بیوی کا درجہ ۔۔۔ ۲۲۳-(ا)

بیوی کا درجہ

نِسَاؤُكُمْ ۔۔۔ حَرْثٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔  لَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  فَأْتُوا ۔۔۔۔۔۔  حَرْثَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  أَنَّى ۔۔۔۔۔۔۔  شِئْتُمْ
تمہاری عورتیں ۔۔۔ کھیتی ۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ پس تم آؤ ۔۔ اپنی کھیتی ۔۔ جس طرح ۔۔ تم چاہو 

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ
تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں سو جسطرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤ ۔

حرث ۔ ( کھیتی ) ۔ کھیت زمین کے اس ٹکڑے کو کہا جاتا ہے جس میں بیج بویا جاتا ہے ۔ اور اس میں سبزی ، غلہ اور نباتات پیدا ہوتے ہیں ۔ گویا بیوی تمہاری نسل بڑھانے اور اولاد پیدا کرنے کا ذریعہ ہے ۔ 
یہود عورت کی پشت کی طرف سے ہو کر وطی کرنے کو ممنوع کہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس سے بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو اس پر یہ آیت اتری ۔ یعنی تمہاری عورتیں تمہارے لئے کھیتی کی مانند ہیں ۔ جس میں نطفہ  بیج کی مانند ہے اور اولاد پیداوار کی طرح ہے ۔  اصل مقصد نسل کا باقی رہنا اور اولاد کا پیدا ہونا ہے ۔ سو تم کو اختیار ہے آگے سے یا کروٹ سے یا پس ِپشت یا بیٹھ کر جس طرح چاہو مجامعت کرو مگر یہ ضرور ہے کہ تخم ریزی خاص اسی موقع میں ہو جہاں پیداواری کی اُمید ہو ۔ لواطت ہرگز ہرگز نہ ہو ۔ یہود کا خیال غلط ہے کہ اس سے بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے ۔   
اس آیت میں الله تعالی نے رشتۂ ازدواج کے سلسلے میں بیوی کی صحیح حیثیت واضح کر دی ہے ۔ یعنی یہ کہ بیوی مرد کی کھیتی ہے ۔ اور جس طرح کسان اپنی کھیتی کو اپنی بہت بڑی دولت سمجھ کر عزیز رکھتا ہے ۔ اس کی نگرانی کرتا ہے ۔ اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ اس سے پیداوار حاصل کرتا ہے ۔ اسی طرح شوہر کو چاہئیے کہ اپنی بیوی کو بھی اپنی عزیز ترین دولت سمجھے ۔ اس کی مناسب نگرانی اور دیکھ بھال کرے اور اس سے اولاد حاصل کرے ۔ 
گویا ثابت ہوا کہ اسلام کے نزدیک ہم بستری کا اصل مقصد حصولِ اولاد ہی ہے ۔ اگرچہ اس کے دوسرے پہلو یعنی طلبِ تسکین  کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا ۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ ضبط تولید طبعی امر نہیں ۔ کیونکہ کون ایسا احمق کسان ہوگا جو بیج تو بوئے لیکن فصل نہ چاہے ۔ پودا اُگنے سے پہلے ہی اسے اکھاڑ پھینکے ۔ پھر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جس طرح کسان الله تعالی سے بارانِ رحمت کی دُعا کرتا ہے ۔ فصل کے پھلنے پھولنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے ۔ اسی طرح شوہر کو بھی الله تعالی سے صالح اولاد لینے کے لئے دعا کرنی چاہئیے ۔ 
الله تعالی نے کھیتی کی مثال دے کر بہت کچھ سمجھا دیا ہے ۔ کاش انسان اس مثال پر غور کرے اور ان تعلقات کو اپنی زندگی اور انجام کار کے اعتبار سے مبارک بنائے ۔ 
اَنّٰی شِئْتُمْ ( جہاں سے تم چاہو ) ۔ لفظ انّی کے معنی جہاں" کے ہیں ۔ اس کے علاوہ جب" اور جس طرح" کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن مجید نے اس مسئلہ کو کیسے پُر حکمت طور پر اشاروں اشاروں میں سمجھایا ہے کہ طریق کار اور وقت پر پابندی نہیں ۔ ہاں اس بات پر پابندی ہے کہ غیر فطری طریق اختیار کرکے اپنی قوت اور نسل ضائع کرو ۔  
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی     

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں