہ ہم نے آپ کو دینِ حق دے کر بھیجا ہے ۔ جو لوگ آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کریں گے اور آپ کے پیچھے چلیں گے وہ ایمان دار ہیں ۔ اور ان کے لئے آپ نیک اجر کی خوشخبری دینے والے ہیں ۔ البتہ جو آپ کی نافرمانی کریں گے اور آپ کے پیچھے نہیں چلیں گے وہ کافر ہیں ۔ اور وہ دوزخ میں جائیں گے ۔ ان کے لئے آپ بُرے انجام کی خبر دینے والے ہیں ۔ 
نبی اور رسول کا کام صرف الله تعالی کا حکم لوگوں تک پہنچانا ہے اور بس ۔۔۔ کافروں کو مسلمان بنا دینے کی ذمہ داری کسی نبی پر نہیں ہوتی ۔ اس لئے آپ صلی الله علیہ وسلم بھی ذمہ دار نہیں ہیں ۔

*کُن فیکون*

بَدِيعُ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ السَّمَاوَاتِ ۔۔۔  وَالْأَرْضِ ۔۔۔۔۔ ۔۔ وَإِذَا
ابتداء سے پیدا کرنے والا ۔۔۔ آسمانوں ۔۔۔ اور زمین ۔۔۔ اور جب
 قَضَى ۔۔۔۔۔۔ أَمْرًا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَإِنَّمَا
فیصلہ کرتاہے ۔۔۔ کام ۔۔۔ پس بے شک 
يَقُولُ ۔۔۔ لَهُ ۔۔۔۔ ۔۔ كُن ۔۔۔۔۔۔  فَيَكُونُ۔ 1️⃣1️⃣7️⃣
وہ کہتا ہے ۔۔۔ اس سے ۔۔۔ ہو جا ۔۔۔ پس وہ ہو جاتا ہے 

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ.  1️⃣1️⃣7️⃣

ابتدا سے زمین اور آسمان کا پیدا کرنے والا ہے  جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ فرماتا ہے کہ ہو جا۔ پس وہ ہو جاتا ہے ۔

بَدِیْعٌ ۔ ( بغیر مادے کے اور بغیر نمونے کے پیدا کرنے والا ) یہ لفظ  "بدع "سے  بنا ہے ۔ لفظ۔ ابداع " بھی اسی سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں نئے سرے سے بنانا ۔ مادے کے بغیر نیست سے ہست کرنا ۔ نمونے کے بغیر کوئی چیز بنا دینا ۔ 
بدیعٌ سے مراد ہے ایسا موجد اور صنّاع جو حقیقی معنی میں پیدا کرنے والا اور ایجاد کرنے والا ہے ۔ جسے نہ کسی آلے کی ضرورت ہے نہ کسی مال و مسالہ کی ۔ نہ وہ کسی نمونے کا محتاج ہے نہ کسی استاد کا ۔ ہر چیز خواہ اس کا وجود اور نمونہ پہلے موجود ہو یا نہ ہو ۔ وہ اسے وجود بخشنے والا ہے ۔زمین و آسمان اور کائنات کی ہر شے اسی نے پیدا کی ہے ۔ 
اس آیت میں مشرک قوموں کے غلط عقیدوں کو رد کیا گیا ہے ۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ مادہ پہلے سے کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا ۔بس اسے الله نے ترتیب و ترکیب دے کر کائنات کو پیدا کیا ہے ۔
الله جل شانہ نے یہاں اپنی صفت  بدیع۔ بتا کر فرمایا ہے کہ صرف اسی کی ذات قدیم ، ازلی و ابدی ہے ۔اس نے تمام موجودات کو ایجاد کیا ہے ۔ جن کا پہلے بالکل کوئی نمونہ موجود نہ تھا ۔ زمین و آسمان اور کائنات کی ہر شے کو اسی نے نیست سے ہست کی شکل دی ہے ۔ اس کے لئے ہر چیز کو بغیر نمونہ کے اور بغیر مادے کے پیدا کرنا بہت آسان بات ہے ۔  سبحان الله 
کُن فَیَکُوْنَ  - ( ہو جا ۔ پس وہ ہو جاتا ہے ) ۔ الله تعالی کو کائنات کی تخلیق اور ایجاد میں اسباب اور وسائل کی ضرورت نہیں ۔ صرف اس کا حکم اور اشارہ کافی ہے ۔ اسی حقیقت کو اس مختصر سے جملے میں بیان کیا گیا ہے ۔ 
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ الله تعالی ہی قدیم ہے ۔ ایک وقت ایسا تھا جب اسی کا وجود تھا اور باقی کچھ بھی موجود نہ تھا ۔ اسی نے اپنے ارادے سے ان سب کو ایجاد کیا ۔ اسے نہ کسی شریک کار کی ضرورت ہوئی اور نہ کسی معاون اور مددگار کی ۔ وہی تمام چیزوں کو نئی شکلیں دیتا ہے ۔ 
مادہ پرست لوگوں کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ وہ کسی کا محتاج ہے یا اسے کسی کی ضرورت ہے ۔ 

*الله کی کوئی اولاد نہیں*

وَقَالُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اتَّخَذَ ۔۔۔۔ ۔۔ اللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔  وَلَدًا 
اور وہ کہتے ہیں ۔۔۔ وہ رکھتا ہے ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اولاد 
سُبْحَانَهُ ۔۔۔ بَل ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مَا۔۔۔  فِي ۔۔۔۔السَّمَاوَاتِ
وہ پاک ہے ۔۔۔ بلکہ ۔۔ اس کے لئے ۔۔۔ جو ۔۔۔ میں ۔۔۔ آسمانوں 
  وَالْأَرْضِ ۔۔۔ كُلٌّ ۔۔۔ لَّهُ ۔۔۔۔قَانِتُونَ۔  1️⃣1️⃣6️⃣
اور زمین میں ۔۔۔ سب  ۔۔ اسکے لئے ۔۔۔ فرمانبردار 

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ بَل لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَّهُ قَانِتُونَ.  1️⃣1️⃣6️⃣

اور وہ کہتے ہیں الله تعالی اولاد رکھتا ہے  وہ سب باتوں سے پاک ہے  بلکہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اسی کا ہے  سب اسی کے فرمانبردار ہیں ۔ 

پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ یہود و نصاری کا یہ خیال غلط ہے کہ الله تعالی کسی خاص سمت کو پسند کرتا ہے ۔ اس لئے اس کی طرف منہ کرنے کے لئے ہمیں بھی کسی خاص سمت میں مُڑنا چاہئیے ۔ الله تعالی نے اس کی تردید کی کہ وہ کسی خاص سمت یا چار دیواری میں محدود نہیں ہے ۔ بلکہ وہ تمام کائنات کا مالک ہے ۔ اس کی کوئی حد نہیں اس لئے جس طرف بھی چاہو رُخ کر کے الله کو یاد کر لیا کرو ۔ وہ تمہاری طرف متوجہ ہو گا ۔ 
اِتَّخَذَ ۔ ( رکھتا ہے ) ۔ یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلا  پکڑنا ، بنانا  اور اختیار کرنا ۔ اور مفہوم ان سب ترجموں کا ایک ہی ہوتا ہے ۔ 
قَانِتُوْنَ ۔ (تابع فرمان ) ۔ اس کا واحد قانتٌ ہے ۔ یعنی حکم ماننے والا ۔ اور اطاعت گزار ۔ قنوت اسی لفظ سے ہے ۔ نماز وتر کی دُعا کو دعائے قنوت اسی لئے کہتے ہیں کہ اس میں الله تعالی کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد ہوتا ہے ۔ 
بعض یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو الله کا بیٹا کہتے تھے ۔ اور عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو ۔ اور مشرکین عرب ملائکہ کو الله تعالی کی بیٹیاں قرار دیتے تھے ۔ یہ عقیدہ شرک کی بد ترین قسم ہے ۔ الله تعالی فرماتا ہے کہ وہ ان کی تمام بیہودہ باتوں سے پاک ہے ۔ اس کے کوئی اولاد نہیں ۔ وہ ایک ہے ۔ وہ تمام کائنات کا مالک ہے ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اسی کے حکم کے تابع ہے ۔ ہر جگہ اسی کی سلطنت ہے ۔ مخلوق سے اس کا تعلق یہ ہے کہ ساری کائنات اور جنّ و بشر اس کے عبادت گزار اور تابع فرمان ہیں ۔ وہ سب کا معبود و مسجود ہے ۔ کائنات کی تمام چیزیں اس کے حکم کے آگے سر جھکائے ہوئے ہیں ۔ انسان کا کمال بھی اسی میں ہے کہ اس کے آگے سر جھکا دے اور اس کے سوا کسی کا فرمانبردار بن کر نہ رہے ۔ 
امت مسلمہ توحید کی علمبردار ہے ۔ اور وہ اسی عقیدے کی تبلیغ کرتی ہے ۔ کہ شرک سب سے بڑا گناہ ہے ہمیں ہمیشہ اس سے بچنا چاہئیے اور توحید کا دل سے یقین کرنا چاہئیے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*ہر طرف الله ہی کا جلوہ ہے*

وَلِلَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ الْمَشْرِقُ ۔۔۔۔۔۔  وَالْمَغْرِبُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَأَيْنَمَا 
اور الله ہی کے لئے ہے ۔۔۔ مشرق ۔۔۔ اور مغرب ۔۔ پس جہاں کہیں ہوتم 
تُوَلُّوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَثَمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وَجْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    اللَّهِ 
تم پھیر لو ۔۔۔ پس وہاں ہی ۔۔۔ متوجہ ہے ۔۔۔ الله تعالی 
إِنَّ ۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔ وَاسِعٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلِيمٌ۔ 1️⃣1️⃣5️⃣
بے شک ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ وسعت والا  ۔۔۔ سب کچھ جاننے والا ہے 

وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ.  1️⃣1️⃣5️⃣

اور مشرق اور مغرب الله تعالی ہی کا ہے ۔ سو جس طرف تم منہ کرو الله تعالی وہاں ہی متوجہ ہے ۔ بے شک الله تعالی بے انتہا بخشش کرنے والا سب کچھ جاننے والا ہے ۔ 

وَجْہُ ۔ ( چہرہ ) ۔ لفظی معنی ہیں چہرہ ۔ اس کے دوسرے معنی ذات کے بھی ہوتے ہیں ۔ مطلب یہ کہ تم جس طرف بھی رُخ کرو الله تعالی کی ذات وہاں موجود ہے ۔اور تم جہاں بھی جاؤ الله تعالی کو موجود پاؤ گے ۔ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب اُس کے ہیں ۔ 
جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ الله تعالی بھی زمان و مکان کی قید میں ہے ۔ اس لئے اس کی طرف منہ کرنے کے لئے ہمیں بھی کسی خاص سمت میں مڑنا چاہئیے ۔ وہ یہ سمت خود ہی فرض کرکے اسکی طرف منہ کر کے پوجا کیا کرتے تھے ۔ یہود و نصاری میں بھی آپس میں اس بات کا جھگڑا تھا ۔ ہر ایک نے ایک سمت مقرر کر رکھی تھی ۔وہ اسی سمت کو بہتر تصور کرتے تھے ۔ 
قرآن مجید میں الله تعالی نے اس باطل عقیدے کی تردید کی ۔ اور بتایا کہ الله تعالی کسی خاص عبادت گا ہ کی چار دیواری کے اندر محدود نہیں ہے ۔ اور نہ وہ کسی مکان اور سمت میں قید ہے ۔بلکہ جہاں کہیں بھی اخلاص کے ساتھ اسے یاد کیا جائے گا وہ متوجہ ہو گا ۔ وہ کسی خاص مقام ، کسی خاص شہر یا سمت کے ساتھ مخصوص اور وابستہ نہیں ۔ 
الله تعالی تمام کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اس کی کوئی حد نہیں ۔ وہ ہر جگہ ہے ۔اس لئے جس جگہ ، جس وقت جس رُخ بھی اسے خلوص سے پکارا جائے ۔ وہ ضرور متوجہ ہوگا ۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون سچے دل سے مجھے پکارتا ہے اور کون محض دکھاوے کے لئے ۔ 
اس آیت کا ایک شان نزول یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ مسافر اور سوار کو  قبلہ رُخ معلوم کرنا کیونکہ مشکل  ہوتا ہے اس لئے حکم ہوا کہ اس وقت جس طرف بھی رُخ کر کے نماز پڑھو گے وہ قبول ہو گی ۔ کیونکہ الله جل شانہ ہر سمت اور ہر جگہ پر حاوی ہے ۔چنانچہ مسئلہ یہ ہے کہ نماز کے لئے اگر قبلہ کا صحیح رُخ معلوم نہ ہو سکے تو جس طرف ظن غالب ہو اور دل گواہی دے ۔ اسی طرف رُخ کرکے نماز ادا کر لو ۔ اور نفل نماز اگر سواری پر ہو تو خواہ سواری کی سمت بدل جائے ۔ تم اپنی نماز جاری رکھو ۔

*مساجد کو ویران کرنے والے*

وَمَنْ ۔۔۔۔۔ ۔۔ أَظْلَمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ مِمَّن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مَّنَعَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مَسَاجِدَ 
اور کون ہے ۔۔۔ بڑا ظالم ۔۔۔ اس شخص سے ۔۔۔ منع کیا اس نے ۔۔۔ مساجد 
اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔ ۔ أَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔يُذْكَرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  فِيهَا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اسْمُهُ 
الله تعالی ۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔ ذکر کیا جائے ۔۔۔ اس میں ۔۔۔ اس کانام 
وَسَعَى ۔۔۔۔۔ ۔۔ فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ خَرَابِهَا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ أُولَئِكَ ۔۔۔ مَا
اور وہ کوشش کرتا ہے ۔۔۔ میں ۔۔۔ اس کی خرابی ۔۔۔ یہی لوگ ۔۔ نہیں 
 كَانَ ۔۔۔ لَهُمْ۔۔۔۔۔ ۔۔  أَن ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ يَدْخُلُوهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ إِلَّا 
ہے ۔۔۔ ان کے لئے ۔۔ یہ کہ ۔۔۔ وہ داخل ہوں اس میں ۔۔۔ مگر 
خَائِفِينَ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ لَهُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ الدُّنْيَا ۔۔۔ خِزْيٌ 
ڈرتے ہوئے ۔۔۔ ان کے لئے ۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ دنیا ۔۔۔ ذلت 
وَلَهُمْ ۔۔۔ فِي ۔۔۔ الْآخِرَةِ ۔۔۔ عَذَابٌ ۔۔۔ عَظِيمٌ۔ 1️⃣1️⃣4️⃣
اور ان کے لئے ۔۔۔ میں ۔۔۔ آخرت ۔۔۔ عذاب ۔۔۔ بڑا 

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ.  1️⃣1️⃣4️⃣

اور ان سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے الله تعالی کی مسجدوں میں روکا کہ وہاں اس کا نام لیا جائے ۔ اور ان کے اجاڑنے کی کوشش کی ۔ ایسے لوگوں کو لائق نہیں کہ ان میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں ذلت ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے ۔ 

مَسٰجِدْ ۔ ( مسجدیں ) ۔ مسجد کی جمع ہے ۔ لفظی مطلب سجدہ کرنے کی جگہ ۔ یعنی مسلمانوں کی عبادت گاہ ۔ ایک قول کے مطابق اس سے مسجد حرام بھی  لی جاتی ہے ۔ 
اس آیت کے شان نزول کی وضاحت میں دو واقعے بیان کئے جاتے ہیں 
ایک یہ کہ عیسائیوں نے یہودیوں سے جنگ کی تورات کو جلایا اور بیت المقدس کو خراب کیا ۔ 
دوسرا یہ کہ مکہ کے مشرکوں نے ۶ ھجری میں حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو صرف تعصب کی بنیاد پر مسجدِ حرام یعنی بیت الله میں داخل ہونے سے روک دیا ۔ 
اہل کتاب کی مذہبی تعصب پرستی اور فرقہ بندی کی حد یہ ہوگی ۔ کہ دوسرے گروہوں کی عبادت گاہوں کا احترام دل سے اُٹھ گیا ۔ انہیں برباد کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ نہ کی ۔ اور خود اپنی عبادت گاہوں میں غیر فرقے کے لوگوں کو داخل ہونے سے روکا ۔ حالانکہ سب دعوٰی یہی کرتے ہیں کہ وہ ایک خدا کو مانتے ہیں ۔ 
عُلماء نے فرمایا ہے کہ جس طرح الله تعالی کے ذکر سے مسجد آباد ہوتی ہے ۔ بُرے کام اور بات کرنے سے مسجد کی بربادی سمجھی جائے گی ۔ اس کے علاوہ وہ تمام چیزیں جو نمازیوں کی کمی اور مسجد کی ویرانی کا باعث بنیں ۔ وہ سب اس آیت کے حکم میں داخل ہو جاتی ہیں ۔ اس لئے ایسی چیزوں سے پرھیز کرنا چاہئیے جن سے مسجدوں کی رونق کم ہو ۔ اور لوگوں کا مسجد میں آنا کم یا بند ہو جائے ۔ الله جل شانہ فرماتا ہے ان پر لازم ہے کہ جب وہ مسجد میں داخل ہوں تو ان کے دل الله کے خوف تواضح اور ادب و تعظیم سے لرزتے ہوں ۔ لیکن چونکہ وہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے اس لئے دنیا میں بھی انہیں رسواکن عذاب ملے گا  ۔ اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ان کا منتظر ہوگا ۔ 

*مذہبی گروہ بندیاں*

وَقَالَتِ ۔۔ الْيَهُودُ ۔۔۔  لَيْسَتِ ۔۔۔ النَّصَارَى 
اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہودی ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔ نصارٰی 
 عَلَى ۔۔۔ شَيْءٍ ۔۔۔۔۔۔۔ وَقَالَتِ ۔۔۔ النَّصَارَى ۔۔۔لَيْسَتِ 
پر ۔۔ راہ ۔۔۔ اور کہتے ہیں ۔۔۔ نصارٰی ۔۔۔ نہیں 
الْيَهُودُ ۔۔۔ عَلَى ۔۔ ۔۔  شَيْءٍ ۔۔۔۔۔۔  وَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ يَتْلُونَ ۔۔۔ ۔۔ الْكِتَابَ 
یہودی ۔۔۔ پر ۔۔۔ کسی چیز ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ تلاوت کرتے ہیں ۔۔۔ کتاب 
كَذَلِكَ ۔۔۔ قَالَ ۔۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔ لَا يَعْلَمُونَ ۔۔۔۔۔۔۔ مِثْلَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔قَوْلِهِمْ
اسی طرح ۔۔۔ کہا ۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ نہیں علم رکھتے ۔۔۔ مانند ۔۔۔ ان کی بات 
 فَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ يَحْكُمُ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ بَيْنَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
 پس الله تعالی ۔۔ وہ فیصلہ کرے گا ۔۔۔ ان کے درمیان ۔۔ قیامت کے دن 
فِيمَا ۔۔۔ كَانُوا ۔۔ فِيهِ ۔۔۔ يَخْتَلِفُونَ. 1️⃣1️⃣3️⃣
اس میں جو ۔۔۔ وہ تھے ۔۔۔ اس میں ۔۔ وہ اختلاف کرتے 

وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ كَذَلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ۔ 1️⃣1️⃣3️⃣

اور یہودی کہتے ہیں نصارٰی کسی راہ پر نہیں۔ اور نصارٰی کہتے ہیں یہودی کسی راہ پر نہیں حالانکہ وہ سب کتاب پڑھتے ہیں اسی طرح جاہل لوگوں نے ان ہی کی سی بات کہی  اب الله تعالی ان میں قیامت کے دن فیصلہ کرے گا جس بات میں وہ جھگڑتے تھے ۔

لَا یَعْلَمُوْنَ ۔( جاہل ) ۔ یہاں علم سے مراد ہے آسمانی کتاب کا علم ۔ اور علم نہ رکھنے والے ان جاہل لوگوں سے مراد ہیں مشرکین ۔ اور ہر ایسے مذہب کے پیروکار جس کی بنیاد کسی آسمانی کتاب پر نہ ہو ۔ 
بَیْنَھُمْ ۔ ( ان میں ) ۔ مراد یہ ہے کہ ان دو گروھوں  کے درمیان جن میں ایک فریق اہل ایمان کا ہے اور دوسرا گروہ باطل پرستوں کا ہے ۔ 
تمام اہل کتاب الله جل شانہ کی دی ہوئی سچائی اور تعلیم کی پیروی کرنے کی بجائے مذہبی فرقہ بندی میں مبتلا ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک یہی دعوٰی کرتا ہے کہ وہ سیدھی راہ پر ہے ۔ اور دوسرے تمام فرقے اصل سے ہٹ گئے ہیں ۔ مثلا جب یہودیوں نے دیکھا کہ عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کو الله کا بیٹا کہتے ہیں ۔ تو انہوں نے کہا یہ کافر ہیں ۔ اور جب عیسائیوں نے دیکھا کہ یہودی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منکر ہو گئے ہیں تو انہوں نے کہا وہ کافر ہیں ۔ حالانکہ یہ دونوں گروہ الله تعالی کی دی ہوئی کتابیں پڑھتے ہیں ۔ 
یہی حال اُن لوگوں کا ہے جن کے پاس آسمانی کتاب تو کوئی نہیں ۔ لیکن انہوں نے خود ہی عقیدے گھڑ رکھے ہیں ۔ کہ وہ سیدھی راہ پر ہیں ۔ اور دوسرے تمام فرقے حقیقی راہ سے بھٹک گئے ہیں ۔ ان لوگوں میں عرب کے مشرکین اور دوسرے باطل پرست شامل ہیں ۔ 
قرآن مجید میں الله تعالی فرماتے ہیں یہ مذہبی فرقہ بندی بالکل فضول ہے ۔اصل چیز ہے الله جل شانہ کا حکم ماننا اور نیک اعمال کرنا ۔ جو شخص ان دونوں اصولوں پر کاربند ہو گا ۔ بس وہی سیدھی راہ پر ہے ۔ 
  درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*جنّت کا مستحق کون ہے*

وَقَالُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لَن يَدْخُلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْجَنَّةَ ۔۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔ مَن
اور وہ کہتے ہیں ۔۔۔ ہرگز نہیں داخل ہوگا ۔۔۔ جنت میں ۔۔۔ مگر ۔۔ وہ 
كَانَ ۔۔۔ هُودًا ۔۔۔ أَوْ نَصَارَى ۔۔۔ تِلْكَ
ہے ۔۔ یہودی ۔۔۔ یا نصرانی ۔۔۔ یہ 
۔أَمَانِيُّهُمْ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ قُلْ ۔۔۔۔۔ ۔۔ هَاتُوا ۔۔۔ بُرْهَانَكُمْ 
آرزوئیں ان کی ۔۔۔ فرما دیجئے ۔۔ لے آؤ ۔۔ اپنی دلیل 
إِن ۔۔  كُنتُمْ ۔۔۔  صَادِقِينَ۔ 1️⃣1️⃣1️⃣
اگر ۔۔۔ تم ہو ۔۔۔ سچے 
بَلَى ۔۔۔ مَنْ ۔۔۔۔ أَسْلَمَ ۔۔۔۔۔ ۔۔ وَجْهَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ لِلَّهِ
کیوں نہیں ۔۔۔ جو ۔۔ تابع کرے ۔۔ اپنا چہرہ ۔۔ الله تعالی کے لئے 
وَهُوَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ مُحْسِنٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ فَلَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ أَجْرُهُ
اور وہ ۔۔۔ نیک کام کرنے والا ۔۔۔ پس اس کے لئے ۔۔ اجر اس کا 
عِندَ ۔۔۔۔۔ ۔۔ رَبِّهِ ۔۔۔۔۔۔ ۔  وَلَا ۔۔۔۔ ۔ خَوْفٌ
پاس ۔۔۔ رب اس کا ۔۔ اور نہیں ۔۔ خوف 
عَلَيْهِمْ ۔۔ وَلَا۔۔ هُمْ ۔۔۔ يَحْزَنُونَ.    1️⃣1️⃣2️⃣
ان پر ۔۔۔ اور نہ ۔۔ وہ ۔۔ غمگین ہوں گے 

وَقَالُوا لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَن كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ. 1️⃣1️⃣1️⃣

اور وہ کہتے ہیں ہرگز جنت میں نہ جائیں گے مگر وہ جو یہودی ہوں گے یا نصرانی ہوں گے ۔ ۔ یہ ان کی آرزوئیں ہیں فرما دیجئے اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لے آؤ 

بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.  1️⃣1️⃣2️⃣
کیوں نہیں جس نے اپنا چہرہ الله تعالی کا فرمانبردار کر لیا اور وہ نیک کام کرنے والا ہے تو اس کا ثوب اس کے ربّ کے پاس ہے اور ان کو کوئی ڈر نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔

اَمَانِیُّھُمْ ۔ ( ان کی آرزوئیں ) ۔ یہ امنیہ کی جمع ہے ۔ جس کے معنی ہیں آرزو ۔ خواہش 
وَجْھَهُ۔ ( اپنا چہرہ ۔ اپنا منہ ) ۔ وجه کے لفظی معنی چہرہ یا منہ کے ہیں ۔ لیکن محاورہ میں اس سے اکثر مراد وجود اور ذات ہوتی ہے ۔اور یہاں بھی یہی مراد ہے ۔ 
دنیا کی تمام سابقہ قوموں اور قدیم مذہب والوں کی سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے جدا جُدا گروہ بنا کر دین کی سچائی ضائع کر دی ۔ جو حقیقت میں ایک ہی تھی ۔ اور سب کو یکساں طور پر دی گئی تھی ۔ اب ہر گروہ دوسرے کو جھٹلاتا ہے ۔ اور صرف اپنے آپ کو سچائی کا وارث سمجھتا ہے ۔ یہودی بھی اسی گمراہی میں مبتلا تھے ۔ اور انہیں یہ خیال تھا کہ سچائی صرف ان کے پاس ہے وہی جنت میں جائیں گے ۔ قرآن مجید نے بتایا کہ یہ ان کی من گھڑت باتیں ہیں اور جھوٹی آرزوئیں ہیں ۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہے تو پیش کریں ۔ 
اب قرآن مجید اس لئے بھیجا گیا ہے کہ سب کو اسی مشترکہ سچائی پر جمع کر دیا جائے ۔ الله تعالی کا فرمانبردار بن کر نیک کام کرنا ہی اصل دینداری ہے ۔ کوئی گروہ یہ دعوٰی نہیں کر سکتا کہ وہ سچا اور دوسرے سب جھوٹے ہیں ۔ الله جل شانہ فرماتا ہے جو الله تعالی کا حکم مانے گا ۔ اور نیکی اختیار کرے گا وہ کامیاب ہوگا ۔ ایسا کرنے والے کو نہ تو اپنی پچھلی زندگی کا غم ہو گا اور نہ آئندہ کوئی خوف ہوگا ۔ اور یہ سکون اور اطمینان اولیاء الله ( الله کے دوست اور نیک بندے ) کی نشانی ہے ۔ 
یعنی جس نے الله جل شانہ کے احکامات کو تسلیم کیا جو نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے سے معلوم ہوئے اور اپنی قومیت اور آئین پر تعصب نہ کیا جیسا کہ یہودی کرتے ہیں ۔ تو اُن کے لئے نیک اجر ہے ۔ اور ان احکام میں کوئی ایسا حکم نہیں جس کی وجہ سے انہیں دنیا میں کوئی خوف ہو ۔ اور الله کی فرمانبرداری اور اعمال صالحہ کی وجہ سے  قیامت کے روز  ان پر کوئی غم نہ چھائے گا ۔ 
الله رحیم و مہربان اپنے خاص فضل و کرم سے ہمیں بھی اپنے حکموں کی پیروی کرنے والا اور اعمال صالحہ بجا لانے والا بنا دے ۔  تاکہ دنیا کے ہر قسم کے خوف سے نجات حاصل ہو اور آخرت میں کسی بھی قسم کے غم کا ہم پر سایہ نہ ہو ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*آخرت کا توشہ*

وَأَقِيمُوا ۔۔۔  الصَّلَاةَ ۔۔۔۔۔ وَآتُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ الزَّكَاةَ 
اور تم قائم کرو ۔۔۔ نماز ۔۔۔ اورتم ادا ۔۔۔ کرو زکوۃ 
وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ تُقَدِّمُوا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ لِأَنفُسِكُم ۔۔۔ ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔۔۔۔  خَيْرٍ 
اور جو ۔۔ تم آگے بھیجو گے ۔۔ اپنی جان کے لئے ۔۔۔ سے ۔۔ بھلائی 
تَجِدُوهُ ۔۔۔۔۔ ۔۔ عِندَ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ إِنَّ 
تم پاؤ گے اسے ۔۔ پاس ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ بےشک 
اللَّهَ ۔۔۔ بِمَا ۔۔۔۔۔ ۔۔ تَعْمَلُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ بَصِيرٌ۔ 1️⃣1️⃣0️⃣
الله تعالی ۔۔۔ اس کو جو ۔۔۔ تم کرتے ہو ۔۔۔ دیکھنے والا ہے 

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ
إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ. 1️⃣1️⃣0️⃣

اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو  اور جو کچھ بھلائی تم آگے بھیج دو گے وہ الله تعالی کے پاس پاؤ گے ۔ بے شک الله تعالی جو کچھ تم کرتے ہو اسے دیکھتا ہے 

جیسا کہ ہم پہلے پڑھ چکے ہیں کہ یہودیوں کے اسلام نہ قبول کرنے کی بڑی وجہ ان کا حسد تھا ۔ وہ اس بات سے سخت تکلیف میں تھے کہ نبوت بنی اسرائیل سے نکل کر بنو اسماعیل میں کیوں چلی گئی ۔ اور صرف اس تعصب اور حسد کی آگ کی وجہ سے حق قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے 
وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو بھی ان کے دین سے پھیر کر اپنے ساتھ ملا لیں ۔ اور انہیں بھی کافر بنا لیں ۔ اس لئے وہ مسلمانوں کے دلوں میں طرح طرح کی بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ۔ دین اسلام اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پاک ذات پر اعتراض کرتے ۔ ان کا خیال تھا کہ مسلمان اپنا دین نہ چھوڑیں گے تو کم از کم اپنے مذہب کی طرف سے بددل ضرور ہو جائیں گے ۔ اور اس طرح اسلام میں کمزوری پیدا ہو جائے گی ۔
یہودیوں کے اس حملے اور کوششوں کو دُور کرنے کے لئے الله تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم ان کی طرف توجہ نہ دو ۔ بلکہ الله تعالی کے آخری حکم جہاد کے اعلان کا انتظار کرو ۔ اپنی کمزوری کی وجہ سے شک میں نہ پڑو ۔ الله تعالی تمہیں غالب اور یہودیوں کو ذلیل کرے گا ۔
 اور اس دوران دو بنیادی اُصولوں پر جم جاؤ ۔ اوّل یہ کہ نماز قائم کرو ۔ دوم زکوۃ ادا کرتے رہو ۔ یہ دونوں اُصول ایسے ہیں ۔ جن سے فرد اور جماعت دونوں کی قوت بڑھتی ہے ۔ اور وہ دین سے منہ نہیں پھیر سکتی ۔ 
دوسرے بے شمار فوائد کے علاوہ نماز قائم کرنے سے قوم کی تنظیم مضبوط ہوتی ہے ۔ لوگوں کا آپس میں تعلق گہرا ہوتا ہے ۔ اور وہ ایک دوسرے کے لئے متحد ہوتے ہیں ۔ زکوۃ سے دولت کی تقسیم ہوتی ہے غریب لوگ امیر بن جاتے ہیں اور اپنی مالی کمزوری کی وجہ سے کسی لالچ میں آکر دین سے متنفر نہیں ہوتے ۔ 
اس کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ اگرتم نیک اعمال کرتے رہو گے تو ان کا اجر تمہارے رب کے پاس موجود ہوگا ۔ کیونکہ وہ تمہارے ہر عمل کو دیکھتا ہے ۔ الله تعالی تمہارے کاموں سے غافل ہرگز نہیں تمہاری کوئی نیک بات ضائع نہیں ہو سکتی  اور معمولی سی کوشش بھی بے کار نہیں جاسکتی ۔
ہمیں چاہئیے کہ اپنے دشمنوں کے حملوں اور سازشوں سے بچنے کے لئے ان دو اُصولوں کو مضبوطی سے تھام لیں ۔ 

*نبی سے سوالات*

أَمْ ۔۔۔۔۔۔ تُرِيدُونَ ۔۔۔۔ ۔۔۔ أَن ۔۔۔۔۔۔۔ تَسْأَلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ رَسُولَكُمْ 
کیا ۔۔۔ تم ارادہ کرتے ہو ۔۔۔ یہ ۔۔ تم سوال کرو ۔۔۔ اپنے رسول سے 
كَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سُئِلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُوسَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِن قَبْلُ 
جیسا کہ ۔۔۔ سوال کیا گیا ۔۔۔ موسٰی علیہ السلام ۔۔۔ اس سے پہلے 
وَمَن ۔۔۔۔۔۔ ۔۔  يَتَبَدَّلِ ۔۔۔۔۔۔ ۔ الْكُفْرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ بِالْإِيمَانِ 
اور جو شخص ۔۔۔ وہ تبدیل کرتا ہے ۔۔۔ کفر ۔۔۔ بدلے ایمان کے 
فَقَدْ ۔۔ ضَلَّ ۔۔۔ سَوَاءَ ۔۔۔ السَّبِيلِ۔  1️⃣0️⃣8️⃣
پس تحقیق ۔۔۔ وہ گمراہ ہو گیا ۔۔۔ سیدھا ۔۔ راستہ 

أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِن قَبْلُ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ.  1️⃣0️⃣8️⃣
کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے سوال کرو  جیسے اس سے پہلے موسٰی علیہ السلام سے سوال ہو چکے ہیں  اور جو کوئی ایمان کے بدلے کفر اختیار کرے وہ سیدھی راہ سے بھٹک گیا 

پچھلے سبق میں آیات کے منسوخ ہونے کے بارے میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ الله تعالی جو کوئی حکم منسوخ کرتا ہے یا لوگوں کو بُھلا دیتا ہے تو اس سے بہتر یا اس جیسا حکم ضرور نازل فرماتا ہے ۔ واقعات اور تاریخ کی روشنی میں یہ بات ثابت شدہ ہے ۔ کہ جب بھی کوئی کتاب انسانوں کے ذہن سے فراموش ہوئی یا منسوخ قرار پائی تو دوسری کتاب اس جیسی یا اس سے بہتر نازل ہوگئی ۔ اور الله کے بندے ہدایت سے محروم نہ رکھے گئے ۔
اس آیت میں ایک اور اہم مسئلے پر روشنی ڈالی گئی 
یہودی مسلمانوں کے دلوں میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور قرآن مجید کے بارے میں طرح طرح کے شک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ۔ اور انہیں کہتے کہ انہیں دور کرنے کے لئے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم سے جواب معلوم کرو ۔ دراصل ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اگر مسلمان ہمارے مذہب کو قبول نہیں کرتے تو کم از کم وہ اپنے دین ہی سے بد دل ہو جائیں گے اور اپنی مذہبی تعلیمات سے بدگمان ہو جائیں گے ۔ بعض مسلمان ان کی اس سازش اور چال سے بے خبر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے آکر بے مقصد سوال کرتے ۔ الله تعالی نے انہیں اس چیز سے منع فرمادیا ۔ 
یعنی یہودیوں کی باتوں پر ہرگز اعتماد نہ کرو ۔ جس کسی کو یہودیوں کے شک  ڈالنے سے دین میں شبہ پیدا ہوگیا  اس کا ایمان جاتا رہا ۔
 اور یہودیوں کے کہنے میں آکر تم اپنے نبی کے پاس شبہے نہ لاؤ جیسے وہ اپنے نبی کے پاس لے کر جاتے تھے 
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے سوال کرنے کی ممانعت ایک اور مقصد سے بھی ہوئی ہے ۔ بار بار سوال کرنے سے انسان اپنے اوپر خود پابندی اور مشکلات کے اضافہ  کا سبب بنتا ہے ۔ آسان حکم مشکل ہو جاتے ہیں ۔ جن باتوں میں آزادی ہوتی ہے ۔ حکم آنے سے ان باتوں میں بھی پابندی لگ جاتی ہے ۔ یہودیوں کے ساتھ یہی ہوا تھا  ۔ گائے کا واقعہ بطورِ مثال ہمارے سامنے موجود ہے ۔ 
اور آج بھی کفار طرح طرح سے کم علم  مسلمانوں کو دین کے معاملات میں شک اور شبہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ اس معاملے میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔جب تک حقیقی مسلمان علماء سے مسئلہ کا صحیح جواب معلوم نہ ہو جائے اس وقت تک اس میں شک کرنا بھی منع ہے ۔ چہ جائیکہ کہ اس پر فضول بحث و مباحثہ شروع کر دیا جائے ۔
الله رحیم و کریم ہمیں ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ رکھے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*آیات کی تنسیخ*

مَا ۔۔۔۔۔۔۔  نَنسَخْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِنْ آيَةٍ ۔۔۔۔۔ أَوْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نُنسِهَا
جو ۔۔۔ ہم منسوخ کر دیتے ہیں ۔۔۔ آیت سے ۔۔۔ یا ۔۔ ہم بُھلا دیتے ہیں 
 نَأْتِ ۔۔۔۔۔۔۔ بِخَيْرٍ ۔۔۔۔۔ مِّنْهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَوْ مِثْلِهَا 
ہم لے آتے ہیں ۔۔۔ بہتر ۔۔۔ اس سے ۔۔۔ یا اس جیسا 
أَلَمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تَعْلَمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَنَّ ۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔۔ عَلَى 
کیا نہیں ۔۔۔ تم جانتے ۔۔۔ بے شک ۔۔۔ الله تعالی  ۔۔۔ پر 
كُلِّ ۔۔۔ شَيْءٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَدِيرٌ۔ 1️⃣0️⃣6️⃣
ہر ۔۔۔ چیز ۔۔ قدرت رکھنے والا ہے 
أَلَمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تَعْلَمْ ۔۔۔۔۔۔ أَنَّ ۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَهُ
کیا نہیں ۔۔۔ تم جانتے ۔۔ بے شک ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اس کے لئے 
مُلْكُ ۔۔۔ ۔ السَّمَاوَاتِ ۔۔۔ وَالْأَرْضِ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ لَكُم
بادشاہی ۔۔۔ آسمانوں ۔۔۔ اور زمین ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔ تمہارے لئے 
مِّن ۔۔ دُونِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ مِن ۔۔۔ وَلِيٍّ ۔۔۔ وَلَا ۔۔۔نَصِيرٍ.   1️⃣0️⃣7️⃣
سے ۔۔۔ سوا ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ دوست ۔۔ اور نہ مددگار 

مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.   1️⃣0️⃣6️⃣
ہم جو آیات منسوخ کر دیتے ہیں یا بُھلا دیتے ہیں ۔ تو اس سے بہتر یا اس کے برابر بھیج دیتے ہیں  کیا تمہیں معلوم نہیں کہ الله تعالی ہر چیز پر قادر ہے ۔

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ. 1️⃣0️⃣7️⃣
کیا تمہیں معلوم نہیں کہ  آسمانوں اور زمین کی سلطنت الله تعالی ہی کے لئے ہے اور تمہارے لئے الله تعالی کے سوا کوئی حمایتی ہے نہ کوئی مددگار 

مَا نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ ۔ ( جو آیت ہم منسوخ کرتے ہیں ) ۔ اس جملے میں دو لفظ قابل غور ہیں ۔ ایک آیت دوسرے نسخ ( بدلنا ) ۔ آیت کے لفظی معنی نشانی کے ہیں ۔ اور اس سے مراد کئی چیزیں لی جاتی ہیں  مثلا معجزہ  جو الله تعالی کی قدرت اور نبی کی نبوت کا نشان ہوتا ہے ۔ حکم الٰہی اور قرآن حکیم کی آئتیں ( گول گول  نشان وغیرہ ) ۔
نَنْسَخ ( ہم منسوخ کرتے ہیں ) ۔ یعنی ایک حکم کی جگہ دوسرا حکم دیتے ہیں ۔ پہلے حکم کو ختم کرکے دوسرا حکم جاری کرتے ہیں ۔ جہاں تک معجزےکے بدلنے  کا تعلق ہے تو یہ عام بات ہے کہ ایک معجزے کو منسوخ کرکے دوسرا معجزہ الله تعالی دے سکتا ہے ۔ جسے وہ بدلے ہوئے زمانے کے مطابق پہلے سے زیادہ موزوں سمجھتا ہو ۔
 جہاں تک دوسرے معنی کا تعلق ہے اس میں مزید دو باتیں نکلتی ہیں 
ایک تو پہلی آسمانی کتابوں کی آیات ۔۔۔ اور دوسرے خود قرآن مجید کی آیات 
سابقہ آسمانی کتابوں کا قرآن مجید کے آجانے کے بعد منسوخ ہو جانا تو بالکل کُھلی ہوئی بات ہے ۔
قرآن مجید کی آیات پر گول گول نشانات بعد کے زمانے میں لگائے گئے ۔ شروع میں یہ نشان موجود نہ تھے ۔ لہذا ان کے منسوخ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ بلکہ صحیح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیات کے منسوخ ہونے مراد یہ ہے کہ الله تعالی کے پہلے احکام اور قدیم کتابوں کی جگہ نئےاور جدید  احکام آگئے ۔ اور یہ احکام پہلے حکموں کو منسوخ کرتے ہیں ۔
یہ بھی یہودیوں کا طعنہ تھا کہ وہ مسلمانوں سے کہتے کہ تمہاری کتاب میں بعض آیات کا حکم منسوخ ہو جاتا ہے ۔ اگر یہ کتاب الله تعالی کی طرف سے ہوتی تو جس عیب کی وجہ سے اب حکم منسوخ ہوا ۔ کیا الله تعالی کو اس خرابی کا علم پہلے سے نہ تھا ۔ 
الله جل جلالہ نے فرمایا کہ خرابی یا عیب نہ پہلی بات میں تھا نہ پچھلی میں   ۔ لیکن حاکم مناسب وقت دیکھ کر جو چاہے حکم کرے ۔ اُس وقت وہ حکم مناسب تھا اور اب دوسرا حکم مناسب ہے ۔ 
الله جل شانہ کی قدرت اور ملکیت و حاکمیت سب پر ہے ۔ اپنے بندوں کے لئے اعلٰی درجہ کی مہربانی اور عنایت ، نیک و صالح اعمال پر بہترین اجر و منافع اس کے سوا اور کس کے پاس ہو سکتا ہے ۔ الله تعالی کے سوا کون ہے جو اپنے بندوں کا بہترین دوست اور مددگار و خیر خواہ ہوسکتا ہے ۔ بے شک الله جل شانہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*کفار کا تعصب*

مَّايَوَدُّ ۔۔۔ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ كَفَرُوا ۔۔۔ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ
نہیں چاہتے ۔۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ کافر ۔۔ اہل کتاب سے 
  وَلَا الْمُشْرِكِينَ ۔۔۔۔ أَن ۔۔۔۔۔۔۔ يُنَزَّلَ ۔۔۔۔۔۔ عَلَيکُمْ
اور نہ مشرکین ۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔ اتاری جائے ۔۔۔ تم پر 
مِّنْ خَيْرٍ ۔۔۔ مِّن ۔۔۔۔۔۔۔۔ رَّبِّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَاللَّهُ 
کوئی بھلائی ۔۔۔ سے ۔۔۔ تمہارا رب ۔۔۔ اور الله تعالی  
يَخْتَصُ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ بِرَحْمَتِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ يَشَاءُ 
وہ خاص کرتا ہے ۔۔۔ اپنی رحمت سے ۔۔۔ سے ۔۔ وہ چاہتا ہے 
 وَاللَّهُ ۔۔۔  ذُو الْفَضْلِ ۔۔۔ الْعَظِيمِ۔ 1️⃣0️⃣5️⃣
اور الله تعالی ۔۔۔ فضل والا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بڑا 

مَّا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ
 وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ۔ 1️⃣0️⃣5️⃣

اہل کتاب میں سے جو لوگ کافر ہوئے نہیں  پسند کرتے اور نہ مشرکوں میں سے اس بات کو کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی کی بات اترے  اور الله تعالی خاص کر لیتا ہے اپنی رحمت سے جس کو چاہے اور الله تعالی بڑے فضل والا ہے ۔

اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ۔۔ ( جن لوگوں نے کفر کیا ) ۔ یہ لفظ کفر سے بنا ہے ۔ کفر کا مطلب چھپانا ہے ۔ اور اسلام کی اصطلاح میں الله جل شانہ اور رسول صلی الله علیہ وسلم کے منکر کو کافر کہا جاتا ہے ۔ 
اَھْلُ الْکِتَابِ ۔( کتاب والے ) ۔ یہ اصطلاح قرآن مجید میں کئی بار استعمال ہوئی ہے ۔ اہل کتاب ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کے پاس کوئی الہامی اور آسمانی کتاب موجود ہو ۔ اہل کتاب میں مشہور ترین یہودی اور عیسائی ہیں ۔ جن کے پاس توریت اور انجیل الہامی کتابیں ہیں ۔ افسوس یہ دونوں گروہ آہستہ آہستہ ان کتابوں کی تعلیمات سے دُور بھٹک گئے ۔ 
اَلْمُشْرِکِیْنَ  ( مشرک ) ۔ یہ لفظ شرک سے بنا ہے ۔ مشرک اس شخص کو کہا جاتا ہے جو الله تعالی کی ذات یا اس کی صفات میں یا اس کی قوت اور حکموں میں کسی اور کو شریک ٹھرائے ۔ الله واحد کے سوا کسی اور کو معبود بنائے ۔ 
اس آیت میں الله جل شانہ نے بتایا ہے کہ تمام کافر ، مشرک اور اہل کتاب اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ الله تعالی ہمیں چھوڑ کر مسلمانوں پر برکتیں اور نعمتیں کیوں نازل کرتا ہے ۔ اور کفار یعنی یہودی اور مشرکینِ مکہ اس بات کو قطعا پسند نہیں کرتے کہ تم پر قرآن مجید جیسی عظیم نعمت نازل ہو ۔ بلکہ یہودیوں کی شدید خواہش تھی کہ نبی آخر الزماں بنی اسرائیل میں پیدا ہو اور مشرکین مکہ چاہتے تھے کہ ہماری قوم میں ہو ۔ مگر یہ تو الله تعالی کے فضل کی بات ہے کہ اُمّی لوگوں میں نبی آخر الزماں کو پیدا فرمایا ۔
پھر فرمایا کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل کے لئے چُن لیتا ہے ۔ اس لئے کسی کو کسی سے حسد نہیں کرنا چاہئیے ۔ اور جن قوموں کو نبوت نہیں عطا ہوئی اس کا مطلب یہ نہیں کہ الله تعالی نعوذ بالله بخیل ہے ۔ بلکہ خود ان قوموں کے اعمال کی وجہ سے وہ اس نعمت سے محروم کر دئیے گئے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*الفاظ کا غلط استعمال*

يَا أَيُّهَا ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔ ۔لَا تَقُولُوا 
اے ۔۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ ایمان لائے ۔۔ نہ تم کہو 
رَاعِنَا ۔۔۔۔۔۔ ۔ وَقُولُوا ۔۔۔ انظُرْنَا ۔۔۔۔ وَاسْمَعُوا 
راعنا ۔۔۔ اور تم کہو ۔۔۔ انظرنا ۔۔ اور تم سنو 
وَلِلْكَافِرِينَ ۔۔۔ عَذَابٌ ۔۔۔۔أَلِيمٌ۔ 1️⃣0️⃣4️⃣
اور کافروں کے لئے ۔۔۔  عذاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ دردناک 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ.  1️⃣0️⃣4️⃣

اے ایمان والو  "راعنا" نہ کہو  اور "۔ انظرنا " کہو اور سنتے رہو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ 

رَاعِنَا ۔ ( راعنا) ۔ اس کا مطلب ہے ہماری طرف متوجہ ہوں اور ہماری رعایت کرویں ۔ 
اُنْظُرْنَا ۔ ( ہمیں دیکھیں ) ۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے ہماری طرف متوجہ ہو ں ۔ یہودی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوتے ۔ اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی وعظ و نصیحت سنتے ۔ اگر کوئی بات نہ سُن سکتے اور دوبارہ پوچھنا چاہتے تو  " راعنا " کہتے ۔ 
ان سے یہ کلمہ سُن کر مسلمان بھی کہہ دیتے ۔ الله تعالی نے انہیں منع فرمایا کہ یہ لفظ نہ کہو ۔ اگر کہنا ہو تو اُنظرنا " کہو  یہودی دراصل لفظ راعنا"  بد نیتی اور مسخرے پن سے کہتے تھے ۔ وہ اس لفظ میں زیر۔ ذرا بڑھا کر کہتے تھے اور یہ لفظ راعینا " ہو جاتا ۔ ( یعنی ہمارا چرواہا ) اور یہود کی زبان میں لفظ رَاعِنَا "  " احمق کو بھی کہتے ہیں ۔ 
الله جل شانہ نے مسلمانوں کو اس کلمہ کے ادا کرنے سے منع فرما دیا ۔ اور ارشاد فرمایا کہ اس کی جگہ۔ اُنظُرنا " بولا کرو ۔ جس کے معنی ہیں ہم پر نظر کیجئے ۔ اس لفظ میں مذمت اور تمسخر کا پہلو نہیں پایا جاتا ۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم ہے ۔ اِسْمَعُوْا "  یعنی غور سے سنا کرو ۔ تاکہ دوبارہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ 
اِسْمَعُوْا " کے حکم سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی باتوں اور نصیحتوں کو غور سے سننا چاہئیے ۔اس لئے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انسانی ہدایت کے لئے فقط قرآن مجید کافی ہے ۔ انہیں خود قرآن مجید سے سبق حاصل کرنا چاہئیے ۔ اور دیکھنا چاہئیے کہ اس آیت میں اور دیگر آیات میں آپ کے ارشادات سننے اور  ماننے پر کتنا زور دیا گیا ہے ۔
ایک اور آیت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا فیصلہ ہر امر میں تمہارے لئے قطعی اور آخری فیصلہ ہے ۔ ( سورہ نساء ) ۔ اس سورۃ میں اس سے قبل ارشاد ہے کہ الله تعالی اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت اور تم میں سے جو لوگ فیصلہ کرنے کی لیاقت رکھتے ہیں ان کی اطاعت کرو 
آخر میں الله تعالی نے فرمایا کہ جو لوگ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تضحیک کرکے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو بُرے کلموں سے خطاب کرکے بے ادبی کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ۔ وہ کافر ہیں ۔  ان کی سزا کے لئے الله جل جلالہ نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ 

*گھاٹے والا سودا*

وَمَا ۔۔۔۔ هُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ بِضَارِّينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ بِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔مِنْ أَحَدٍ 
اور نہیں ۔۔۔ وہ ۔۔ نقصان پہنچانے والے ۔۔۔ اس سے ۔۔۔ کسی ایک کو 
إِلَّا ۔۔ ۔۔بِإِذْنِ ۔۔۔اللَّهِ ۔۔۔۔ ۔۔۔ وَيَتَعَلَّمُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ مَا 
مگر ۔۔۔ حکم ۔۔۔ الله ۔۔۔ اور وہ سیکھتے تھے ۔۔۔ جو 
يَضُرُّهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وَلَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  يَنفَعُهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَلَقَدْ
نقصان پہنچاتا تھا اُن کو ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔ وہ نفع دیتا تھا اُن کو ۔۔۔ اور البتہ تحقیق 
عَلِمُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ لَمَنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اشْتَرَاهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ مَا لَهُ
جان لیا انہوں نے ۔۔۔ جس شخص نے ۔۔۔ اختیار کیا اس کو ۔۔۔ نہیں ہے اس کے لئے 
فِي الْآخِرَةِ ۔۔۔۔ مِنْ ۔۔۔۔۔ خَلَاقٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وَلَبِئْسَ
آخرت میں ۔۔۔ سے ۔۔۔ حصہ ۔۔۔ اور البتہ بُرا ہے 
مَا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ شَرَوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ بِهِ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  أَنفُسَهُمْ
جو ۔۔۔ بیچا انہوں نے ۔۔۔ بدلے اس کے ۔۔۔ اپنی جانوں کو 
لَوْ ۔۔  كَانُوا ۔۔  يَعْلَمُونَ.  1️⃣0️⃣2️⃣
کاش ۔۔۔ وہ ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جانتے 
وَلَوْ ۔۔۔۔۔ ۔۔ أَنَّهُمْ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وَاتَّقَوْا
اور اگر ۔۔۔ بے شک وہ ۔۔۔ ایمان لاتے ۔۔۔ اور ڈرتے 
لَمَثُوبَةٌ ۔۔۔ ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔۔۔ ۔۔ عِندِ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ خَيْرٌ
تو ٹھکانہ ہوتا ۔۔۔ سے ۔۔ الله تعالی کے پاس ۔۔۔ بہتر 
لَّوْ ۔۔۔ كَانُوا ۔۔۔ يَعْلَمُونَ.  1️⃣0️⃣3️⃣
کاش ۔۔ وہ ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وہ جانتے 


وَمَا هُم بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ۔ 1️⃣0️⃣2️⃣
وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ خَيْرٌ لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ.  1️⃣0️⃣3️⃣

اور وہ اس سے کسی کا نقصان نہیں کر سکتے الله تعالی کے حکم کے بغیر اور وہ وہ چیز سیکھتے ہیں جو ان کونقصان پہنچاتی ہے اور ان کو فائدہ نہیں دیتی  اور تحقیق وہ خوب جان چکے ہیں کہ جس نے یہ اختیار کیا اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس کے بدلے انہوں نے اپنے آپ کو بیچا   وہ بہت بُری ہے کاش ان کو سمجھ ہوتی 
اور اگر وہ ایمان لاتے اور تقوٰی اختیار کرتے تو الله تعالی کے پاس بہتر بدلہ پاتے ۔ کاش کہ وہ جانتے 

آیت کے اس حصے میں الله تعالی نے جادو اور سفلی عملیات کی اصل حقیقت کھول کر بیان کر دی ہے ۔ اور اس کا انجام بھی بتایا ہے ۔ اگرچہ وہ دوسروں کے نقصان کے لئے جادو کرتے تھے ۔ لیکن الله جل شانہ فرماتا ہے کہ وہ ہمارے حکم کے بغیر کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ بلکہ اس سے خود ان ہی کا نقصان ہوتا ہے ۔ ان بُرے اعمال میں پھنس کر وہ اپنی آخرت برباد کر رہے ہیں ۔ ممکن ہے وہ دنیا کے کچھ عارضی فائدے حاصل کر لیں ۔ لیکن آخرت میں ان کے لئے کوئی نعمت نہیں ۔ 
یہودی اپنا دین اور کتاب کا علم چھوڑ کر جادو ٹونے اور سحر کے پیچھے لگ گئے ۔ یہ جادو لوگوں میں دو طریقوں سے پھیلا ۔ 
اول ۔۔ تو یہ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں کیونکہ جنّات اور انسان اکٹھے رہتے تھے تو انسانوں نے شیطان جنوں سے جادو سیکھا ۔ اور اس کی نسبت حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف کر دی کہ  ہمیں تو جادو کا علم حضرت سلیمان سے حاصل ہوا ہے کیونکہ ان کی انسانوں اور جنّوں پر حکومت اسی جادو کی وجہ سے تھی ۔ 
تو الله جل شانہ نے فرما دیا کہ  یہ کفر کا کام سلیمان علیہ السلام کا نہیں ہے ۔ 
دوم ۔۔ جادو پھیلا ہاروت اور ماروت کے ذریعے سے جو دو فرشتے تھے ۔ بابل شہر میں انسانی شکل میں رہتے تھے ۔ ان کو علمِ سحر سے آگاہی تھی ۔ جب کوئی ان کے پاس جادو سیکھنے کے لئے آتا تو وہ اس کو منع کرتے ۔ اور کہتے کہ جادو سیکھنے سے ایمان جاتا رہے گا ۔ اگر وہ پھر بھی باز نہ آتا تو اسے سکھا دیتے ۔ الله تعالی ان کے ذریعے سے بندوں کو آزماتا تھا ۔ 
الله تعالی فرماتا کہ ایسے علموں سے آخرت میں کچھ نفع نہیں بلکہ سراسر نقصان ہے ۔ اور دنیا میں بھی تکلیف کا سبب ہے ۔ان لوگوں نے ایک معمولی سی چیز کے بدلے اپنے آپ کو اور اپنی آخرت کو قربان کر دیا ۔ اگر اس روش کے بجائے وہ نیکی کی راہ اختیار کرتے ۔ علم دین اور علم کتاب سیکھتے  الله جل شانہ پر ایمان لاتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے تو یقینا الله کریم انہیں بہتر اجر دیتا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*سفلی عملیات کی خرابیاں*

وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُعَلِّمَانِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِنْ أَحَدٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ حَتَّى 
اور نہیں ۔۔۔ وہ دونوں سکھاتے تھے ۔۔۔ کسی ایک کو ۔۔ یہاں تک 
يَقُولَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِنَّمَا ۔۔۔ نَحْنُ ۔۔۔۔۔۔۔ فِتْنَةٌ 
وہ دونوں کہتے تھے ۔۔۔ بے شک ۔۔۔۔۔ ہم ۔۔۔ آزمائش 
فَلَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تَكْفُرْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَيَتَعَلَّمُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ مِنْهُمَا 
پس نہ ۔۔۔ تم کفر کرو ۔۔۔ پس وہ سیکھتے تھے ۔۔۔ اُن دونوں سے 
مَا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ يُفَرِّقُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ بِهِ ۔۔۔۔ ۔۔ بَيْنَ ۔۔۔۔۔ ۔۔الْمَرْءِ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ وَزَوْجِهِ 
جو ۔۔ وہ تفرقہ ڈالتے تھے ۔۔۔ اس سے ۔۔۔ درمیان ۔۔ آدمی ۔۔۔ اس کی بیوی 

وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ 

اور وہ دونوں کسی کو ( جادو ) نہیں سکھاتے تھے جب تک وہ دونوں یہاں تک نہ کہہ دیتے کہ ہم تو آزمائش کے لئے ہیں  تم کافر نہ ہو ۔ پھر وہ اُن سے وہ جادو سیکھتے تھے جس سے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی ڈالتے تھے ۔ 

یُعَلِّمَانِ ۔ ( وہ دونوں سکھاتے تھے ) ۔ یہ لفظ تعلیم سے ہے ۔ اس کے معنی سکھانے اور درس دینے کے ہیں ۔ لیکن یہاں یہ لفظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوا ۔ کہ فرشتے لوگوں کو جادو سکھاتے تھے بلکہ یہاں تعلیم کے معنی جتلانے اور بتانے کے ہیں ۔
فِتْنَۃٌ ۔ ( آزمائش ) ۔ فتنہ کے معنی خرابی ، فساد اور ابتری کے علاوہ امتحان اور آزمائش کے بھی ہوتے ہیں ۔ یہاں آزمائش کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے ۔
یَتَعَلّمُونَ ۔ ( وہ سیکھتے تھے  ) ۔ یہ لفظ تعلّم سے ہے جس کا مطلب سیکھنا ہے ۔
بابل شہر کے بعض فساد پسند لوگ ان فرشتوں کے پاس آئے ۔ اور ان سے کہا کہ آپ جادو اور سفلی عملیات سے روکتے ہیں ۔ لیکن یہ تو بتائیے جادو کہتے کسے ہیں ؟  اور وہ کون سے اعمال ہیں جن میں جادو سے کام لینا یا فائدہ اٹھانا کفر ہے ۔ 
جب وہ فرشتے انہیں جادو کے بارے میں کچھ بتاتے اور ساتھ اعمال و اقوال بھی سناتے تو یہ فسادی لوگ انہیں پلے سے باندھ لیتے ۔ اور فن کے طور پر استعمال کرتے حالانکہ جب ان فرشتوں کے پاس کوئی علم سیکھنے کے لئے آتا تو وہ پہلے اسے روکتے کہ اس سے ایمان جاتا رہے گا ۔ اس پر بھی وہ باز نہ آتا تو اس کو سکھا دیتے ۔ الله تعالی کو اُن کے ذریعے سے بندوں کی آزمائش منظور تھی ۔ 
الله تعالی یہودیوں کی اس شرارت کے بارے میں مزید یہ بات بھی بتاتا ہے کہ وہ لوگ سفلی عملیات اور جادو میں زیادہ اُن عملوں کو آزماتے جن کی مدد سے میاں بیوی کے درمیان جھگڑا اور اختلاف پیدا ہو ۔ حالانکہ ایسا کرنا بد ترین کام ہے ۔ کہ دو دلوں میں اختلاف پیدا کرایا جائے ۔ اور خاص طور پر میاں بیوی میں جھگڑا پیدا کرنا بد ترین فعل ہے ۔ کیونکہ اس سے پورے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے ۔ 
ہاروت اور ماروت کی یہ تنبیہ کافی ہونی چاہئیے تھی کہ وہ اپنے آپ کو آزمائش بتاتے تھے ۔ اور یہود کو کفر و سرکشی سے باز رکھنے کی کوشش کرتے تھے ۔ لیکن انہوں نے کوئی عبرت حاصل نہ کی ۔ ان کی تنبیہ پر کان نہ دھرے ۔ بلکہ سرکشی اور شیطینیت میں لگے رہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*ہاروت اور ماروت*

وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔ أُنزِلَ ۔۔۔ عَلَى ۔۔۔۔۔۔ الْمَلَكَيْنِ 
اور جو ۔۔۔ اتارا گیا ۔۔۔ پر ۔۔۔ دو فرشتے 
بِبَابِلَ ۔۔۔۔۔۔ هَارُوتَ ۔۔۔۔۔۔وَمَارُوتَ
بابل میں ۔۔۔ ھاروت ۔۔۔ اور ماروت 

وَمَا أُنزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ

( اور اس علم کے پیچھے ہو لئے ) جو دو فرشتوں پر اترا بابل شہر میں ہاروت اور ماروت پر ۔ 
 
اَلْمَلَکَیْن  ( دو فرشتے ) ۔ یہ دو فرشتے جن کے نام ہاروت اور ماروت ہیں اصل میں فرشتے تھے ۔ کیونکہ الله تعالی نے انہیں ایک خاص غرض کے لئے بھیجا تھا کہ وہ جا کر لوگوں کو سفلی عملیات اور جادو جیسی حرکتوں سے روکیں ۔ ان فرشتوں کو انسانوں میں رہنا تھا اس لئے ان کی شکل و صورت رنگ روپ ، عادتیں اور جذبات انسانوں جیسے ہی تھے ۔ 
بَابَل ( بابل ) ۔ عراق عرب کا قدیم نام ہے ۔ اس زمانے میں ملک کے دار الخلافہ کا نام بھی بابل تھا ۔ یہ شہر موجودہ بغداد سے کوئی ساٹھ میل جنوب کی طرف دریائے فرات کے کنارے واقع ہے ۔  یہ شہر بہت بڑا ، انتہائی خوشحال اور ترقی یافتہ تھا ۔ دجلہ اور فرات دو مشہور دریا اس کے علاقے کو سیراب کرتے تھے ۔ یہ ملک خاص اس طور پر بھی مشہور تھا کہ یہاں جادو منتر اور سفلی عملیات کا بہت چرچا تھا 
یہودی ایک تو اس جادو کے علم کی پیروی کرتے تھے ۔ جو سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں خبیث النفس اور شریروں نے جاری کر رکھا تھا اور دوسرے اس علم کی بھی پیروی کرتے تھے جو ملک بابل میں دو فرشتوں کو دیا گیا تھا ۔ ان فرشتوں کو یہ علم صرف اس لئے دیا گیا تھا کہ وہ لوگوں کے حالات کی اصلاح اور درستی کریں ۔ اور انہیں اس علم کے برے پہلوؤں سے واقف کریں ۔ لیکن یہودی یہ علم بُرے فائدے اٹھانے کی خاطر سیکھتے اور سکھاتے تھے ۔ 
سحر ( جادو ) ۔ یہ لفظ اسی آیت کے ابتدائی حصے میں آیا ہے ۔ عربی زبان میں سحر دھوکے کو کہتے ہیں ۔ یعنی ایسی بات جس سے انسان کی نگاہ دھوکا کھا جائے ۔ حقیقت کچھ اور ہو ۔ اور ظاہر کچھ اور ہو ۔ 
معجزہ اور سحر میں دوسری باتوں کے علاوہ بڑا فرق یہ ہے کہ معجزہ میں ماہئیت بدل جاتی ہے ۔ لیکن سحر یعنی جادو میں حقیقت نہیں بدلتی ۔ صرف نظر دھوکا کھا جاتی ہے ۔ 
اسلام نے جادو کو حرام قرار دیا ہے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ جادوگر مشرکانہ جملے استعمال کرتے ہیں ۔ ناجائز ذرائع اختیار کرتے ہیں ۔ اور جادو بُرے کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ بھلا کوئی نبی اور الله کے فرشتے ایسے کام کیونکر کر سکتے ہیں 


*سحر یعنی جادو کی حقیقت*

سحر یا جادو ہر اس عمل کو کہتے ہیں جس کی وجہ واضح نہ ہو  
 خواہ وہ وجہ معنوی ہو جیسے خاص خاص کلمات کا اثر 
یا غیر محسوس چیزوں کا ہونا ہو ۔۔۔ جیسے جنات یا شیاطین  کا اثر 
یا مسمریزم میں قوت خیالی کا اثر 
یا محسوسات کا اثر ہو خواہ وہ محسوسات چھپے ہوئے ہوں  جیسے مقناطیس کا اثر لوہے کے لئے ۔ 
جبکہ مقناطیس نظروں سے پوشیدہ ہو ۔
یا دواؤں کا اثر جب کہ وہ دوائیں ظاہر نہ ہوں پوشیدہ ہوں 
یا نجوم و ستارے ، سیارے وغیرہ کا اثر 
اسی لئے جادو کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ لیکن عام طور پر جادو ان چیزوں کو کہا جاتا ہے جن میں جنات اور شیطانوں وغیرہ کا عمل دخل ہو ۔ یا خیال کی قوت ٹیلی پیتھی ۔ مسمریزم ۔ یا پھر کچھ الفاظ و کلمات کا ۔ یا ایسی تاثیرات جو انسانی بالوں ، ناخنوں وغیرہ اعضا یا استعمال شدہ کپڑوں کے ساتھ دوسری چیزیں شامل کر کے پیدا کی جاتی ہیں ۔ جن کو ٹونہ ٹوٹکا کہا جاتا ہے اور جادو میں شامل سمجھا جاتا ہے ۔
کیونکہ یہ بات عقلا بھی ثابت ہے اور تجربہ اور مشاہدہ سے بھی ثابت ہے ۔ 
اور قرآن و سنت کی اصطلاح میں ہر ایسے عجیب کام کو جادو کہا جاتا ہے جس میں شیاطین کو خوش کرکے ان کی مدد حاصل کی جائے ۔
پھر شیطان کو راضی کرنے کے مختلف طریقے ہیں ۔ 
کبھی ایسے منتر اختیار کئے جاتے ہیں جن میں کفر و شرک کے کلمات ہوں ۔ اور شیطان کی تعریف ہو 
یا ستارے ، سیاروں کی عبادت اختیار کرے جن سے شیطان خوش ہوتا ہے ۔ 
کبھی ایسے اعمال کئے جاتے ہیں جو شیطان کو پسند ہیں ۔ مثلا کسی کا ناحق قتل کرکے اس کا خون استعمال کرنا ۔ جنابت و نجاست کی حالت میں رہنا ۔ پاکیزگی سے اجتناب کرنا ۔
اور جادو یا سحر اُن لوگوں کا ہی کامیاب ہوتا ہے جو گندے اور نجس رہیں ۔ پاکی اور الله تعالی کے نام سے دور رہیں ۔ خبیث کاموں کے عادی ہوں ۔ 
*جادو کی اقسام*
امام راغب اصفہانی مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ سحر کی مختلف اقسام ہیں ۔ 
📌
ایک قسم تو محض نظر بندی اور تخیل ہوتی ہے جس کی کوئی حقیقت اصلی نہیں جیسے بعض شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی چالاکی سے ایسے کام کر لیتے ہیں کہ عام لوگوں کی نظریں اس کو دیکھ نہیں پاتی ۔ 
خیالی قوت یا مسمریزم ، ٹیلی پیتھی سے کسی کے دماغ پر ایسا اثر ڈالا جائے کہ وہ ایک چیز کو آنکھوں سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے مگر حقیقت میں اس چیز کا کوئی وجود نہیں ہوتا
فرعون کے جادوگروں کا جادو یہی تھا 

جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے
سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ 
اعراف ۔۔ ۱۱۶ 
انھوں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کر دیا 
اور فرمایا ۔۔۔ 
يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِن سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَى
طٰہٰ ۔ ۶۶ 
 تو یکایک انکی رسیاں اور لاٹھیاں موسٰی علیہ السلام کے خیال میں ایسی آنے لگیں کہ وہ میدان میں ادھر ادھر دوڑ رہی ہیں۔
 
اس میں  یخیُّل کے لفظ سے بتا دیا گیا کہ رسیاں اور لاٹھیاں جو ساحروں نے ڈالی تھیں نہ درحقیقت سانپ بنی اور نہ انہوں نے حرکت کی ۔ بلکہ لوگ اور حضرت موسی علیہ السلام کی قوت متخیلہ متاثر ہو کر انہیں دوڑنے والے سانپ سمجھنے لگی ۔ 
📌 
چنانچہ دوسری قسم اس طرح کے اثرات ہیں جو شیاطین کی وجہ سے ہوتے ہیں اور ان میں شیطان کا پورا عمل دخل ہوتا ہے 

جیسا کہ قرآن مجید میں الله کریم کا ارشاد ہے ۔

هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَى مَن تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ
تَنَزَّلُ عَلَى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ
الشعراء ۔ ۱۲۱-۱۲۲ 
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان یعنی جنات کس پر اترتے ہیں۔
وہ ہر جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں
اور فرمایا 
وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ 
بقرہ ۔۱۰۲ 
 بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے
📌
*سحر اور معجزے میں فرق* 
جادو اور معجزے میں فرق ایک تو حقیقت کے اعتبار سے ہے کہ جادو یا سحر سے جو چیزیں یا باتیں واقع ہوتی ہیں وہ دائرہ اسباب سے الگ کوئی چیز نہیں ۔ بس یہ کہ ان کے اسباب چھپے رہتے ہیں اسی لئے عوام اس کا سبب نہ جاننے کی وجہ سے حیران ہوتے ہیں ۔ اور اسے عادت کے خلاف اور انوکھی چیز سمجھتے ہیں ۔
مثلا ایک خط مشرقِ بعید سے آج کا لکھا ہوا اچانک سامنے آکر گر جائے تو حیرت ہوگی ۔ حالانکہ جنوں اور شیاطین کو اس بات کی طاقت دی گئی ہے 
اس کے برعکس معجزے میں اصل حق تعالی کا فعل ہوتا ہے اور اسباب کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔
مثلا ۔۔ ابراھیم علیہ السلام کے لئے نمرود کی  آگ کو الله تعالی نے حکم دیا کہ ٹھنڈی اور سلامتی والی ہو جا ۔ پس حکم الہی سے آگ ٹھنڈی ہو گئی ۔ 
آج بھی بعض لوگ بدن پر کچھ دوائیں وغیرہ استعمال کرکے آگ کے اندر چلے جاتے ہیں ۔ وہ معجزہ نہیں بلکہ دواؤں کا اثر ہوتا ہے ۔ اور لوگوں کو علم نہ ہونے کی وجہ سے دھوکا  خرقِ عادت کا ہوتا ہے 
جیسا کہ قرآن مجید میں الله جل شانہ نے فرمایا 

وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى 
کنکریوں کی مٹھی جو آپ نے پھینکی ۔ درحقیقت آپ نے نہیں پھینکی بلکہ الله تعالی نے پھینکی ۔

اور یہ ایک مٹھی خاک تمام مجمع کی آنکھوں میں پہنچ جانا خالص حق تعالی کا فعل ہے ۔ یہ معجزہ غزوہ بدر میں پیش آیا 
اب یہ تو ظاہر ہوگیا کہ معجزہ بغیر اسباب کے الله تعالی کی طرف سے واقع ہوتا ہے ۔ اور جادو کے اسباب موجود ہوتے ہیں اگرچہ وہ نگاہوں سے پوشیدہ ہوں ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کو پہچانا کیسے جائے ۔ 
اول یہ کہ معجزہ یا کرامت ایسے شخص سے ظاہر ہوتی ہے جو متقی ، پرھیز گار ، پابند شریعت و سنت اور پاک صاف ہو ۔
اور جادو کا اثر صرف ان لوگوں سے ظاہر ہوتا ہے جو گندے ، ناپاک ، الله کے نام سے دور اور اس کی عبادت سے کوسوں پرے رہتے ہیں ۔ 
استفادہ ۔۔۔ معارف القرآن 
مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله 



*کتاب الله کی مخالفت*

وَلَمَّا ۔۔۔۔۔۔۔ جَاءَهُمْ ۔۔۔۔ ۔۔۔ رَسُولٌ ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  عِندِ اللَّهِ 
اور جب ۔۔۔ آیاان کے پاس ۔۔۔ رسول ۔۔ سے ۔۔۔ الله کی طرف 
مُصَدِّقٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔۔ مَعَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    نَبَذَ
تصدیق کرنے والا ۔۔۔ اس کی جو ۔۔۔ پاس ہے ان کے ۔۔۔ پھینک دیا اس نے 
فَرِيقٌ ۔۔۔۔ ۔ مِّنَ ۔۔۔ ۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔ ۔ أُوتُوا ۔۔۔۔۔۔۔  الْكِتَابَ
ایک جماعت ۔۔۔ سے ۔۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ وہ دئیے گئے ۔۔۔ کتاب 
كِتَابَ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَرَاءَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظُهُورِهِمْ
الله تعالی کی کتاب ۔۔۔ پیچھے ۔۔۔ ان کی پشتیں 
كَأَنَّهُمْ ۔۔۔۔۔ لَا يَعْلَمُونَ۔  1️⃣0️⃣1️⃣
گویا کہ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ نہیں وہ جانتے 

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.   1️⃣0️⃣1️⃣

اور جب ان کے پاس الله تعالی کی طرف سے رسول پہنچا  اُس کی تصدیق کرنے والا جو ان کے پاس ہے ۔ تو اہلِ کتاب کی ایک جماعت  نے پھینک دیا الله تعالی کی کتاب کو اپنی پیٹھ کے پیچھے گویا وہ جانتے ہی نہیں ۔

رَسُولٌ ( رسول ) ۔ اس کے لفظی معنی پیغام رساں کے ہیں ۔ عبارت کے طرزِ بیاں سے ظاہر ہے کہ یہاں نبی آخر الزماں مراد ہیں اور محقق مفسرین نے یہی مراد لی ہے ۔ 
مَعَھُم ۔ ( ان کے پاس ) ۔ اس سے مراد تورات ہے ۔ جو یہودیوں کی آسمانی کتاب تھی اور جس کی تصدیق نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم نے کی ۔ 
کتابُ الله  ( الله کی کتاب ) ۔ یہاں اس سے مراد بھی تورات ہے ۔ جس کی ہدایت کو یہودیوں نے نہ مانا ۔ یہ لوگ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر بھی ایمان نہ لائے ۔ حالانکہ ان کی کتاب میں کی کُھلی نشانیاں اور پیشین گوئیاں موجود تھیں ۔ یہودی عالموں نے ان پیشین گوئیوں کو چھپانے کی انتہائی کوشش کی اور یہودی عوام نے اسلام اور مسلمانوں کی حد درجہ مخالفت کی ۔ حالانکہ ان کی نجات اسلام کے ماننے سے وابستہ تھی ۔ 
وَرَآ ءَ ظُہُوْرِھِمْ ۔ ( اپنی پیٹھ پیچھے ) ۔ یہ ایک محاورہ ہے ۔ جس سے مراد ہے کہ انہوں نے بے پرواہی برتی اور اس کی عملی مخالفت کی ۔ 
اس آیت میں یہودیوں کو بتایا جاتا ہے کہ نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم اس لئے تشریف نہیں لائے کہ تمہارے دین کو مٹا دیں ۔ بلکہ اسے تازگی بخشنے اور نئی زندگی دینے آئے ہیں ۔ اس لئے ان کی بات نہ ماننا سراسر خود اپنے دین کی جڑ کھود کر اسے برباد کرنا ہے ۔ 
ان تمام باتوں کے باوجود یہودیوں نے اسلام کی کھلم کھلا مخالفت شروع کر دی ۔ اور توریت میں نبی آخر الزماں کے آنے کے متعلق جو بشارتیں موجود تھیں ۔ اور نشانیاں بیان کی گئیں تھیں انہیں چھپانے کے لئے انہوں نے توریت کو بھی بدل ڈالا اور بظاہر بالکل انجان بن گئے ۔ گویا انہیں معلوم ہی نہیں کہ اس میں آخری نبی صلی الله علیہ وسلم کی تائید اور تصدیق موجود ہے ۔ پس اگر انہیں اپنی کتاب توریت پر ہی ایمان اور یقین نہیں تو ان سے آئیندہ کے لئے کیا امید کی جائے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*یہودیوں کی عہد شکنی*

وَلَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَنزَلْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِلَيْكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آيَاتٍ
اور البتہ تحقیق ۔۔ ہم نے اُتاری ۔۔  آپ کی طرف ۔۔ نشانیاں 
بَيِّنَاتٍ ۔۔۔۔ ۔۔۔ وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔ يَكْفُرُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِهَا
روشن ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔ وہ انکار کرتا ۔۔۔ اس کا 
إِلَّا ۔۔۔ الْفَاسِقُونَ۔  9️⃣9️⃣
سوائے ۔۔۔۔ فاسق 
أَوَ ۔۔۔۔ كُلَّمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَاهَدُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَهْدًا
کیا۔۔ جب کبھی ۔۔۔ عھد کیا انہوں نے ۔۔۔ کوئی عھد 
نَّبَذَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ فَرِيقٌ ۔۔۔۔۔۔۔ مِّنْهُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بَلْ
پھینک دیا اس کو ۔۔۔ ایک جماعت ۔۔۔ ان میں سے ۔۔۔ بلکہ 
أَكْثَرُهُمْ ۔۔۔ لَا ۔۔۔۔ يُؤْمِنُونَ    1️⃣0️⃣0️⃣
اکثر اُن میں سے ۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایمان لاتے 

وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ.  9️⃣9️⃣
أَوَ كُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ. 1️⃣0️⃣0️⃣

اور البتہ تحقیق ہم نے آپ کی طرف روشن نشانیاں اتاریں ۔ اور ان کا انکار نہ کریں گے مگر وہی جو نافرمان ہیں ۔ 
کیا جب کبھی کوئی اقرار باندھیں گے تو ان میں سے ایک جماعت اسکو پھینک دے گی بلکہ ان میں سے اکثر یقین نہیں کرتے 

آیٰتٍ  بَّیِّنَات ۔۔۔ ( روشن آیتیں ) ۔ آیات کا واحد آیت ہے ۔ اس کے لفظی معنی نشانی کے ہیں ۔ یہ لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلا علامات  ( جو قرآن مجید میں کے گول گول نشانات کی صورت ہیں ) الله تعالی کے احکام و ہدایات کو بھی آیات کہا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ تمام باتیں جو الله تعالی کی قدرت کا نشان ہوں اس کے مفہوم میں شامل ہیں ۔ 
بَیِّنَات ۔۔ ( روشن ) ۔ بیَّنَه اس کا واحد ہے ۔ اس کے معنی روشن اور واضح کے ہیں ۔ اس پورے جملے سے مراد قرآن مجید بھی ہو سکتا ہے ۔ معجزات اور احکام رب العلمین بھی ۔ 
یہودی مادہ پرست تھے ۔ اسی لئے ان کے نبیوں کو الله تعالی نے ظاہری اور مادی معجزے عطا فرمائے ۔ ان کے نزدیک ایک پیغمبر کے سچا ہونے کا یہی معیار قائم تھا کہ  اس کے پاس معجزات ہوں ۔ جب حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تشریف لائے تو یہودی حیرت سے کہنے لگے ۔کہ یہ کیسے نبی ہیں ان کے پاس تو کوئی نشانی نہیں ۔ 
اس کے جواب میں الله تعالی نے ارشاد فرمایا کہ تم ایک نشانی مانگتے ہو ۔ ہم تو اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کو کئی نشانیاں دے چکے ہیں ۔ اور نشانیاں بھی چھپی ہوئی یا دھندلی نہیں بلکہ نمایاں اور روشن جو سب کو نظر آسکتی ہیں ۔ اور انہیں دیکھنے کے بعد کوئی صحیح فطرت والا انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا ۔ انکار صرف وہی لوگ کریں گے جو الله تعالی کے قانون کو توڑنے اور اس کے حکموں سے بغاوت کرنے کے عادی بن چکے ہوں ۔ 
یہودیوں کی تاریخ عہد شکنی ، نافرمانی اور سرکشی کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ جب کبھی ان کے پاس الله تعالی کا کوئی رسول نشانیاں لے کر آیا انہوں نے اس کو جھٹلایا ۔ بلکہ الله جل جلالہ اور رسول کی اطاعت کرنے کا عہد کر لینے کے بعد بھی اس پر قائم نہ رہے ۔اسی انکار اور نافرمانی کی عادت نے انہیں نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرنے سے روکا ۔ یعنی ان کی پرانی عادت ہے کہ جب الله یا رسول یا کسی شخص سے کوئی وعدہ کرتے ہیں  تو انہی میں سے ایک جماعت اس وعدے سے روگردانی کرتی ہے اور اسے توڑ دیتی ہے ۔بلکہ بہت سے یہودی تو ایسے ہیں جو توریت پر ایمان ہی نہیں رکھتے ۔ ایسے لوگوں کو عہد توڑنے میں کیا شرم یا ججھک ہو سکتی ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔  مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی 

*حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دشمنی*

قُلْ ۔۔۔ مَن ۔۔۔ كَانَ ۔۔۔۔۔۔ عَدُوًّا 
فرما دیجئے ۔۔۔ جو ۔۔۔۔۔ ہے ۔۔۔ دشمن 
لِّجِبْرِيلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَإِنَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نَزَّلَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ عَلَى 
جبرائیل کا ۔۔۔ پس بے شک وہ ۔۔۔ اُتارا اُس نے اس کو ۔۔۔ پر 
قَلْبِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِإِذْنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُصَدِّقًا 
آپ کے قلب پر ۔۔۔ حکم سے ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ تصدیق کرنے والا 
لِّمَا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ بَيْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَدَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَهُدًى 
اس کی جو ۔۔۔ ہے ۔۔۔ آگے اس سے ۔۔۔ اور ھدایت 
وَبُشْرَى ۔۔۔ لِلْمُؤْمِنِينَ۔ 9️⃣7️⃣
اور خوشخبری ۔۔۔ مؤمنین کے لئے 

مَن ۔۔۔ كَانَ ۔۔۔۔۔۔ عَدُوًّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّلَّهِ
جو ۔۔۔ ہے ۔۔۔ دشمن ۔۔۔ الله تعالی 
وَمَلَائِكَتِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ وَرُسُلِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَجِبْرِيلَ ۔۔۔۔۔۔۔ وَمِيكَالَ
اور اس کے فرشتے ۔۔۔ اور رسول اس کے ۔۔۔ اور جبرائیل ۔۔۔ اور میکائیل 
فَإِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ عَدُوٌّ ۔۔۔ لِّلْكَافِرِينَ.  9️⃣8️⃣
پس بے شک ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ دشمن ۔۔۔۔۔ کافروں کے لئے 

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ 9️⃣7️⃣
مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ.  9️⃣8️⃣

فرما دیجئے جو کوئی جبرائیل کا دشمن ہو سو اس نے تو یہ کلام آپ کے دل پر الله تعالی کے حکم سے اتارا  ہے کہ تصدیق کرنے والا ہے اس کلام کی جو اس سے پہلے کا ہے ۔ اور ھدایت اور خوشخبری ہے ایمان والوں کے لئے ۔ 
جو کوئی دشمن ہو الله تعالی اوراس کے پیغمبروں کا اور جبرائیل علیہ السلام اور میکا ئیل علیہ السلام  کا تو الله تعالی ان کافروں کا دشمن ہے ۔ 

جبریل ۔ ( جبرائیل ) ۔ یہ ایک بہت بڑے فرشتے کا نام ہے ۔ ان کے سپرد ایک عظیم خدمت ہے ۔ یعنی یہ کہ الله جل جلالہ کی وحی اس کے پیغمبروں کو پہنچائیں ۔ جبریل امین ملائکہ مقربین میں شمار ہوتے ہیں ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے یہودیوں کی ایک اور جھوٹی اور بے معنی دلیل کی حقیقت کھول دی ہے ۔ 
یہودی کہتے تھے کہ ہمارے باپ دادا پر پر وقتا فوقتا جو عذاب نازل ہوتا رہا ہے ۔ اس کی خبریں جبریل ہی لایا کرتا تھا ۔جس نبی پر بھی یہ فرشتہ وحی لے کر آئے گا ہم اسے نہیں مانیں گے ۔ 
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وسلم پر یہی فرشتہ جبریل وحی لے کر آتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہماری خفیہ باتوں ، سازشوں اور تدبیروں سے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کو آگاہ کر دیتا ہے ۔ لہذا ہم اسلام قبول نہیں کریں گے ۔ الله جل شانہ نے اس کا جواب اس آیت میں دیا ہے کہ جبریل کی حیثیت تو محض پیغام پہنچانے والے ایک فرشتے کی ہے ۔ اصل میں ہر قسم کا حکم اور عذاب الله جل جلالہ ہی کی طرف سے نازل ہوتا ہے ۔ جبریل اور دوسرے فرشتوں یا رسولوں کی دشمنی بالکل بے معنی ہے ۔ اس کی سزا میں کافر خود الله تعالی کی دشمنی کے سزاوار ہوں گے ۔ 
الله تعالی نے اس آیت میں قرآن مجید کی تین صفات بیان فرمائی ہیں ۔ 
یہ پہلی کتابوں کے اصولوں کی تصدیق کرتا ہے ۔ ✳️
یہ سیدھی راہ دکھانے والی کتاب ہے ۔ ✳️
یہ ایمان لانے والوں کو نیک اجر اور کامیابی کی خوشخبری سناتا ہے ۔ ✳️
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں