نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

طلاق کی ابتداء ۔۔۔۔ ۲۲۶-۲۲۷

طلاق کی ابتداء


لِّلَّذِينَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   يُؤْلُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مِن ۔۔۔ نِّسَائِهِمْ ۔۔۔۔۔۔ تَرَبُّصُ

ان لوگوں کے لئے ۔۔ وہ قسم کھا لیتے ہیں ۔۔۔ سے ۔۔ اپنی عورتیں ۔۔ مہلت 

 أَرْبَعَةِ ۔۔۔۔أَشْهُرٍ ۔۔۔۔۔۔  فَإِن ۔۔۔۔۔۔۔۔   فَاءُوا 

چار ۔۔۔ ماہ ۔۔۔ پس  اگر ۔۔۔ لوٹ آئیں 

فَإِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔۔۔ رَّحِيمٌ۔ 2️⃣2️⃣6️⃣

پس بے شک ۔۔۔ الله ۔۔۔ بخشنے والا ۔۔۔ مہربان 


وَإِنْ ۔۔۔  عَزَمُوا ۔۔۔۔۔۔  الطَّلَاقَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَإِنَّ 

اور اگر ۔۔۔ عزم کر لیا ۔۔۔ طلاق ۔۔۔ پس بے شک 

اللَّهَ ۔۔۔ سَمِيعٌ ۔۔۔ عَلِيمٌ. 2️⃣2️⃣7️⃣

الله ۔۔۔ سننے والا ۔۔ جاننے والا ہے 


لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِن فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.   2️⃣2️⃣6️⃣


اور جو لوگ اپنی عورتوں کے پاس جانے کی قسم کھالیتے ہیں ان کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے  پھر اگر باہم مل جائیں تو الله تعالی بخشنے والا مہربان ہے 


وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.  2️⃣2️⃣7️⃣


اور اگر طلاق کا ارادہ کرلیا تو بے شک الله تعالی سننے والا جاننے والا ہے ۔


يُؤْلُونَ ( قسم کھا لیتے ہیں ) ۔ ایلاء سے بنا ہے اس کا معنی قسم کھانا ہیں ۔ اور اصطلاح میں بیوی سے جُدا رہنے کی قسم کھانا مراد ہے ۔ عربوں میں اس کا عام رواج تھا  کہ ذرا غصہ آیا اور بیوی سے جدا رہنے کی قسم کھا بیٹھے ۔ 

طلاق ( چھوڑ دینا ) ۔ قانونی طور پر خاوند اور بیوی کے باہمی تعلقات بالکل ختم ہوجانے کا نام طلاق ہے ۔ 

اسلام سے پہلے دنیا میں طلاق کے مختلف طریقے رائج تھے ۔ یہودیوں کے ہاں طلاق کے سلسلے میں کوئی قید یا  ذمہ داری نہ تھی ۔ جس کا جب جی چاہتا بس ایک طلاق نامہ لکھ کر بیوی سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ۔ بیوی اسی وقت دوسرا خاوند کر سکتی تھی ۔ 

اس آزادی کے مقابلے میں عیسائیوں نے بہت زیادہ سختی اختیار کی ۔ خاوند و بیوی کے الگ ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہ رکھی ۔ سوائے اس کے کہ بیوی کسی سے زنا کرے ۔ یہی حال ہندو مذہب کا ہے ۔ ان کے ہاں طلاق آج تک ناجائز چلی آرہی ہے ۔ اس کے برعکس اسلام نے اعتدال کی راہ اختیار کی ۔ 

عربوں کا دستور تھا کہ شوہر ایلاء ( قسم کھانے ) کے بعد جو ان کے نزدیک ایک طرح کی طلاق تھی بیوی کے خرچ ، دوسری ذمہ داریوں اور فرائض کی ذمہ داری سے علیحدہ ہو جاتا تھا ۔ اسلام نے اس رواج کی اصلاح کی  اور بتایا کہ ایلاء  نکاح کے فسخ ہونے کے برابر نہیں بلکہ صرف آغاز ہے ۔ اسلام نے غور وفکر کے لئے ایک مدت مقرر کر دی ۔ اور اس مدت کی معیاد چارمہینے رکھی جو اس مقصد کے لئے بالکل کافی ہے  کہ خاوند بیوی کی جدائی کے اہم معاملہ کے سارے پہلوؤں پر ٹھنڈے دل سے غور کرے ۔ 

اسلام نے اس کی اجازت روا رکھی ہے کہ اگر شوہر ایمان داری کے ساتھ محسوس کرے کہ اس کی شریکِ زندگی اس کے ساتھ تعاون نہیں کرتی  یا جائز تقاضوں کو پورا نہیں کرتی تو وہ اسے طلاق دے دے ۔ بجائے اس کے کہ دونوں تمام عمر کڑھتے رہیں اور ایک دوسرے سے بےزار رہیں ۔ بہتر ہے کہ وہ علیحدہ علیحدہ ہی ہو جائیں ۔ 


درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...