نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

لغو قسمیں ۔۔۔ ۲۲۵

لغو قسمیں

لَّا ۔۔۔۔  يُؤَاخِذُكُمُ ۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ ۔۔۔ بِاللَّغْوِ ۔۔۔ فِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   أَيْمَانِكُمْ
نہیں ۔۔ وہ پکڑتا تمہیں ۔۔۔ الله ۔۔ بے ہودہ ۔۔۔ میں ۔۔۔ تمہاری قسمیں 
 وَلَكِن ۔۔۔۔۔۔۔۔    يُؤَاخِذُكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    بِمَا ۔۔۔۔۔۔  كَسَبَتْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  قُلُوبُكُمْ 
اور لیکن ۔۔ وہ پکڑتا ہے تمہیں ۔۔۔ ان کی وجہ سے ۔۔۔ ارادہ کیا ۔۔ دل تمہارے 
وَاللَّهُ ۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔۔ حَلِيمٌ    2️⃣2️⃣5️⃣
اور الله ۔۔۔ بخشنے والا ۔۔۔ تحمل کرنے والا ہے ۔ 

لَّا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ.     2️⃣2️⃣5️⃣

اور الله تعالی تمہیں نہیں پکڑتا تمہاری بے ہودہ قسموں میں  لیکن تمہیں پکڑتا ہے جن کا ارادہ تمہارے دلوں نے کیا اور الله بخشنے والا تحمل کرنے والا ہے ۔ 

بِالّغْوِ فِى اَيمَانٍكم (تمہاری بیہودہ قسموں پر ) ۔ لغو ( بے ہودہ ) قسموں سے مراد وہ قسمیں ہیں جو ناواقفیت کی بنا پر یا بے خیالی میں یا محض عادت کے طور پر بے ساختہ زبان سے نکل جاتی ہیں ۔ اور ان میں ارادے کے بغیر بھی جھوٹ کی ملاوٹ ہو جاتی ہے ۔ 
علماء نے بتایا ہے کہ لغو کی کئی قسمیں ہیں ۔ ان کا تعلق گزرے ہوئے واقعات سے بھی ہو سکتا ہے اور عادت سے بھی کہ آدمی یونہی بلاوجہ قسمیں کھاتا رہے ۔ بات بات پر قسم کھائے ۔ اور مقصد کچھ بھی نہ ہو ۔ اس بات کو سخت ناپسندیدہ کہا گیا ہے ۔ 
غفُورٌ (بخشنے والا) ۔ الله تعالی بڑا بخشنے والا ہے ۔ اپنی اسی شان سے کام لیتے ہوئے اس نے ایسی قسموں پر پکڑ نہیں رکھی ۔ معاف کر دیا ۔ 
حَلِيمٌ ( تحمل کرنے والا) ۔ الله تعالی بڑا بردباد ہے ۔ اپنی اسی شان سے کام لیتے ہوئے وہ لغو قسموں پر بھی سزا نہیں دیتا ۔ بلکہ سزا کو ملتوی کر دیتا ہے ۔ تاکہ انسان کو توبہ کا موقع مل سکے ۔ 
پہلی آیت میں ذکر ہو رہا تھا کہ نیک سلوک ، نیکو کاری ، پرھیزگاری اور صلح صفائی کے کام محض الله کے نام کی غلط قسموں کا بہانہ بنا کر ترک نہ کرو ۔ ایسی قسمیں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔
 مثلا کوئی کہے ۔ الله کی قسم میں آئندہ مسجد میں نماز نہ پڑھوں گا ۔ یہ غلط قسم ہے کیونکہ الله جل شانہ تو مسجد میں نماز ادا کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ اور یہ شخص خود الله تعالی کا نام  اس کام سے باز رکھنے کے لئے استعمال کر رہا ہے ۔
اب اس آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ قسم وہ معتبر ہے جو دل سے اور پورے ارادے کے ساتھ کھائی جائے ۔ یہ نہیں کہ عادت کے طور پر یا جھوٹ موٹ غلط سلط قسم کھا لی اور اس پر ڈٹ گئے ۔    
بیہودہ قسمیں قابلِ مواخذہ نہیں ، مقصد یہ ہے کہ انہیں توڑ کر کفارہ ادا کر دینا چاہئیے ۔ اور ایسی لغویات سے پرہیز کرنا چاہئیے ۔ اسلام ایسے ہلکے اور چھچھورے پن کو پسند نہیں کرتا ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...