مسلمان لونڈی کا درجہ ۔۔۔ ۲۲۱-(ب)

مسلمان لونڈی کا درجه 


وَلَأَمَةٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ مُّؤْمِنَةٌ ۔۔۔۔۔۔۔ خَيْرٌ ۔۔۔۔ مِّن 

اور البتہ لونڈی ۔۔۔ ایمان والی ۔۔۔ بہتر  ۔۔۔ سے 

 مُّشْرِكَةٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَلَوْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    أَعْجَبَتْكُمْ

شرک کرنے والی ۔۔۔ اور اگرچہ ۔۔۔ وہ پسند آئے تم کو 


وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ


اور البتہ مسلمان لونڈی مشرک بی بی سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بھلی لگے ۔ 


آیت کے پہلے حصے میں ایک مشرک عورت کا مسلم سے ناقابلِ  نکاح ہونا بیان کیا گیا ہے ۔ اب الله تعالی فرماتا ہے کہ مشرک عورت میں خواہ تمام خوبیاں موجود ہوں ۔ اس میں ظاہری طور پر کشش موجود  ہو ۔ لیکن جب اس میں ایمان کی روشنی نہیں تو مسلمان کے لئے کوئی کشش نہیں ہونی چاہئیے ۔ اس کے مقابلے میں اگر ایک مسلمان عورت جسے خواہ آزادی جیسی نعمت میسر نہ ہو ۔ اسے نکاح میں لانا زیادہ بہتر ہے ۔ 

ایک مشرک یا غیر مسلم عورت کی پسندیدگی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ مثلا یہ کہ وہ مالدار ہو ۔ بہت زمین جائیداد کی مالکہ ہو ، حسین و جمیل ہو ۔ تعلیم یافتہ ہو ، اعلٰی خاندان سے ہو ، بہت سلجھی ہوئی ہو ، لائق و فائق ہو ، نسوانیت کا ہر تقاضا پورا کرتی ہو لیکن ایک ایمان والی عورت کے سامنے اس کی سب خوبیاں ہیچ ہیں ۔ جب کہ اس مشرکہ کا عقیدہ  اور بنیاد ہی غلط ہے ۔ 

اس کے مقابلہ میں ایک مؤمنہ لونڈی کو پسند نہ کرنے کی کئی وجوھات ہو سکتی ہیں ۔ مثلا بدصورتی ، غُربت یا ان پڑھ اور باندی ہونا ۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود الله تعالی کے نزدیک ایسی لونڈی اپنے ایمان کی بدولت مشرکہ عورت سے برتر ہے ۔ اس لئے نکاح کے لئے ایسی عورت کو ترجیح دینے کا حکم دیا گیا ۔ 

مشرکہ عورت سے نکاح کرنے سے خود شوہر کی اپنی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ بات بات پر اختلافِ رائے ، بات بات پر جھگڑا ، گھریلو معاملات میں تنازعہ ، بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں اختلافِ رائے ۔ اس قسم کی چپقلش کا بُرا اثر نہ صرف شوہر پر بلکہ بچوں  پر پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ بچے اپنے سامنے سیدھی راہ نہیں پاتے ۔ باپ کی تعلیم اور ہوتی ہے اور ماں کی کچھ اور ۔ 

البتہ اگر نکاح کسی مسلمان باندی سے کر لیا جائے تو اسمیں ایسی دشواریاں اور اُلجھنیں نہ پیدا ہوں گی ۔ کیونکہ اولاد بہرحال مسلمان رہے گی ۔ اور مسلمان ہونا خواہ غلامی کے طوق کے ساتھ ہو شرک اور کفر سے بہتر ہے ۔ 

اس زمانہ میں جبکہ غلامی کی لعنت دنیا میں اسلام کی تدابیر کی وجہ سے ختم ہو چکی ہے ۔ لونڈی اور غلام کوئی ہے ہی نہیں ۔ اس لئے یہ آیت فقط اس ممانعت کو تقویت دیتی ہے جو مشرک اور کافر عورتوں سے نکاح کی بابت آیت کے پہلے حصہ میں بیان ہوئی ۔ 

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت لونڈی اور غلام موجود تھے ۔ اس وقت یہ سمجھایا گیا کہ مسلم لونڈی سے شادی کرنے میں بھی کچھ معاشری نقصانات  ہیں ۔ لیکن وہ ان خرابیوں اور الجھنوں سے کم ہیں جو ایک غیر مسلم عورت کو رفیقہ حیات بنانے سے پیدا ہوتی ہیں ۔ آج بھی ہم اس سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ازدواجی رشتے اور تعلقات پیدا کرنے کے لئے اسلام کا خیال سب پر مقدم ہے ۔ لونڈیوں کی بابت یہ مسئلہ یاد رکھنا چاہئیے کہ ان کی اولاد غلام ہو گی ۔جب تک کہ وہ لونڈی کے مالک سے نہ ہو ۔ آزاد عورت کی اولاد آزاد ہی ہو گی خواہ باپ کیسا ہی ہو ۔ نیز یہ کہ آج کل لونڈی اور غلام قطعا نہیں ہیں ۔ اس کا بیان سورہ نساء میں بھی آئے گا ۔۔۔ ان شاء الله ۔

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں