نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مالی قربانیوں کا معیار ۔۔ ۲۱۹(د)

مالی قربانیوں کا معیار


وَيَسْأَلُونَكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مَاذَا ۔۔۔۔۔۔۔   يُنفِقُونَ 

اور وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ کیا ۔۔ وہ خرچ کریں 

قُلِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    الْعَفْوَ

فرما دیجئے ۔۔۔ جو بچ رہے 


وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ

اور وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں کہہ دیجئے کہ جو اپنے خرچ سے بچے ۔ 


اَلْعٍفو( جو اپنے خرچ سے بچے ) ۔ انگریزی زبان میں اس لفظ کے مفہوم سے قریب تر لفظ سرپلس (surplus) ۔ ہے جسے فارسی میں زائد از ضرورت بھی  کہتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے  جائز اور ضروری اخراجات نکال کر جو بچا سکتے ہو ۔ وہ خرچ کرو ۔

اس آیت میں الله تعالی نے انسانی معاشرے کی مالی حالت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کا بہترین قاعدہ بیان فرمایا ہے ۔ اس قاعدے پر عمل کرنے سے وہ مقصد پورا ہو سکتا ہے جسے حاصل کرنے کے لئے بہت سی قومیں کوشش کرتی رہی  ہیں ۔ لیکن پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکیں ۔ یعنی ایسا نظام جس میں ہر شخص کی روزی کا سامان کر دیا جائے ۔ قوم بے کاری اور غربت کی لعنت سے نجات حاصل کرلے ۔ فاقہ کشی سے بچ سکے ۔ افلاس کی بنا پر کوئی خودکشی ، عصمت فروشی ، اخلاق سوزی اور انسانیت کشی پر مجبور نہ ہو ۔ 

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے الله تعالی نے یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ ہر شخص حلال اورجائز طریقے سے روپیہ کمائے اس میں سے اپنی ضرورتیں پوری کرے ۔ جائز ضروریات کے بعد جو بچا سکے وہ ضرورت مندوں میں تقسیم کردے ۔ 

اس حکم میں  ان سب خرابیوں کا علاج ہے جو انسانی معاشرے  میں اس وقت موجود ہیں ۔ 

مثلا۔۔۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل "انسانی محنت "کی قدر وقیمت بہت کم ہو گئی ہے ۔ جسمانی اور ذہنی کوششوں کا پورا معاوضہ نہیں ملتا ۔ انسانی محنت کی جگہ اب "سرمائے" نے  لے لی ہے ۔ چنانچہ معاشرہ  دو گروہوں میں بٹ گیا  ہے ۔ ایک نہایت امیر طبقہ جو تعداد میں بہت قلیل ہے ۔ اور دوسرا نہایت غریب طبقہ جو تعداد میں بہت زیادہ ہے ۔ ایک طرف عیاشی ، آرام پرستی اور اقتدار ہے ۔ دوسری طرف غربت ، مشقت اور بے بسی ہے ۔ امراء غریبوں کے خون سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں ۔ اور غریب ان کے پاؤں تلے روندے جا رہے ہیں ۔ اس سے عوام میں مایوسی اور بے چینی پیدا ہو رہی ہے ۔ 

مغربی اقوام نے اس کے کئی حل سوچے لیکن سب ناکام ہو گئے ۔ اس کا بہترین اور واحد حل وہی ہے جو قرآن مجید نے تجویز کیا ہے ۔ یعنی یہ کہ ہر دولت مند شخص اپنے پاس صرف اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہی روپیہ رکھے ۔ اور باقی مستحق لوگوں پر تقسیم کر دے ۔ 

ظاہر ہے کہ اس حکم پر عمل کرنے سے نہ تو مال چند ہاتھوں میں اکٹھا ہو گا ۔ نہ افلاس بڑھے گا بلکہ محنت سے کام کرنے والا شخص کبھی بھوکا نہیں مرے گا ۔ 

یہ ہے موجودہ مالی خرابیوں اور غربت کی اصلاح کا طریقہ جو کسی اور کے پاس نہیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...