رجعت اور میاں بیوی کی حیثیت ۔۔۔ ۲۲۸-(ب)

رجعت اور میاں بیوی کی حیثیت


وَبُعُولَتُهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔   أَحَقُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِرَدِّهِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فِي ۔۔۔ ذَلِكَ 

اور ان کے شوہر ۔۔ زیادہ حق رکھتے ہیں ۔۔ انہیں لَوٹا لینے کا ۔۔۔ میں ۔۔۔ اس

إِنْ ۔۔۔ أَرَادُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔  إِصْلَاحًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَلَهُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔   مِثْلُ ۔۔۔۔ الَّذِي 

اگر ۔۔ وہ چاہیں ۔۔ سلوک سے رہنا ۔۔ اور ان عورتوں کے لئے ۔۔۔ مانند ۔۔ وہ 

عَلَيْهِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔   بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔۔۔۔۔   وَلِلرِّجَالِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  عَلَيْهِنَّ ۔۔۔۔۔۔  دَرَجَةٌ 

اُن پر ۔۔ دستور کے موافق ۔۔۔ اور مردوں کو ۔۔۔ ان عورتوں پر ۔۔۔ فضیلت 

وَاللَّهُ ۔۔۔ عَزِيزٌ ۔۔۔ حَكِيمٌ    2️⃣2️⃣8️⃣

اور الله ۔۔۔ زبردست ۔۔۔ تدبیر والا 


وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ.  2️⃣2️⃣8️⃣


اور ان کے خاوند اس مدت میں ان کے لوٹا لینے کا زیادہ حق رکھتے ہیں اگر وہ دونوں سلوک سے رہنا چاہیں اور عورتوں کا بھی دستور کے مطابق مردوں پر حق ہے جیسے مردوں کا اُن پر ہے  اور مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے ۔ اور الله تعالی زبردست تدبیر والا ہے ۔ 


ذالک (اس میں ) ۔ یعنی تین مہینے کی میعاد میں ۔ 

اَحَقُّ بِرَدّھِنَّ ( انہیں لوٹانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں ) ۔ اس سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ خاوند کو چاہئیے کہ جہاں تک ہو سکے بالکل آخری فیصلہ نہ کرے اور بہتر ہے کہ میاں بیوی پھر نئے سرے سے آباد ہوجائیں اور مستقل جدائی کی نوبت نہ پیدا ہو ۔ 

اسلامی شریعت نے طلاق کو صرف ضرورت کے موقع پر علاج اور آخری تدبیر کے طور پر جائز رکھا ہے ۔ خوامخواہ اس کی ترغیب نہیں دی اور نہ بلا ضرورت اسے پسند کیا ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی اسے  ابغض المباحات کہا گیا ہے ۔ ( یعنی الله تعالی کی طرف سے جائز ٹہرائی گئی چیزوں میں سے الله کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ ) ۔ اس لئے اگر سوچ وبچار کے بعد شوہر بیوی کو واپس لینا چاہے ۔ تو طلاق کو منسوخ کر سکتا ہے ۔ اصطلاح میں اسے رجعت کہتے ہیں ۔ 

رجعت کی اجازت دینے کے بعد الله تعالی نے یہ تنبیہ بھی کر دی ہے کہ طلاق کو محض اس لئے منسوخ کرنا چاہئیے کہ آئندہ زندگی میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ صلاح و صفائی کے ساتھ رہیں ۔ اور اس سے عورت کو تکلیف پہنچانا مقصود نہ ہو ۔ شوہر اگرچہ قانونی طور پر طلاق منسوخ کر سکتا ہے ۔ لیکن جہاں تک اس کے نیک سلوک کا تعلق ہے ۔ یہ بات قانون سے نہیں بلکہ محض اخلاق اور نیک نیت پر منحصر ہے ۔ اس لئے ظاہری اور باطنی دونوں طور پر انسان کو نیک روش اختیار کرنی چاہئیے ۔ 

اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر ہیں ۔ اسی طرح عورتوں کے حقوق بھی مردوں پر ہیں ۔ دنیا کو اس چیز کی اطلاع دی گئی ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ بس شوہروں کے حقوق ہی بیویوں پر ہوتے ہیں ۔ بلکہ بیویوں کے حقوق بھی شوہروں کے ذمہ عائد ہوتے ہیں ۔ البتہ  مرد کو عورت پر ایک طرح کی فضیلت اور برتری حاصل ہے ۔ یہ فضیلت مرد کو عقل اور قوت کے لحاظ سے حاصل ہے ۔ 

یہ تمام احکام الله سبحانہ و تعالی کی طرف سے ہیں جو نہایت قوت اور حکمت والا ہے ۔ ہمیں یہ احکام بلا چون و چرا مان لینے چاہئیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں