ایمان ہجرت اور جہاد ۔۔ آیہ ۲۱۸

ایمان ، ہجرت اور جہاد


إِنَّ ۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَالَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   هَاجَرُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَجَاهَدُوا

بے شک ۔۔ وہ لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔ اور وہ لوگ ۔۔۔ ہجرت کی انہوں نے ۔۔ اور جہاد کیا انہوں نے 

 فِي ۔۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔۔۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ أُولَئِكَ ۔۔۔ يَرْجُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  رَحْمَتَ  

میں ۔۔۔ راستہ ۔۔۔ اللہ ۔۔ یہی لوگ ۔۔۔ امید رکھتے ہیں ۔۔۔ رحمت 

اللَّهِ ۔۔۔ وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  غَفُورٌ ۔۔۔  رَّحِيمٌ 2️⃣1️⃣8️⃣

الله ۔۔۔ الله ۔۔۔ بخشنے والا ۔۔۔ مہربان 


إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ. 2️⃣1️⃣8️⃣.  


بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور الله کی راہ میں لڑے وہ الله کی رحمت کے امیدوار ہیں اور الله تعالی بخشنے والا مہربان ہے ۔ 


الّذين هاجروا ۔ (جنہوں نے ہجرت کی ) ۔ مراد وہ لوگ ہیں  جنہوں نے دین کی خاطر اپنے وطن جیسی عزیز اور محبوب شئے کو چھوڑا ۔ اور کفر کی بستی کو ترک کرکے ایمان کی بستی کی طرف چلے گئے ۔ حضرت رسول کریم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی ۔ 

جاهدُوا ۔ ( لڑے ) ۔ یہ لفظ جہاد سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں شدید کوشش اور جد وجہد ۔ اس میں ہر طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں شامل ہیں اور سب سے بڑی مشکل جنگ و قتال کی ہے ۔ 

فِى سبيل الله ۔ ( الله کی راہ میں ) ۔ ہجرت اور جہاد کے ساتھ یہ قید لگا کر ثابت کر دیا کہ مسلمان اپنی کسی ذاتی غرض یا مفاد کے لئے ہجرت یا جہاد نہیں کرتے ۔ وہ صرف الله تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی تکلیفیں اور مصیبتیں جھیلتے ہیں ۔ 

يَرجُون ( امیدوار ہیں ) ۔ اس لفظ سے مقصود ان مؤمنوں کو خوشخبری دینا ہے جو نادانستہ ماہ حرام میں ایک کافر کو قتل کر دیتے ہیں ۔ ان صحابہ کو جنہوں  نے  بھول کر اس پاک مہینے میں ایک کافر کو قتل کردیا یہ تو معلوم ہو گیا تھا کہ ان پر کوئی گناہ نہیں ۔ لیکن انہیں اس بارے میں کچھ فکر تھی کہ معلوم نہیں اس جہاد کا ثواب بھی ملتا ہے یا نہیں ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جو لوگ ایمان لائے ، جنہوں نے ہجرت کی اور الله تعالی کی خوشنودی کے لئے دشمنوں سے لڑے وہ بے شک الله تعالی کی رحمت کے امیدوار ہیں ۔ اور اجر وثواب کے حق دار ہیں ۔ الله تعالی اپنے بندوں کی خطائیں بخشنے  والا اور ان پر رحمت کرنے والا ہے ۔ وہ اپنے اس قسم کے عبادت گذار بندوں کو ان کے حق سے محروم نہ کرے گا ۔ 

اس آیت سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کافر اور مشرک مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے ۔ انہیں اذیتیں پہنچائیں گے ۔ انہیں وطن سےنکال دیں گے ۔ان سے جنگ کریں گے ۔ لیکن مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ ہمت نہ ہاریں ۔ وہ اپنے ایمان پر ڈٹے رہیں ۔ اگر کافر مسلمانوں کو جلاوطن کر دیں ۔ ان سے جنگ کریں تو مسلمانوں کو ان کا مقابلہ ڈٹ کر کرنا چاہئیے ۔ 

مختصر یہ کہ الله تعالی کی رحمت و بخشش اور کرم کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو ایمان لائے ۔ اگر اس راہ میں مشکلات پیش آئیں تو وطن کو بھی چھوڑ دیا ۔ اگر پھر بھی دشمنان دین نے چین نہ لینے دیا  تو جہاد کے لئے آمادہ ہو گئے ۔ لیکن دین سے غافل نہ ہوئے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں