یتیموں کی اصلاح ۔۔۔ ۲۲۰ (ا)

یتیموں کی اصلاح 


وَيَسْأَلُونَكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  عَنِ ۔۔۔ الْيَتَامَى ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔  قُلْ 

اور وہ سوال کرتے ہیں آپ سے ۔۔۔ سے ۔۔۔ یتیم ۔۔۔ فرما دیجئے 

إِصْلَاحٌ ۔۔۔۔۔۔۔  لَّهُمْ ۔۔۔۔ خَيْرٌ

اصلاح ۔۔۔ ان کے لئے ۔۔۔ بہتر ہے 


وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَى قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ


اور وہ آپ سے یتیموں کے بارے میں حکم پوچھتے ہیں  فرما دیجئے ان کے کام کو سنوارنا بہتر ہے ۔ 


اَليتامٰى ( یتیم ) ۔ یہ لفظ یتیم کی جمع ہے ۔ اور یتیم سے مراد وہ لڑکا یا لڑکی ہے جس کے سر سے باپ یا ماں یا دونوں کا سایہ اٹھ چکا ہو ۔ باپ کے مرنے سے اگر بچہ یتیم ہوا ہو تو  اس کی یتیمی اور بھی زیادہ قابل رحم ہو جاتی ہے ۔ 

اِصلاحٌ ۔ (سنوارنا ) ۔ اس میں ہر طرح کی جسمانی ، مالی اور اخلاقی سنوار آجاتی ہے ۔ یہاں اس کا تعلق خاص طور پر مالی اصلاح سے ہے ۔ 

یہ آیت ان صحابہ کے سوال کے جواب میں نازل ہوئی ۔ جن کی سرپرستی میں یتیم بچے پرورش کے لئے دئیے گئے تھے ۔ بعض لوگ یتیموں کے مال میں احتیاط نہ کرتے تھے ۔ اس پر الله تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ 

ولا تَقْرَبًوا مالَ اليتيم الّا بِالّتى هيَ اَحسن ۔ ( یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ سوائے اچھے طریقے کے ) اس پر جو لوگ یتیموں کے سرپرست تھے وہ ڈر گئے ۔ اور ان کے خرچ کو بالکل جدا کردیا ۔ خرچ الگ کرنے میں یہ دقت پیش آئی کہ جو چیز یتیموں کے لئے تیار کی جاتی اس میں سے اگر کچھ بچ جاتی تو وہ خراب ہو جاتی ۔ 

اس احتیاط میں یتیموں کا نقصان ہونے لگا ۔ اس لئے انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا ۔ کہ یتیموں کے خرچ کا کیا نظام رکھا جائے ۔ اپنے حساب میں شامل رکھا جائے یا ان کا حساب بالکل الگ رہنے دیا جائے ۔ 

اس آیت میں یہ جواب دیا گیا ہے کہ اصل مقصد تو یتیموں کی اصلاح ہے ۔ جس طرح بھی ممکن ہو ۔ کوئی تدبیر اختیار کرو ۔ نیت اور ارادہ صرف اصلاح اور یتیم کی بہتری ہو ۔خواہ خرچہ اکٹھا ہو یا الگ الگ ۔ 

معاشرے میں ایسے بچوں کی تعداد اچھی خاصی ہے جو اپنے والدین کی شفقت سے بچپن ہی میں محروم ہو گئے ۔ ایسے بچوں کی تعداد جنگ کے زمانے میں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ وہ اپنی جائیداد اور مال واسباب کا صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کے اہل نہیں ہوتے ۔ ان بچوں کی نگہداشت بہت ضروری ہے ۔ ورنہ ان کے لئے بے راہ رو ہوجانے اور بگڑنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے ۔ جو لوگ ان کی سرپرستی و تربیت اپنے ذمہ لیں انہیں ان کے مال و جائیدا کو نہایت دیانتداری کے ساتھ استعمال کرنا چاہئیے ۔ 

آج کل یتیموں کی پرورش اور یتیم خانوں کا اجراء ایک باقاعدہ تجارتی مشغلہ بن کر رہ گیا ہے ۔ بعض اداروں کے کرتا دھرتا اپنی ناجائز اغراض کے لئے یتیم بچوں کو اپنا آلہ کار بناتے ہیں ۔ معاشی ، سماجی اور اخلاقی لحاظ سے ذلیل و رسوا کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے لئے سخت وعید ہے ۔ 

نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم نے یتیموں کی تربیت اور نگہداشت پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔ اور اس کا اجر وثواب بھی بہت زیادہ ہونا فرمایا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں