نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مشرکہ سے نکاح ۔۔۔ ۲۲۱ - (ا)۔

مشرکہ سے نکاح

وَلَا تَنكِحُوا ۔۔۔۔ الْمُشْرِكَاتِ ۔۔۔۔۔۔   حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  يُؤْمِنَّ
اور نہ تم نکاح کرو ۔۔۔ مشرک عورتیں ۔۔۔ یہانتک ۔۔۔ وہ ایمان لائیں 

وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ

اور مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں ۔ 

اَلْمُشرِكَات ۔ (مشرک عورتیں ) ۔ مشرکہ کی جمع ہے ۔ یہ لفظ شرک سے بنا ہے ۔ یعنی وہ عورت جو الله تعالی کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹہراتی ہو ۔ یہ لفظ اپنے وسیع اور عام معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ اس حکم میں ہر کافر عورت داخل ہے ۔ محض بت پرست ہونا لازمی نہیں ۔ 
امام مالک اور امام شافعی کی فقہ میں ہر غیر مسلم عورت سے نکاح ناجائز ہے ۔ لیکن حنفی علماء کے نزدیک عام قاعدے کے لحاظ سے تو ہر غیر مسلمہ سے نکاح ناجائز ہے ۔ لیکن اہلِ کتاب یعنی یہودی یا نصرانی عورتوں سے نکاح جائز ہے ۔ جس کی اجازت شریعت میں باقاعدہ موجود ہے ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے مسلمانوں کو مشرک عورتوں سے نکاح کرنے کی ممانعت فرمائی ہے ۔ اس حکم کی مزید تشریح یہ ہے کہ 
1. ہندو ، سکھ یا آتش پرست عورت سے نکاح درست نہیں ۔ 
2. اہل کتاب عورتوں سے نکاح جائز ہے ۔ لیکن بہتر نہیں ہے ۔ حضرت عمر نے اسے ناپسند فرمایا ۔ احادیث میں بھی دیندار عورت سے ہی نکاح کرنے کی ترغیب اور تاکید موجود ہے ۔ 
3. ایسی عورت جو اپنی وضع قطع سے اہل کتاب معلوم ہوتی ہو ۔ لیکن بعد میں تحقیق کرنے سے پتہ چل جائے کہ اس کا عقیدہ اہل کتاب والا نہیں ہے ۔ تو اس سے بھی نکاح درست نہیں ہے ۔ 
غرض ہر اس عورت سے نکاح ناجائز ہے جو مؤمن نہ ہو ۔ اسلام نے نکاح کے سلسلے میں ذات ، نسل ، رنگت وغیرہ قید نہیں لگائی ۔ بلکہ صرف ایمان دار اور درست عقیدہ ہونے کی شرط لگائی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ انتہائی الفت اور رفاقت کا ہوتا ہے ۔ دونوں میں گہری مناسبت کا ہونا لازم ہے ۔ میاں بیوی کا تمام عمر کامیابی کے ساتھ نباہ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ  بیوی شوہر کی زندگی کے اصل اُصول یعنی توحید و رسالت کی منکر نہ ہو ۔ اگر یہ مناسبت نہیں ہے تو اُن کی زندگی کے ہر پہلو میں کامیابی کے ساتھ چلتے جانا بالکل ناممکن ہے ۔ اور اس سے بھی بڑی خرابی اولاد کی تربیت ، مذہب اور مستقبل پر پڑتی ہی ۔ باپ اپنی طرف کھینچتا ہو اور ماں اپنی طرف ۔ نتیجہ ظاہر ہے ۔ 
خاوند اپنی گھریلو زندگی کے تمام معاملات کا فیصلی اسی عقیدے کی روشنی میں کرے گا ۔ بیوی اپنے عقیدے کے مطابق  سوچے گی ۔ اور دونوں میں زبردست اختلاف اور جھگڑا ہوتا رہے گا ۔ اس کا بُرا اثر ان کےبچوں پر پڑے گا اور اولاد کا مستقبل خراب ہوجائے گا ۔ اس لئے حکم ہوا کہ اس قدر تباہ کرنے والے نتائج سے بچنے کے لئے مشرکہ سے نکاح نہ کیا جائے ۔ یہود اور مسیحوں کے ہاں بھی مذہبی طور پر یہ پابندی موجود ہے ۔ یہ دوسری بات ہے کہ آج وہ اس پر عمل نہ کریں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...