حیض کی حقیقت ۔۔۔ ۲۲۲(ا)

حیض کی حقیقت

وَيَسْأَلُونَكَ ۔۔۔۔  عَنِ ۔۔۔ الْمَحِيضِ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ قُلْ ۔۔۔۔۔۔   هُوَ 
اور وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ سے ۔۔۔ حیض ۔۔۔ فرما دیجئے ۔۔۔ وہ 
أَذًى ۔۔۔ فَاعْتَزِلُوا ۔۔۔۔ النِّسَاءَ ۔۔۔۔ فِي ۔۔  الْمَحِيضِ 
گندگی ۔۔۔ پس تم الگ رہو ۔۔۔ عورتیں ۔۔۔ میں ۔۔ حیض 

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ 

اور وہ آپ سے حیض کا حکم پوچھتے ہیں  فرما دیجئے وہ گندگی ہے سو تم عورتوں سے حیض کے وقت الگ رہو 

مَحِيض ۔ (حیض ) ۔ حیض اس خون کو کہتے ہیں جو عورتوں کو ہر ماہ آتا ہے ۔ جسے اذیً (گندگی ) ماہواری بھی کہتے ہیں ۔ دنیا کی دوسری قوموں نے بھی حیض کو گندہ خون قرار دیا ہے ۔ اور طب کے ماہروں کا بھی دعوٰی ہے کہ یہ ناقص خون ہے ۔ یہ خون رنگ ، بو اور اجزاء کے اعتبار سے بھی عام خون سے مختلف ہے ۔ اس میں حد درجہ گرمی ہوتی ہے ۔ 
فَاعْتزِلوا ( پس تم الگ رہو ) ۔ یہ لفظ اعتزال سے نکلا ہے ۔ جس کے یہاں معنٰی یہ ہیں کہ عورت سے ہم بستری کے عمل سے الگ رہو ۔ 
اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں ایک طرف تو مجوسی اور یہودی حیض کے زمانے میں عورت کے ہاتھ کا کھانا پینا بھی ناپاک سمجھتے تھے ۔ بعض لوگ اس دوران عورت کو گھر میں رکھنا بھی جائز نہ سمجھتے تھے ۔ ہندو آج بھی ایامِ حیض میں عورت کے ہاتھ کا پکا کھانا جائز نہیں سمجھتے ۔ 
دوسری طرف عیسائی عین حیض کے ایّام میں ہم بستر ہونے سے بھی پرھیز نہ کرتے تھے ۔ 
صحابہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا ۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے افراط و تفریط کو بُرا بتایا ۔ اور فرمایا کہ نہ تو اس قدر نفرت ضروری ہے کہ عورت کو گھر میں ہی نہ رہنے دیا جائے اور اس کے ہاتھ کا کھانا ناپاک سمجھ لیا جائے ۔ اور نہ اس قدر لاپرواہی کرنی چاہئیے کہ مجامعت سے بھی پرھیز نہ کیا جائے ۔ بلکہ سیدھی راہ یہ ہے کہ اس سے مجامعت نہ کی جائے ۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ کھانا پینا رہنا سہنا سب درست ہے ۔ 
قرآن مجید زندگی کا مکمل دستورِ عمل ہے ۔ یہ زندگی کے ہراس  شعبہ کے بارے میں احکام و ھدایات دیتا ہے ۔ جس کا تعلق انسان کی زندگی سے ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ اس میں انسان صرف کھاتا پیتا ، سوتا ہی ہے بلکہ اس کے اندر جنسی بھوک بھی پیدا ہوتی ہے ۔ بچے پیدا کرنے کی خواہش بھی ہوتی ہے ۔ خاص تعلقات قائم کرنے کی آرزو بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے ان تمام باتوں کے متعلق قرآن مجید مناسب حکم دیتا ہے ۔ 
دوسری قوموں نے عام طور پر اس طبعی ناپاکی کے متعلق بہت مبالغہ آمیز طریقہ اختیار کر لیا ہے ۔ قرآن مجید نے بتایا  کہ اس زمانہ میں صرف جنسی اختلاط منع ہے ۔ باقی اس کا عام طور پر اٹھنے بیٹھنے ، کھانے پینے سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ سب جائز ہے ۔ 
اذًی ( گندگی ) ۔ قرآن مجید نے حیض کو گندگی بتایا ہے ۔ اس کے دوسرے معنی تکلیف اور آزار بھی ہیں ۔ ہوسکتا ہے اسی تکلیف اور آزار کے سبب ان ایّام میں ہم صحبت ہونے کو منع کیا گیا ہو ۔ آج طبی طور پار بھی یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ گئی ہے کہ ان ایّام میں اختلاط بہت سی بیماریوں کا سبب ہو سکتا ہے ۔ ڈاکٹر حضرات خود بھی اس سے شدید طور پر روکتے ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں