نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کافروں کی روش ۔۔۔ بقرہ ۲۱۷

کافروں کی روش


وَصَدٌّ ۔۔۔ عَن ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔ وَكُفْرٌ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِهِ

اور روکنا ۔۔۔ سے ۔۔ راستہ ۔۔ الله ۔۔ اور انکار ۔۔ اس سے 

 وَالْمَسْجِدِ ۔۔۔ الْحَرَامِ ۔۔۔ وَإِخْرَاجُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَهْلِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مِنْهُ 

اور مسجد ۔۔ حرام ۔۔ اور نکالنا ۔۔ اس کے رہنے والوں کو ۔۔ اس سے 

أَكْبَرُ ۔۔۔ عِندَ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔ وَالْفِتْنَةُ ۔۔۔ أَكْبَرُ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔الْقَتْلِ

زیادہ بڑا  ۔۔۔ پاس ۔۔ الله ۔۔ اور فتنہ ۔۔ زیادہ بڑا ۔۔ سے ۔۔ قتل 


وَصَدٌّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِندَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ


اور الله کی راہ سے روکنا اور اسے نہ ماننا اور مسجد حرام سے روکنا اور اس کے لوگوں کو وہاں سے نکالنا الله کے نزدیک اس سے بھی زیادہ گناہ ہے اور فتنہ قتل سے بھی بڑھ کر ہے ۔ 


سبيل الله (الله کی راہ ) ۔ یہاں مراد اسلام ہے ۔ یہی الله تعالی کا پسندیدہ طریقہ ہے جس پر چل کر انسان اپنی دنیا اور آخرت کو سنوار سکتا ہے ۔ 

اس سے پہلے ہم نے پڑھا کہ ایک مرتبہ چند مسلمانوں نے کافروں سے مقابلے کے وقت ایک کافر کو مار دیا ۔ یہ واقعہ نادانستہ طور پر ان سے حرمت والے مہینے میں ہو گیا ۔ کافروں نے اس پر طعن و تشنیع کی ۔ 

الله تعالی نے اس آیۃ میں یہ بیان  فرمایا ہے کہ اگرچہ ماہ حرام میں جنگ کرنا گناہ ہے ۔ لیکن اس کے مقابلے میں وہ گناہ بڑے ہیں جو خود کافر کرتے ہیں ۔ ان گناہوں میں سے کچھ آج کے سبق میں پیش کئے جارہے ہیں ۔ 

1. صَدٌّ عَن سبيل اللهِ ۔ ( الله کی راہ سے روکنا) ۔ یعنی لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکنا ۔ اور جو اسلام قبول کر لیں انہیں سخت اذیتیں پہنچانا ۔ جو ارادہ کر رہے ہوں انہیں دھمکیاں دینا ۔ مکہ کے کافر یہ تمام گناہ کرتے تھے ۔ وہ لوگوں کو پیغمبرِ اسلام  پر ایمان لانے سے منع کرتے تھے ۔ جو لوگ مسلمان ہو جاتے انہیں بہت مارتے پیٹتے ، گرم پتھروں پر لٹاتے ۔ جب وہ مکہ معظمہ سے نکل جانے کا ارادہ کرتے  تو ان الله کے بندوں کو جانے سے بھی روکتے ۔ 

2. كُفرٌ بِه ( الله سے کفر کرنا ) ۔ دوسرا گناہ جو کافر کرتے تھے وہ تھا الله تعالی سے کفر کرنا ۔ اس کی ہستی اور صفات کا انکار 

3. والمسجد الحرام ( خانہ کعبہ ) ۔ الله کا یہ گھر عبادت کے لئے تھا ۔ مگر اس جگہ کافروں نے بے شمار بت رکھ چھوڑے تھے ۔ مسلمان بیت الله کو توحید کا گھر بنانا چاہتے تھے ۔ لیکن کافر مسلمانوں کو بیت الله میں داخل ہونے سے روکتے تھے ۔ اور الله تعالی کی عبادت میں رکاوٹ ڈالتے تھے ۔ 

4. اِخراجُ اهله ( مکہ والوں کو وہاں سے نکال دینا ) ۔ مکہ کے کافروں نے مسلمانوں پر اس قدر سختیاں کیں اور اتنے ظلم ڈھائے کہ ان بے چاروں کو آخر مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا ۔ غریب بے کس مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینہ میں پناہ لی ۔ اور سب کچھ چھوڑ کر صرف جانیں لے کر بھاگے ۔ یہ کس قدر بڑا گناہ ہے  جس کے مرتکب اہل ِ مکہ ہوئے ۔ 

5. اَلفتنه ( فساد ، غارت گری ، دین سے ہٹانا ) ۔ کفارِ مکہ یہ سب خرابیاں کر رہے تھے مگر اپنے جرائم پر ان کی نظر نہ تھی ۔ 

الله تعالی فرماتا ہے ۔ جب یہ حالات ہوں ۔ تو قتال ہر حال میں واجب ہے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...