کافروں کی کوششیں۔ سورہ بقرہ آیہ ۲۱۷ج

کافروں کی کوششیں


وَلَا يَزَالُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   يُقَاتِلُونَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   يَرُدُّوكُمْ 

اور جاری رکھیں گے ۔۔۔ وہ تم سے لڑنا ۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔ وہ لَوٹا دیں گے تم کو 

عَن ۔۔۔ دِينِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  إِنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اسْتَطَاعُوا

سے ۔۔۔ دین تمہارا ۔۔ اگر ۔۔۔ وہ طاقت رکھیں 


وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا

اور کفار تو ہمیشہ تم سے لڑتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ اگر قابو پائیں تو تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔ 


اس آیت میں یہ بات کھول کر واضح کر دی گئی ہے  کہ مسلمان  جب تک الله تعالی کے دین پر قائم رہیں گے مشرک اور کافر ہر طرح سے ان کی مخالفت کرتے ہی رہیں گے ۔ وہ ہر حالت میں اور ہر موقع پر زک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں گے ۔ خواہ یہ موقع انہیں حرم کی حدوں کے اندر پیش آئے خواہ پاک اور حُرمت والے مہینے میں ۔ جیسا کہ حدیبیہ کے موقع پر انہوں نے کیا ۔ اس موقع پر انہوں نے کسی احترام اور برکت کی پرواہ نہ کی ۔ صرف مسلمانوں سے دشمنی اور حسد کی وجہ سے مرنے مارنے پر تیار ہوگئے ۔ اور مسلمانوں کو مکہ جانے اور عمرہ کرنے سے روکا ۔ اس لئے اس قسم کے اسلام دشمن اگر مسلمانوں پر طعن و تشنیع کریں بھی تو اس کی کوئی پرواہ نہ کرنی چاہئیے ۔ اور صرف مہینے کی  حرمت کی وجہ سے ان سے جنگ کرنے سے نہ رکنا چاہئیے ۔ 

اس آیت سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ مکہ کے مشرک اسلام سے کس قدر بیزار اور حق کے کس قدر دشمن تھے ۔ وہ اس بات پر مصر تھے کہ جہاں تک ان کا بس چلے ہر ممکن طاقت اور ہر تدبیر استعمال کر کے مسلمانوں کو ان کے دین ہی سے پھیر دیں ۔ انہیں اسلام کے قبول کرنے سے روکیں ۔ انہیں پرانے اور باطل عقیدوں کے ماننے پر مجبور کریں ۔بت پرستی پر قائم رکھیں ۔ اور ہوسکے تو اسلام کا نام و نشان ہی مٹا دیں ۔ 

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کافر اور مشرک اسلام کے اس قدر مخالف کیوں تھے ؟ اس کو ختم کرنے کے کیوں درپے تھے ؟ مسلمانوں کے عقیدوں کوبُری نگاہ سے کیوں دیکھتے تھے ؟ اسلام کی تعلیم سے نفرت کیوں کرتے تھے ؟ 

اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت ان لوگوں نے اپنے مذہب ، اپنی سیاست اور اپنی معاشرت اپنے ڈھب پر بنا رکھی تھی ۔ ان کے اغراض و مقاصد اپنی ہی فلاح و بہبود تک محدود تھے ۔ وہ اپنی سوسائٹی کی روایات کو ہی برقرار رکھنا چاہتے تھے ۔ 

اس کے خلاف اسلام ایک کامل مساوات اور عالمگیر ترقی کا پیغام دیتا تھا ۔ انسان ہونے کے لحاظ سے ہر شخص کو برابر کا حق دیتا ہے ۔ کسی خاص مفاد پرست سوسائٹی کا وجود ماننے سے انکاری تھا ۔ اس لئے کہ وہ تمام لوگ جو محدود پیمانے پر سوچتے تھے اور جو تنگ نظر اور خود غرض تھے انہوں نے اس کی مخالفت اور عداوت پرکمر باندھی ۔ 

حق کے سامنے باطل کس طرح ٹہر سکتا تھا ۔ روشنی کے آنے کے بعد اندھیرا کیسے باقی رہ سکتا تھا ؟ 

وہ لوگ خود ہی اپنی جہالت اور عداوت میں غرق ہو گئے ۔ اور ہمیشہ کی سزا کے مستحق ٹہرے ۔ دنیا میں بھی نامراد ہوئے آخرت میں بھی جہنم کے مستحق ٹہرے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں