*ذبح گاؤ کا حکم*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔  قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُوسَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِقَوْمِهِ 
اور جب ۔۔۔ کہا ۔۔۔ موسٰی علیہ السلام ۔۔۔ اپنی قوم کے لئے 
إِنَّ ۔۔۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَأْمُرُكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَن ۔۔۔۔۔۔   تَذْبَحُوا 
بے شک ۔۔۔ الله ۔۔۔۔ وہ حکم  دیتا ہے تم کو ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ تم ذبح کرو 
بَقَرَةً ۔۔۔۔۔۔۔۔   قَالُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَتَتَّخِذُنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ هُزُوًا 
گاۓ ۔۔۔ کہا انہوں نے ۔۔۔ کیا تو بناتا ہے ہم کو ۔۔۔ مذاق 
قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَعُوذُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِاللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أَنْ 
کہا اس نے ۔۔۔ میں پناہ میں آتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ الله تعالی کی ۔۔۔۔ یہ 
أَكُونَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الْجَاهِلِينَ۔.     6️⃣7️⃣
میں ہو جاؤں ۔۔۔ سے ۔۔۔ جاہل ( جمع ) 

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ 
أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ.     6️⃣7️⃣
اور جب موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا  بے شک الله تعالی تمہیں فرماتا ہے کہ گائے ذبح کرو ۔ وہ کہنے لگے کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو  فرمایا   الله کی پناہ کہ میں جاہلوں میں ہوں ۔ 

اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ۔۔ ( کیا تو ہم سے ہنسی کرتا ہے ) ۔  بنی اسرائیل کے نزدیک گائے بہت مقدس تھی ۔ جب حضرت موسٰی علیہ السلام نے انہیں الله تعالی کا حکم سنایا کہ گائے ذبح کرو تو وہ ہکا بکا رہ گئے ۔ انہیں یقین نہ آیا کہ ایسے مقدس جانور کو ذبح کر ڈالنے کا حکم ملا ہو گا ۔ وہ یہی سمجھے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام مذاق کر رہے ہیں ۔ 
اَلْجٰھِلِیْنَ ۔ ( جاہل ) ۔ یہ لفظ جہل سے بنا ہے ۔ اس کے لغوی معنی ہیں کسی کام کو اس صحیح طریقے کے اُلٹ کرنا جو اس کے لئے مقرر ہے ۔
اگر اس کی وجہ لاعلمی ہے تو جہل سادہ ہے ۔ اور اگر جان بوجھ کر اُلٹا چلتا ہے تو جہل مرکب ہے ۔ 
حضرت موسٰی دونوں سے الله تعالی کی پناہ مانگتے ہیں ۔ 
الله جل جلالہ کے نام پر جو شخص خود اپنا حکم چلانا چاہتا ہے ۔ وہ یا تو الله تعالی سے غافل ہے یا جاہل ہے ۔ اور دین میں ہنسی مذاق کے نتیجوں سے بے خبر ہے ۔ 
بنی اسرائیل میں ایک شخص   ( عامیل ) نامی مارا گیا تھا ۔ لیکن قاتل کا سُراغ نہ ملتا تھا ۔ الله تعالی نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیں کہ وہ ایک گائے ذبح کریں اور اس کے گوشت کا ایک  ٹکڑا مقتول کے جسم پر ماریں ۔ اس سے وہ مقتول زندہ ہو جائے گا ۔ اور قاتل کا پتہ بتا دے گا ۔ 
صدیوں سے مصر میں رہنے کی وجہ سے ۔بنی اسرائیل گائے کو بہت مقدس سمجھنے لگے تھے ۔ اس لئے انہیں یہ گمان ہوا کہ موسٰی علیہ السلام ہنسی کر رہے ہیں ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے ان کے گمان کو دور کر دیا اور سمجھا دیا کہ پیغمبر دین کی باتوں میں یا الله تعالی کے حکموں میں  ہنسی مذاق کبھی نہیں کرتے ۔  ہنسی مذاق تو جاہلوں کا کام ہوتا ہے ۔ سمجھ دار انسان ایسی حرکتیں نہیں کرتے ۔ جو وقار اور عزت کے خلاف ہوں ۔ اور جن سے دین کی توہین ہوتی ہو ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*سرمایۂ عبرت*

فَجَعَلْنَا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  هَا ۔۔۔۔  نَكَالًا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بَيْنَ 
پھر بنا دیا ہم نے ۔۔۔ اس کو ۔۔۔ عبرت ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔۔ جو 
يَدَيْهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خَلْفَهَا   
سامنے تھے اس کے ۔۔۔ اور جو ۔۔۔ پیچھے تھے اس کے
.وَمَوْعِظَةً۔  ۔۔۔۔۔۔    لِّلْمُتَّقِينَ۔  6️⃣6️⃣
اور نصیحت ۔۔۔ پرھیزگاروں کے لئے 
فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا
خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ.   6️⃣6️⃣
پھر ہم نے اس واقعہ کو ان لوگوں کے لئے عبرت کیا جو وہاں تھے اور جو پیچھے آنے والے تھے ۔ اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت بنایا ۔ 

نَکَالاً ۔ ( عبرت ) ۔ اس کے معنی ہیں ایسی سزا اور واقعہ جو دوسروں کو سبق سکھائے اور جس سے دوسرے نصیحت پکڑیں ۔ 
بنی اسرائیل کی تاریخ کے اہم واقعات قرآن مجید میں الله جل شانہ اس لئے بیان فرمائے  کہ ایک طرف خود یہود کو شرمساری اور ندامت ہو ۔ وہ اپنی حقیقت کو پہچان لیں ۔ اور سیدھی راہ کی طرف مائل ہوں ۔ اور دوسری طرف مسلمانں کو تنبیہ ہو ۔ وہ پہلی قوموں کے واقعات سے عبرت اور نصیحت حاصل کریں ۔ اپنے اعمال کا جائزہ لیں ۔ سبق حاصل کریں اور قرآن مجید کی روشنی میں اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں ۔ 
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد الله جل جلالہ نے اس آیہ میں اعلان فرما دیا ہے کہ اسے اس وقت کے لوگوں اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے نشانہ عبرت اور سرمایۂ نصیحت بنا دیا گیا ہے ۔  تاکہ لوگ الله تعالی کے احکام کی نافرمانی کے انجام سے آگاہ رہیں ۔ ہر لمحہ محتاط رہیں ۔ خاص طور پر متقین کے لئے اس واقعہ میں خاص سبق ہے ۔ کہ انسان کے لئے تقوٰی ہی تمام نیکیوں کی جڑ ہے ۔ اور الله تعالی کی نافرمانی بڑے عذاب کی وجہ بنتی ہی ۔
 صورت کا بدل جانا ۔ انسان کا بندر بن جانا معمولی بات نہیں ۔ انسان کو الله تعالی کے عذاب اور غصہ سے ڈرتے رہنا چاہئیے 
اس آیت سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دنیا کے پچھلے واقعات سے انسان کس قدر نصیحت حاصل کر سکتا ہے ۔ حقیقت میں قرآن مجید نے یہ بات نہایت وضاحت سے ذہن نشین کرا دی ہے کہ تاریخ کا فائدہ انسان کے لئے کیا ہے ۔ اور یہ کہ ہر واقعہ تاریخ  بننے کے قابل نہیں ۔ صرف وہی واقعات تاریخ کہلانے کے مستحق ہیں جن سے انسان کوئی اچھا سبق حاصل کر سکے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*صورتیں مسخ ہو جانا*

وَلَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   عَلِمْتُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الَّذِينَ 
اور البتہ تحقیق ۔۔۔ جان لیا تم نے ۔۔۔ وہ لوگ 
 اعْتَدَوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مِنكُمْ ۔۔۔۔۔   فِي    ۔۔۔۔  السَّبْتِ 
زیادتی کی انہوں نے ۔۔۔ تم میں سے ۔۔۔ میں ۔۔۔ ہفتہ کا دن 
فَقُلْنَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَھُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  کُونُوا۔   
پس کہا ہم نے ۔۔۔ ان کے لئے ۔۔۔ ہو جاؤ 
۔ قِرَدَةً ۔۔۔خَاسِئِينَ۔ 6️⃣5️⃣
بندر ۔۔۔ ذلیل 

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ.    6️⃣5️⃣
اور تم ان لوگوں کو خوب جان چکے ہو جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے دن میں زیادتی کی تھی تو ہم نے ان سے کہا ذلیل بندر ہو جاؤ ۔ 

مِنْکُم۔۔ ( تم میں سے ) ۔ اس سے مراد یہودیوں کے آباء و اجداد ہیں ۔ 
اَلسَّبْت ۔ ( ہفتہ کا دن ) ۔ سبت کے لفظی معنی ہیں ہفتہ ۔ یعنی شنبہ ( سٹر ڈے ، سینچر ) ۔ جس طرح عیسائیوں کے ہاں اتوار اور مسلمانوں کے ہاں جمعہ مقدس دن ہے ۔ اسی طرح یہودیوں کے ہاں ہفتہ مقدس دن شمار ہوتا ہے ۔ یہ  دن ان کے ہاں صرف الله کی عبادت کے لئے مخصوص ہے ۔ اور اس دن دنیا کے کام مثلا تجارت ، زراعت یا شکار وغیرہ ممنوع ہیں ۔ 
اَعْتَدُوْا ۔ ( زیادتی کی ) ۔ یعنی اپنی شریعت کی حدوں سے آگے نکل گئے ۔ لفظ عدوان اس کا مصدر ہے ۔ جس کے معنی سرکشی کرنا اور حد سے بڑھ جانا ہے ۔ 
حضرت داود علیہ السلام کے زمانے میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد اَیلہ ( فلسطین کے جنوب )  کے مقام پر آباد تھی ۔ یہ واقعہ اسی آبادی کا ہے ۔ یہ لوگ الله تعالی کے حکم کی خلاف ورزی بڑی چالبازی سے کرتے تھے ۔ انہیں حکم تھا کہ سبت یعنی ہفتہ کے دن مچھلی کا شکارہرگز  نہ کیا کریں ۔ الله تعالی کو ان کی آزمائش بھی درکار تھی ۔ عام طور پر سبت کے دن  بڑی کثرت سے مچھلی آتی ۔ 
یہودیوں نے الله جل جلالہ کے حکم کی ظاہری صورت برقرا رکھتے ہوئے بہانے سے ایک ترکیب نکالی ۔ وہ ہفتہ کے دن دریا کے قریب گڑھے کھود لیتے ۔ مچھلی بڑی مقدار میں پانی کے ساتھ ان گڑھوں میں پہنچ جاتی ۔ اور کے بعد دریا کی طرف والا راستہ بند کر دیتے ۔ اور اگلے روز ان گڑھوں سے مچھلی نکال لیتے ۔ 
اس مسلسل نافرمانی پر الله جل جلالہ نے انہیں یہ سزا دی کہ وہ انسان سے بندر بنا دئیے گئے ۔ اور اُن کی صورتیں مسخ کر دی گئیں ۔ 
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض باتیں الله تعالی کی طرف سے صرف آزمائش کے لئے آتی ہیں ۔ یعنی ان سے صاف طور پر یہ واضح کرنا مقصود ہوتا ہے کہ الله کے بندے سختی اور آسائش و آرام دونوں حالتوں میں اس کے فرمانبردار رہتے ہیں ۔ جو بندہ آزمائش میں پورا اترے اس کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں ۔ لیکن بے صبروں کے لئے سزا بہت سخت ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*قانون سے منہ موڑنے کی سزا*

ثُمَّ ۔۔۔۔۔ تَوَلَّيْتُم ۔۔۔۔۔  مِّن ۔۔۔۔بَعْدِ ۔۔۔۔۔۔۔ذَلِكَ 
پھر ۔۔ تم بدل گئے ۔۔۔ سے ۔۔۔ بعد ۔۔ اس کے 
فَلَوْلَا ۔۔۔فَضْلُ ۔۔۔۔۔اللَّهِ ۔۔۔۔عَلَيْكُمْ 
پس اگر نہ ۔۔۔ فضل ۔۔۔ الله ۔۔۔ تم پر 
وَرَحْمَتُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَكُنتُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مِّنَ 
اور رحمت اس کی ۔۔۔۔ تو تم ہوتے ۔۔۔ سے 
الْخَاسِرِينَ۔  6️⃣4️⃣
خسارہ پانے والے ۔۔۔۔ 

ثُمَّ تَوَلَّيْتُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ
لَكُنتُم مِّنَ الْخَاسِرِينَ.  6️⃣4️⃣

 پھر تم اس کے بعد پھِر گئے  پس اگر تم پر الله کا فضل اور اس کی مہربانی نہ ہوتی تو تم ضرور تباہ ہو جاتے ۔

خَاسِرِیْنَ ۔ ( تباہ ہونے والے )  خُسرٌ اس کا مادہ ہے ۔ اور خسارہ بھی اسی لفظ سے بنا ہے ۔ اس کے معنی گھاٹا اور نقصان کے ہیں ۔ خاسرین کا معنی ہے گھاٹا کھانے والے اور نقصان اٹھانے والے ۔ یعنی وہ لوگ جن کی دنیا بھی خراب ہو اور آخرت بھی ۔ 
بنی اسرائیل کی تاریخ بتاتی ہے کہ الله کریم نے ان پر بہت احسان اور انعام کئے ۔ لیکن وہ ہمیشہ شکر گزاری کی بجائے ناشکری اور فرمانبرداری کی جگہ نافرمانی ہی کرتے رہے ۔ الله جل شانہ نے انہیں فرعون کی غلامی سے نجات دی ۔ اور جزیرہ نمائےسینا کے جنگلوں میں انہیں رہنے کو کہا ۔ تاکہ وہاں دیہاتی اور صحرائی زندگی بسر کرنے سے ان کے اندر ایک آزاد اور مجاہد قوم کی خوبی اور جذبات پیدا ہوں ۔ مدتوں کی غلامی کے اثرات سے نجات ملے ۔ لیکن انہوں نے اسے پسند نہیں کیا ۔ وہ شہری زندگی کے طلب گار ہوئے  تاکہ شہر میں طرح طرح کے میوے کھائیں ۔ کاہلی اور سستی کی زندگی بسر کریں ۔ اور عیش و آرام میں پڑے رہیں ۔ 
الله جل شانہ نے ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دی
وہ حضرت موسٰی سے اصرار کرتے تھے کہ وہ انہیں ہدایت نامہ لا کر دیں ۔ تاکہ وہ اس کی پیروی کریں ۔ الله تعالی نے انہیں تورات عنایت کی اور وعدہ لیا کہ وہ ہمیشہ اس کی پیروی کریں گے ۔ اور کبھی سرکشی پر آمادہ نہ ہوں گے ۔ 
تورات مل جانے کے بعد انہوں نے اپنا عہد توڑ ڈالا اور سرکشی کرنے لگے ۔ الله رحیم و کریم نے ان کی یہ خطا بھی معاف فرمادی ۔ اگر اس کا فضل اور اس کی رحمت شاملِ حال نہ ہوتا تو بنی اسرائیل عذابِ آخرت کے مستحق ہونے کے علاوہ اُسی وقت دنیا میں تباہ اور رُسوا ہو جاتے ۔ 
الله تعالی نے اپنی رحمت سے حضرت سموئیل ، حضرت داود ، حضرت سلیمان اور دوسرے انبیاء علیھم السلا م کو بھیج کر بنی اسرائیل کو نصیحت اور ہدایت کی راہ بتائی ۔ ان انبیاء نے انہیں راہ راست پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ یہ الله کا فضل تھا ۔ ورنہ یہودی تو اپنی تباہی کا سامان کر ہی چکے تھے ۔ 
انسان کے بچاؤ اور زندگی کا سب سے بڑا سہارا الله رحیم و کریم کی رحمت اور مہربانی ہے ۔ اگر وہ اپنا فضل و کرم نہ فرمائے اور چشم پوشی نہ کرے  تو انسان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ۔

درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*کوہ طور کا بلند ہونا*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔۔ أَخَذْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِيثَاقَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَرَفَعْنَا 
اور جب ۔۔۔ ہم نے  لیا ۔۔۔ پکا وعدہ تم سے ۔۔۔ اور بلند کیا ہم نے 
فَوْقَكُمُ ۔۔۔ الطُّورَ ۔۔۔۔۔ خُذُوا ۔۔۔۔۔ مَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آتَيْنَاكُم 
اوپر تمھارے ۔۔۔ طور ۔۔۔تم  پکڑو ۔۔۔ جو ۔۔۔ دیا ہم نے تم کو 
بِقُوَّةٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاذْكُرُوا ۔۔۔۔۔۔ مَا 
مضبوطی سے ۔۔۔۔ اور یاد کرو ۔۔۔ جو 
فِيهِ ۔۔۔۔۔۔ لَعَلَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔تَتَّقُونَ۔ 6️⃣3️⃣
اس میں ہے ۔۔۔ تاکہ تم  ۔۔۔۔۔۔۔ڈرو 

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ 
وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.   6️⃣3️⃣
اور جب ہم نے تم سے اقرار لیا  اور تمہارے اوپر کوۂ طور بلند کیا  کہ ہم نے جو کتاب تمہیں دی ہے  اسے مضبوطی سے پکڑو  اور اس میں جو کچھ ہے اسے یاد رکھو تاکہ تم متقی بنو ۔ 

الطّور ۔۔۔( طور ) ۔ طور عربی میں ہر پہاڑ کو کہتے ہیں ۔ جزیرہ نماۓ سینا کے ایک خاص پہاڑ کا نام بھی طور ہے ۔ اسے جبل 
سینا بھی کہتے ہیں ۔
اُذْکُرُوا مَا فِیہ ۔۔۔ ( جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو ) ۔ تورات میں جو مضامین موجود ہیں انہیں یاد رکھو تاکہ تم ان پر عمل کر سکو ۔ الله جل شانہ کے احکام یاد کرنے سے غرض یہی ہوتی ہے کہ ان پر عمل کیا جائے ۔ 
تتَّقُونَ ۔ ( تم ڈرو )  ۔ یہ لفظ تقوٰی سے ہے ۔ تقوٰی الله کریم سے ڈرنے اور احتیاط سے زندگی بسر کرنے کا نام ہے ۔ 
جسے پرہیز گاری اور نیکو کاری بھی کہتے ہیں ۔ اسلام نے اسے انسان کی سب سے بڑی خوبی اور کمال بیان کیا ہے ۔
بنی اسرائیل حضرت موسٰی علیہ السلام سے بار بار اصرار کرتے تھے کہ ہمارے لئے احکام کی ایک مستند کتاب لا دیجئے تاکہ اس ہر عمل کر سکیں ۔ یہ لوگ وعدے کرتے تھے کہ دین کی پوری پوری پیروی کریں گے ۔لیکن جب انہیں تورات دی گئی تو اس کی مخالفت کرنے لگے ۔ اور کہنے لگے تورات کے حکم تو بہت بھاری اور مشکل ہیں ہم سے ان پر عمل نہیں ہو سکتا ۔ 
الله جل جلالہ نے انہیں اس نافرمانی اور بغاوت سے روکنے کے لئے کوہ طور کو حکم دیا جو ان سب کے سروں پر بلند ہو گیا یہ دیکھ کر بنی اسرائیل ڈر کے مارے کانپنے لگے ۔ اور ان میں مخالفت کی جرأت با قی نہ رہی ۔ اب تورات کے احکام کو ممجبوراً قبول کیا 
بنی اسرئیل سے اس مقام پر یہ  اقرار لیا گیا تھا کہ وہ تورات کے ماننے میں چون وچرا اور حیلے بہانوں سے کام نہیں لیں گے ۔ انہیں کہا گیا اس آسمانی کتاب کے احکام اور مضامین کو زندگی بسر کرنے کا قانون بناؤ ۔ ان پر پابندی سے عمل کرو ۔ تاکہ تم میں تقوٰی اور الله تعالی کا ڈر خوف پیدا ہو ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ  

*مفعول معہ*

مفعول معہ ۔۔ اس مفعول منصوب کو کہتے ہیں جو "واو معیت 
with 
کے بعد فعل کے معمول  کا ساتھی یا شریک بن کر آتا ہے ۔ مثال سے سمجھو 
سِرْتُ والنّھر 
میں نہر کے ساتھ چلی ۔ 
اور 
سَافَر النَّاسُ  و الظَّلاَ مَ 
لوگوں نے تاریک کے ساتھ ساتھ سفر کیا ۔ 
ہر جملے میں پہلے ایک فعل اپنے معمول کے ساتھ آیا ہے ۔ اس کے بعد "واو" ہے جو مع کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد ایک اسم آیا جو " منصوب " ہے یہ اسم فعل کا معمول نہیں بلکہ ساتھی  بن کر آیا ہے ۔ 
ترکیب دیکھو ۔۔۔ 
سِرْتُ وَ النَّھْرَ 
سِرْتُ ۔۔۔ سار ۔۔ فعل اور اس میں ۔۔۔ "تُ" ضمیر متصل فاعل ہے ۔ اس کے بعد مع کے معنی میں "و"  اور "و" کے بعد النھرَ  اسم ۔۔ منصوب  آیا ہے ۔ جو فعل کے معمول یعنی ضمیر واحد  متکلم "تُ" کے ساتھ چلنے میں شریک ہے ۔ 
مطلب یہ ہوگا ۔۔۔ میں ندی کے ساتھ ساتھ چلی ۔۔۔ یعنی چلنے کے دوران ندی میرے ساتھ ساتھ رہی ۔ 
اسی طرح ۔۔ 
سَافَرَ النَّاسُ وَ الظَّلامَ 
سافر ۔۔۔ فعل ۔۔۔ النّاس ۔۔۔ فاعل  اس کا معمول ہے ۔۔۔ واؤ مع کے معنی میں اور اس کے بعد " الظّلام" منصوب ہو کر آیا ہے ۔ جو فعل کے معمول یعنی " النّاس " کا سفر کے دوران شریک رہا ۔۔۔ مطلب یہ ہوا کہ ۔۔۔ لوگوں نے تاریکی کے ساتھ ساتھ سفر کیا ۔۔۔ یعنی لوگوں کے سفر کے دوران تاریک بھی ساتھ رہی ۔ 
خوب دھیان سے سمجھ لو ۔ 
مفعول کی حالت نصبی ۔۔۔ یعنی ۔۔ زبر والی ہوتی ہے 
علم النحو ۔۔۔ میں 
بعض اوقات کلمہ پر  " زبر " نظر نہیں آتی لیکن  اس کی حالت  نصبی ہوتی ہے ۔۔۔ 

*مفعول فیہ*

سمجھ لو کہ ۔۔۔" فیہ "۔۔ قواعد میں  جہاں بھی ہو گا  ظرف کا معنی دے گا ۔ یعنی اس میں یا تو " وقت " کا ذکر ہو گا یا پھر " جگہ" کا ۔ اور جیسا کہ معلوم ہے ظرف کی دو قسمیں ہیں 
ظرف زماں اور ظرف مکاں 
اب ۔۔ مفعول فیہ ۔۔ وہ مفعول منصوب ہے جس سے کام ہونے کے وقت یا جگہ کا پتہ چل سکے ۔ 
جیسے ۔۔ مَکَثْتُ فی لاھور شھراً ۔۔ میں لاھور میں ایک مہینہ ٹھری ۔ 
یعنی مدت معلوم ہوئی 
شرِبَ المریضُ الدواء  مَسَاءً ۔  ۔۔۔ مریض نے شام کو دوا پی ۔ 
شرب ۔۔ فعل ۔۔۔ المریض ۔۔۔ فاعل ۔۔ دوا ۔۔۔ مفعول ۔۔۔ اور مساء ۔۔ مفعول فیہ 
یہ تو ہوئی ظرف زماں کی مثال 
اور ظرف مکاں میں جگہ کے بارے میں علم ہوتا ہے ۔ 
جَرَیٰ عَلِیُّ مِیْلاً ۔۔ علی ایک میل دوڑا 
مَشَیْتُ اَمْسِ فَرْسَخاً  
میں شام کو ایک فرسخ چلی ۔ 
۔ (ایک  میڑ چلی ایل ڈی کی طرف ) ۔ 
سمجھے کہ نہ سمجھے ۔

*مفعول لہ*

مفعول لہ ۔۔ وہ مفعول ہے جو کام کرنے کی وجہ بتائے ۔  مفعول لہ کا معنی بنتا ہے " اس کے لئے " یا " اس کی وجہ سے " ۔ جیسے 
عاقِبَ الاستاذُ التلمیذَ تادیباً ۔۔۔ استاد نے ادب سکھانے کے لئے شاگرد کو سزا دی 
یہ مفعول بتاتا ہے کہ فعل کس وجہ سے کیا گیا ۔ 
عَاقبَ ۔۔ فعل ۔۔ الاستاذُ ۔۔۔ فاعل ۔۔۔ التلمیذَ ۔۔۔ مفعول  ۔۔۔ تادیبا۔۔۔ مفعول لہ    
اور سب مل کر جملہ فعلیہ 
اب مفعول مطلق اور مفعول لہ میں فرق یہ ہے کہ دونوں مصدر ہوتے ہیں ۔۔۔مفعول مطلق اپنے فعل کا مصدر ہوتا ہے  یعنی فعل اور مفعول ایک ہی مصدر سے آتے ہیں ۔ 
اور مفعول لہ اپنے فعل کے مصدر سے مختلف   مصدر ہوتا ہے ۔ 
ضربتُ ضرباً ۔۔۔ اور 
قُمْتُ احتراماً ۔۔  
قاعدہ اس کا یہ ہے  "مفعول لہ " ۔ وہ مصدر منصوب ہے جو کام کے کرنے کی وجہ بتائے ۔ 
مفعول مطلق ۔۔۔۔ تاکید ، کیفیت یا تعداد بتاتا ہے ۔ اور مفعول لہ وجہ یا سبب بتاتا ہے ۔ 
کچھ سمجھ آئی ۔۔ یا پہلی بھی گئی 

*مفعول*

*مفعول مطلق* 
مفعول مطلق مصدر ہوتا ہے ۔ وہ مصدر جو مفعول ہو اور اس سے پہلے اسی مصدر سے فعل آیا ہو ۔ 
مثال ۔۔۔ لَعِبَ حسنٌ لَعْباً  
حسن کھیل کھلتا ہے ۔ 
غور کرو ۔۔لعبٌ  مصدر ہے ۔ لَعِبَ ۔۔۔ فعل ماضی ۔۔۔ فعل ۔۔۔ حسن ۔۔۔ فاعل ۔۔۔ اور 
  لَعْبًا ۔۔۔۔ اسی مصدر سے مفعول آ رہا ہے 
مفعول مطلق کا استعمال تین طرح سے ہوتا ہے ۔ 
ایک ۔۔۔ فعل کی تاکید کرنے کے لئے ۔۔۔  یَشْرِبُ الطِّفْلَ اللَّبَنَ شُرباً ۔۔۔ بچے نے واقعی دودہ پیا 
 ضَرَبَ الْخادِمُ العَقْرَبَ ضَرْبَۃً۔ ۔۔۔ خادم نے بچھو کو مار ڈالا 

دو ۔۔۔ فعل کس قسم کا ہے یہ بیان کرنے کے لئے ۔۔۔۔ مَشٰی الطِّفْلُ مِشْیَۃ الْوَالد ۔۔۔ یعنی نوعیت بیان کر رہا ہے ۔۔۔ بچہ باپ کی طرح چلا ۔ اور 
جَلَسْتُ جَلْسَۃَ القَارِی ۔۔۔ میں پڑھنے والے کی طرح بیٹھا ۔۔۔ جلستُ ۔۔۔ فعل  ۔۔فاعل اور جَلْسہ۔۔ مفعول مطلق 

تین ۔۔۔ تعداد بیان کرنے کے لئے ۔۔۔ تَدُورُ الْاَرْضُ دَوْرَۃً فِی الْیَوْم ۔۔۔ زمین ایک دن میں کئی چکر لگاتی ہے ۔ 
ضربْتُ الْفاطمہ ضربۃً ۔۔۔ میں نے فاطمہ کو ایک چپیڑ لگائی 

قاعدہ اس کا یہ ہے کہ قسم یا نوعیت بیان کرنے کے لئے " فِعْلَۃً "  کے وزن پر ۔۔۔ اور ۔۔۔ تعداد بیان کرنے کے لئے " فَعلَۃً " کے وزن پر مصدر بنایا جاتا ہے 
سمجھ میں آیا ۔۔۔ خوب سمجھ لو 




*ایمان اور عمل صالح کا اجر*

إِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَالَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔هَادُوا 
بے شک ۔۔۔ جو لوگ ۔۔۔ ایمان لائے ۔۔۔ اور جو لوگ ۔۔۔ یہودی ہوئے
وَالنَّصَارَى ۔۔۔۔۔۔۔۔وَالصَّابِئِينَ ۔۔۔۔۔مَنْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمَنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بِاللَّهِ 
اور عیسائی ہوئے ۔۔۔۔ اور صابئین  ۔۔۔۔ جو ۔۔۔ ایمان لایا ۔۔۔ الله تعالی پر 
وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَعَمِلَ ۔۔۔۔۔۔صَالِحًا 
اور آخرت کا دن ۔۔۔۔۔۔ اور عمل کیا ۔۔۔ اچھا 
فَلَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أَجْرُهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عِندَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رَبِّهِمْ 
پس ان کے لئے۔۔۔ اُن کا اجر ہے ۔۔۔ پاس ۔۔۔ ان کے رب کے 
وَلَا ۔۔۔خَوْفٌ ۔۔۔۔عَلَيْهِمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَلَا   
اور نہ ۔۔۔ خوف ۔۔۔۔ ان پر ۔۔۔ اور نہ 
هُمْ ۔۔۔۔يَحْزَنُونَ۔  6️⃣2️⃣
وہ ۔۔۔۔۔۔ غمگین ہوں گے 

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ 
وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ. 6️⃣2️⃣
بے شک جو لوگ مسلمان ہوئے اور جو لوگ یہودی ہوئے اور نصارٰی اور صابئین   جو ایمان لایا ان میں سے الله تعالی پر اور روزِ آخرت پر  اور نیک کام کئے ۔ تو ان کے لئے ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے ۔ اور ان پر کچھ خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔

آمَنُوْا ۔۔۔ ( ایمان لائے ) ۔ یہاں ایمان لانے سے مراد مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جانا ہے ۔
ھادُوْا ۔ ۔۔ ( یہودی ہوئے ) ۔ جو لوگ یہودیوں کے گروہ میں شامل ہیں خواہ بنی اسرائیل ہوں یا نہ ہو ۔ 
نَصَارٰی ۔۔۔ ( نصارٰی ) ۔ نصرانی کی جمع ہے ۔ فلسطین میں ایک قصبہ ناصرہ ہے ۔ جہاں حضرت عیسٰی علیہ السلام  پیدا ہوئے تھے ۔ اسی قصبہ کی نسبت سے حضرت عیسٰی مسیح ناصری کہلاتے ہیں ۔ اور آپ کے ماننے والوں کو نصارٰی کہا جاتا ہے ۔ یعنی ناصرہ میں پیدا ہونے والے مسیح کی امت ۔
آلصّابِئینَ ۔۔۔ ( صابئین ) صابی کے لفظی معنٰی ہیں اپنے دین سے منہ موڑ کر کسی اور دین کی طرف مائل ہو جانے والا ۔ صابی عرب کا ایک فرقہ تھا ۔ وہ حضرت ابراہیم کو مانتے ۔ فرشتوں کی پرستش کرتے ۔ زبور پڑھتے ۔ اور عبادت میں کعبہ کی طرف منہ کرتے تھے ۔ یعنی ہر دین میں سے جو اچھا لگا اس کو اختیار کر لینے والے لوگ تھے ۔ 
الله جل شانہ نے اس آیت میں نام ، خاندان اور نسل کی بڑائی کی غلط فہمی کو دور کیا ہے ۔ اور یہ اعلان کیا ہے کہ الله جل جلالہ کے نزدیک نام اور لقب کوئی چیز نہیں اور نہ ہی اس کے ہاں کسی مخصوص نسل یا قوم کی خاندانی عزت و وقار اور امتیاز  قابل اعتبار ہے ۔ لوگ خوہ کسی نسل یا ملک یا قوم و قبیلہ سے تعلق رکھتے ہوں اور اُن کا فرقہ کچھ بھی ہو اُن کی نجات کے لئے دو باتیں ضروری ہیں ۔ 
ایک ۔۔۔ یہ کہ وہ الله جلالہ اور آخرت کو دل سے مانیں ۔ اور 
دوسرا ۔۔۔۔ یہ کہ وہ نیک کام کریں 
الله جل شانہ کو مانیں گے تو اس کے احکام کو بھی مانیں گے ۔ الله تعالی کے احکام رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے معلوم ہوئے ۔ اس لئے رسول صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانا اس میں شامل ہے ۔ آخرت پر ایمان لائیں گے تو عذاب و ثواب بھی مانیں گے 
مختصر یہ کہ نجات اور جزائے خیر کے لئے الله جل جلالہ کو ماننا اور اس کے احکام کی اطاعت کرنا ضروری ہے ۔ اور آحکام خداوندی پر ایمان حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی رسالت کے اقرار کے بغیر ممکن نہیں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*الله کے غضب کا سبب*

ذَلِكَ ۔۔۔۔۔۔  بِأَنَّهُمْ ۔۔،،،،،،۔۔۔  كَانُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔يَكْفُرُونَ 
یہ ۔۔۔ اس لئے کہ وہ ۔۔۔۔ تھے وہ ۔۔۔ وہ کفر کرتے تھے 
بِآيَاتِ ۔۔۔۔۔۔۔۔اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَيَقْتُلُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔النَّبِيِّينَ 
نشانیوں کا ۔۔۔ الله ۔۔۔ اور وہ قتل کرتے تھے ۔۔۔۔ نبیوں کو 
بِغَيْرِ ۔۔۔۔  الْحَقِّ ۔۔۔۔۔ ذَلِكَ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔بِمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عَصَوا 
بغیر ۔۔۔۔ حق کے ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ اس لئے کہ ۔۔۔ نافرمانی کی 
وَّكَانُوا ۔۔۔۔۔ يَعْتَدُونَ 6️⃣1️⃣
اور وہ تھے ۔۔۔ زیادتی کرنے والے 

ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ 
ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا يَعْتَدُونَ۔  6️⃣1️⃣
یہ اس لئے ہوا کہ وہ الله تعالی کے حکموں کو نہیں مانتے تھے اور پیغمبروں کا ناحق خون کرتے تھے ۔ یہ اسلئے  کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے بڑھتے تھے ۔ 

یَکْفُرُونَ ۔۔۔ ( نہیں مانتے تھے ) ۔ یہ لفظ کفر سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی چھپانا ہیں ۔ اور اصطلاحی طور پر توحید و رسالت کا اقرار نہ کرنے کو کفر کہتے ہیں ۔ کافر اسی سے ہے ۔ یہاں اس سے مراد یہ کہ بنی اسرائیل کفر اور انکار کے عادی بن چکے تھے ۔ 
آیٰتِ اللهِ ۔۔۔ ( الله جل شانہ کی نشانیاں ) ۔ اس کا واحد آیت ہے ۔ جس کے معنی نشانی کے ہیں ۔ قرآن مجید کے گول گول دائروں کو بھی آیت اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ فقروں کے ختم ہونے کا نشان ہوتے ہیں ۔  آیات الله سے مراد  انبیاء کرام کے معجزے بھی لئے جاتے ہیں ۔ آسمانی کتابیں اور الله تعالی کے احکام بھی مراد ہوتے ہیں ۔ 
یَقْتُلُونَ ۔ ( وہ خون کرتے تھے ) ۔ بنی اسرائیل انکار اور سرکشی کی حد سے آگے گزر کر پیغمبروں کو قتل کرتے تھے ۔ وہ حضرت  یسعیاہ ، یرمیاہ  اور یحیٰ علیھم السلام جیسے انبیاء کو قتل کرنے کے درپے ہوئے ۔ 
پچھلی آیات میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ بنی اسرائیل الله جل جلالہ کے عذاب میں مبتلا ہوئے ۔ اُن پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی ۔ اس آیہ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ان پر یہ عذاب کیوں نازل کیا گیا ۔ 
الله جل جلالہ فرماتا ہے کہ بنی اسرائیل دو جرموں میں مبتلا ہو چکے تھے ۔ ایک یہ کہ وہ الله جل شانہ کے احکام پر خوشی خوشی عمل نہیں کرتے تھے ۔ بلکہ خواہ مخواہ بال کی کھال اتارتے ۔ طنز کرتے اور فضول اعتراض کرتے تھے ۔ 
دوسرا جرم یہ تھا کہ انہوں نے اپنے نبیوں کو قتل کیا ۔ الله تعالی نے بنی اسرائیل میں حضرت موسٰی علیہ السلام کے بعد بہت سے نبی بھیجے ۔لیکن انہوں نے کسی کی نہ سنی بلکہ اُن کے دشمن بن گئے ۔ بعض پر بہتان لگائے اور بعض کو قتل کروا دیا ۔ 
  اس کا نتیجہ یہی ہونا تھا ۔ کہ وہ الله جل شانہ کی نشانیوں سے منہ موڑیں اور نبیوں کو قتل کریں ۔ اور اپنے اعمال کی شامت سے عذاب الٰہی میں مبتلا ہوں ۔ 
آج ہمیں ان کی غلطیوں ، کوتاہیوں اور ہٹ دھرمی سے اور نتیجہ میں عذاب میں مبتلا ہونے سے سبق حاصل کرنا چاہئیے ۔ اور عذاب الٰہی سے بچنے کے لئے اپنے آپ کا محاسبہ کرنا چاہئیے ۔ الله تعالی ہمیں راہ حق کی ہدایت دے 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*یہود پر غضب الٰہی*

وَضُرِبَتْ ۔۔۔۔عَلَيْهِمُ ۔۔۔۔۔الذِّلَّةُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَالْمَسْكَنَةُ 
اور ڈال دی گئی ۔۔۔۔۔اُن پر ۔۔۔ ذلّت ۔۔۔۔ اور محتاجی 
وَبَاءُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِغَضَبٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مِّنَ ۔۔۔۔۔۔اللَّهِ
اور وہ لپیٹ میں آگئے ۔۔۔۔ غضب کی وجہ  ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ الله 

وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَهِ
اور ڈالی گئی ان پر ذلّت اور محتاجی اور پھرے الله جل جلالہ کا غصہ لے کر 

ضُرِبَتْ۔۔۔ ( ڈال دی گئی ) ۔ اس کا مادہ ضربٌ ہے ۔ یہ مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً  مارنا ، چلنا ، ڈالنا ، چسپاں اور مسلط کر دینا ۔ یہاں اس سے مراد ہے کہ ذلت ان پر چسپاں کر دی گئی ۔ 
ذِلّۃٌ ۔۔ ( ذلّت ) ۔ خواری اور سیاسی اعتبار سے پستی 
مَسْکَنَةٌ۔۔ ( محتاجی ) ۔ اس سے مراد غربت اور محتاجی ہے ۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہودی امیر ترین قوم ہے ۔ لیکن یہ ایک دھوکا ہے ۔ دھن دولت جتنی بھی ہے ۔ وہ قوم یہود کے بڑے بڑے لوگوں تک محدود ہے ۔ اور ان کے عوام مالی اعتبار سے کمزور ہیں ۔ وطن ، دولت والے بھی بخل اور مال کی محبت کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ 
الله تعالی نے بنی اسرائیل پر طرح طرح کی نعمتیں اور احسانات  کئے ۔ لیکن انہوں نے اس کا شکر ادا نہ کیا ۔ الله جل جلالہ کے قانون کی نافرمانی کرتے رہے ۔ انہیں من و سلوٰی دیا گیا ۔ لیکن انہوں نے اس نعمت پر صبر نہ کیا ۔ بلکہ ادنٰی درجہ کی سبزیاں اور ترکاریاں مانگتے رہے ۔ 
اس ناشکری کی وجہ سے الله جل جلالہ کا غصہ ان پر ظاہر ہوا ۔ ایک تو یہ کہ ان پر ذلت چسپاں کر دی گئی ۔ چنانچہ یہ قوم ہمیشہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ماتحت رہی ۔ اسرائیل کے نام سے ان کی حکومت قائم ہوئی ۔ مگر اس کا قیام بھی مغربی حکومتوں کے سہارے ہوا ۔ اور آج بھی اس کی بقا مغربی ملکوں کی ریشہ دوانیوں  کے سہارے سے ہے ۔ 
اس سبق سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کو الله تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئیے ۔ تاکہ وہ نعمت باقی رہے ۔ کیونکہ جب تک کوئی قوم الله رحیم و کریم کے احسانات کا شکر ادا کرتی رہتی ہے الله تعالی بھی اس پر اپنی نعمتیں نچھاور کرتا رہتا ہے ۔ 
اس کے علاوہ انسان کو کبھی الله جل شانہ کے دین پر اعتراض نہیں کرنا چاہئیے ۔ کہ اگر یوں ہوتا تو بہتر ہوتا ۔ کیونکہ انسان کسی چیز کے انجام کی بھلائی سے واقف نہیں ۔ 
الله کریم ہمیں ہدایت دے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*بنی اسرائیل کی بے صبری*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔۔۔قُلْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔يَا مُوسَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَن نَّصْبِرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عَلَى 
اور جب ۔۔۔۔ کہا تم نے ۔۔۔۔ اے موسٰی ۔۔۔۔ ہرگز نہیں ہم صبر کریں گے ۔۔۔۔ پر 
طَعَامٍ ۔۔۔۔وَاحِدٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَادْعُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رَبَّكَ 
کھانا ۔۔۔ ایک ۔۔۔ پس تو مانگ ۔۔۔ ہمارے لئے ۔۔۔ اپنے رب سے 
يُخْرِجْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مِمَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تُنبِتُ ۔۔۔۔۔۔۔الْأَرْضُ 
وہ نکالتا ہے ۔۔۔ ہمارے لئے ۔۔۔ اس سے جو ۔۔۔ جو اگاتی ہے ۔۔۔۔ زمین 
مِن ۔۔۔۔۔۔بَقْلِهَا ۔۔۔۔۔وَقِثَّائِهَا ۔۔۔۔۔۔ وَفُومِهَا ۔۔۔۔۔ وَعَدَسِهَا 
سے ۔۔۔ سبزی ۔۔۔۔۔ ککڑی ۔۔۔۔۔۔  گیہوں ۔۔۔ اور مسور 
وَبَصَلِهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ الَّذِي 
اور پیاز ۔۔۔۔ اس نے کہا ۔۔۔۔ کیا تم بدلنا چاہتے ہو ۔۔۔ وہ جو 
هُوَ ۔۔۔۔ أَدْنَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بَالَّذِي ۔۔۔۔ هُوَ ۔۔۔۔ خَيْرٌ 
وہ ۔۔۔۔ ادنٰی ۔۔۔۔ بدلہ اس کے ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ بہتر 
اهْبِطُوا ۔۔۔۔۔ مِصْرًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَإِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَكُم ۔۔۔۔۔۔۔مَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سَأَلْتُمْ    
تم اتر جاؤ ۔۔۔ شہر ۔۔۔ پس بے شک ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔۔ جو ۔۔۔ تم نے مانگا 

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِن بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بَالَّذِي هُوَ خَيْرٌ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ   

اور جب کہا تم نے اے موسٰی علیہ السلام ہم ہرگز صبر نہ کرینگے  ایک ہی طرح کے کھانے پر سو دعا مانگ ہمارے واسطے اپنے پروردگار  سے کہ نکال دے ہمارے واسطے۔ جو اُگتا ہے زمین سے ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور میسور اور پیاز  کہا موسٰی علیہ السلام نے کیا لینا چاہتے ہو وہ چیز جو ادنٰی ہے اُس کے بدلے میں جو بہتر ہے  اترو کسی شہر میں تو تم کو ملے جو تم مانگتے ہو ۔ 

مصر ۔۔۔ ( شہر )   مصر کا لفظی معنی ہے شہر  جس کی حد بندی ہو چکی ہو ۔ یہاں اس سے مراد جزیرہ نماۓ سینا کا یا اس کے  گردو نواح کا کوئی شہر مراد ہے ۔ موجودہ ملک مصر اس سے مراد نہیں ۔ 
یہ قصہ بھی اسی جنگل کا ہے ۔ بنی اسرائیل بڑی مدت تک بڑے مزے سے آسمانی غذائیں من اور سلوٰی کھاتے رہے  لیکن اس سے اُکتا گئے ۔ حالانکہ یہ غذائیں انہیں مفت میں مل رہی تھیں ۔ انہوں نے موسٰی علیہ السلام سے فرمائش کی کہ ہمیں اس بیاباں سے نکال کر کسی دوسری جگہ لے چلئے جہاں ہر قسم کے شہری اور دیہاتی کھانے ، سبزیاں اور ترکاریاں موجود ہوں 
حضرت موسٰی علیہ السلام نے پہلے تو انہیں سمجھایا کہ تمھاری فرمائش ٹھیک نہیں ۔ آسمانی غذا جو تمہیں بغیر محنت اور مشقت کے مل جاتی ہے  وہ ان چیزوں سے کہیں بہتر ہے ۔ جس کے لئے محنت درکار ہے ۔ لیکن جب بنی اسرائیل اپنی بات پر اڑے رہے ۔ تو پھر حضرت موسٰی علیہ السلام نے کہا چلو کسی شہر میں جا بسو ۔ وہاں تمہیں تمہاری پسند کے کھانے میسر آجائیں گے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
ترجمہ ۔۔۔ شیخ الہند 

*بارہ چشمے*

وَإِذِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسْتَسْقَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مُوسَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لِقَوْمِهِ َ
اور جب ۔۔۔ پانی طلب کیا ۔۔۔ موسٰی علیہ السلام ۔۔۔۔۔ اپنی قوم کے لئے 
فَقُلْنَا ۔۔۔۔۔۔اضْرِب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِّعَصَاكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔الْحَجَرَ 
پس کہا ہم نے ۔۔۔۔ تو مار ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی لاٹھی کو ۔۔۔ پتھر 
فَانفَجَرَتْ ۔۔۔۔۔۔۔مِنْهُ ۔۔۔۔۔۔اثْنَتَا عَشْرَةَ ۔۔۔۔۔۔۔عَيْنًا 
پس جاری ہوگئے ۔۔۔۔ اس سے ۔۔۔۔۔۔۔ بارہ ۔۔۔۔۔ چشمے 
قَدْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عَلِمَ ۔۔۔۔۔كُلُّ ۔۔۔۔أُنَاسٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مَّشْرَبَهُمْ 
تحقیق ۔۔۔۔ جان لیا ۔۔۔۔ ہر ۔۔۔۔ لوگ  ۔۔۔۔ اپنا پانی پینے کی جگہ 
كُلُوا ۔۔۔۔۔۔وَاشْرَبُوا ۔۔۔۔۔۔مِن ۔۔۔۔۔۔۔۔ رِّزْقِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللَّهِ 
تم کھاؤ ۔۔۔۔ اور تم پیو ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ رزق ۔۔۔۔ الله تعالی 
وَلَا ۔۔۔۔۔۔۔تَعْثَوْا ۔۔۔۔۔۔۔ فِي ۔۔۔۔الْأَرْضِ ۔۔۔۔۔مُفْسِدِينَ.    6️⃣0️⃣
اور نہ ۔۔۔ تم پھرو ۔۔۔ میں ۔۔۔ زمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فساد کرنے والے 

وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ۔   6️⃣0️⃣

اور جب پانی مانگا موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم کے واسطے تو ہم نے کہا مار اپنے عصا کو پتھر پر  سو بہہ نکلے اس سے بارہ چشمے پہچان لیا ہر قوم نے اپنا گھاٹ  کھاؤ اور پیو الله کی روزی۔ اور نہ پھرو  ملک میں فساد مچاتے 

عَصَا ۔۔ ( عصا) ۔ اس کے معنی لاٹھی یا ڈنڈے کے ہیں ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے اس عصا کا ذکر قرآن مجید میں کثرت سے آیا ہے ۔ یہ عصا انہیں معجزے کے طور پر عطا ہوا تھا ۔ اس کو مارنے سے سمندر میں راستہ بن گیا ۔ پتھر سے چشمے بہہ نکلے ۔ اسی عصا نے اژدھا بن کر جادوگروں کے سانپ بچھو ہڑپ کر لئے ۔ 
اِثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْناً ۔۔۔ ( بارہ چشمے ) ۔ بنی اسرائیل جزیرہ نما سینا کے لق و دق بیابان اور ریگستان میں پریشان پھرتے پھرتے ایسی جگہ پہنچے جہاں پانی موجود نہ تھا ۔ کافی تلاش کے بعد بھی جب پانی نہ ملا تو حضرت موسٰی علیہ السلام سے بگڑ گئے ۔ آپ نے الله جل جلالہ سے التجا کی تو حکم ہوا پتھر پر اپنا عصا مارئیے ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے ایسا ہی کیا ۔ تو اس پتھر سے پانی کے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ۔ اور بنی اسرائیل کی قوم میں بارہ ہی قبیلے تھے ۔ کسی میں آدمی زیادہ کسی میں کم ۔ ہر قبیلے کے موافق ایک چشمہ تھا ۔ اور وجہ شناخت بھی یہی موافقت تھی ۔ یا یہ مقرر کر رکھا تھا کہ پتھر کی فلاں سمت سے جو چشمہ نکلے گا وہ  فلاں قوم کا ہو گا ۔ چنانچہ ہر ایک نے اپنے اپنے گھاٹ سے پانی حاصل کیا ۔ 
یہ محض الله جل شانہ کا فضل تھا کہ ان لوگوں کو ایسے خشک جنگل میں پانی مہیا کیا  اور کہا کہ مزے سے الله رحیم و کریم کے دئیے ہوئے رزق میں سے پاک چیزیں کھاؤ  اور پانی پیو ۔ اور زمین میں فتنہ اور فساد نہ پھیلاؤ ۔ 
اس قصے سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں کہ الله جل شانہ  ایسی حالت میں جبکہ بظاہر کوئی سبب اور سہارا نظر نہ آتا ہو ۔ اپنی رحمت اور طاقت سے کھانا پینا مہیّا فرما دیتا ہے ۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اسی سے مانگے اور اس کی رحمت سے کبھی نا اُمید نہ ہو ۔  الله تعالی بڑا رحمت اور شفقت فرمانے والا ہے ۔ اگر انسان الله کریم کی نافرمانی کرے تو اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ اور جو عذاب نازل ہوتا ہے تو وہ خود انسان کے غلط اعمال کے سبب ہوتا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔  مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی ۔ 
ترجمہ ۔۔۔  شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن رحمہ الله تعالی 

*کلام میں لفظی تغیر و تبدل کا شرعی حکم*

الفاظ میں ایسی تبدیلی کہ جس سے الفاظ ہی نہیں اس کے معنی اور مفہوم بھی اُلٹ جائیں  اور بدل  جائیں بالاتفاق حرام ہے ۔ 
یہ تبدیلی قرآن مجید میں ہو یا حدیث مبارکہ میں یا اور کسی امرِ الٰہی میں قطعاً جائز نہیں ۔ کیونکہ یہ حکم الٰہی کا کھلا مذاق اور تحریف ہے ۔ 
اب رہا یہ مسئلہ کہ معنی و مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف الفاظ کی تبدیلی کا کیا حکم ہے ؟ یعنی معنی تو وہی ہو لیکن لفظ بدل دیا جائے ۔ 
امام قرطبی رحمہ الله نے اپنی تفسیر میں اس کے متعلق فرمایا ہے کہ بعض کلمات اور اقوال میں الفاظ بھی مقصد اور عبادت کی ادائیگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں ۔ ایسے اقوال میں لفظی تبدیلی بھی جائز نہیں ۔ 
جیسے آذان کے الفاظ ۔۔۔۔ اسی طرح نماز  کی دعائیں ۔۔۔ ثنا  ۔۔۔ التحیات  ، دعائے قنوت یا تسبیحاتِ رکوع و سجود  وغیرہ  جن الفاظ میں منقول ہیں وہی الفاظ ادا کرنا ضروری ہیں ۔ اگرچہ معنی بالکل وہی رہیں پھر بھی لفظ بدلنا جائز نہیں ۔ 
اسی طرح قرآن مجید کے الفاظ کا یہی حکم ہے کہ تلاوت قرآن مجید سے جو احکام متعلق ہیں وہ انہی الفاظ کے ساتھ ہیں جو قرآن کریم کے نازل ہوئے ہیں ۔ اگر کوئی ان الفاظ کا ترجمہ دوسرے لفظوں میں کرکے پڑھے کہ معنی میں کوئی فرق نہ آئے تب بھی اس کو شریعت کی اصطلاح میں تلاوت قرآن مجید نہیں کہا جائے گا ۔ اور نہ ہی اُس پر ثواب حاصل ہوگا جو قرآن پڑھنے پر مقرر ہے کہ ایک حرف پر دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ۔ 
کیونکہ قرآن مجید صرف معنی کا نام نہیں بلکہ معنی اور الفاظ کے نازل شدہ مجموعہ کو قرآن کہا جاتا ہے ۔ 
اسی طرح آئمہ حدیث کی ایک جماعت۔  جس طرح الفاظ حدیث سُنے ہیں اُسی طرح نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔ کوئی تبدیلی لفظی  تغیّر اور تبدّل جائز نہیں رکھتے ۔ یہاں تک کہ اگر راوی نے کوئی لفظ نقل کرنے میں کوئی لفظی غلطی کی ہے تو سننے والے کو اسی غلطی کے ساتھ روایت کرنا چاہئیے ۔ اپنی طرف سے تبدیلی نہ کرے ۔ اس کے ساتھ ظاہر کر دے کہ میرے خیال میں صحیح لفظ اس طرح ہے مگر مجھے روایت اس طرح پہنچی ہے ۔ 
*استدلال* 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ تلقین فرمائی تھی کہ جب سونے کے لئے بستر پر جائے تو یہ دعا پڑھے ۔۔
آمَنْتُ بِكتَابكَ الذي أَنْزلتَ ، وَنَبيِّكَ الذي أَرْسَلْتَ 
اس شخص نے  نَبِیّکَ کی جگہ رَسُولِکَ پڑھ دیا تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے پھر یہی ہدایت فرمائی کہ لفظ *نَبیّک* پڑھا کرے ۔ جس سے معلوم ہوا لفظی تبدیلی بھی جائز نہیں ۔۔۔
چنانچہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں معنی کے ساتھ ساتھ الفاظ مخصوصہ کی حفاظت بھی نہایت  ضروری ہے  اور یہی حکم ہے ۔ 
و الله سبحانہ و تعالی اعلم ۔

*تحریف کلام الٰہی کی سزا*

فَبَدَّلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظَلَمُوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَوْلًا 
پس بدل ڈالا ۔۔۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ ظلم کیا انہوں نے ۔۔۔۔ بات
غَيْرَ ۔۔۔۔۔الَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔ قِيلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَأَنزَلْنَا 
خلاف ۔۔۔۔ وہ جو ۔۔۔۔ کہا گیا ۔۔۔۔ ان سے ۔۔۔۔ پس اتارا ہم نے 
عَلَى ۔۔۔۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ظَلَمُوا ۔۔۔۔۔  رِجْزًا ۔۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔۔۔۔السَّمَاءِ 
پر ۔۔۔ وہ لوگ۔ ۔۔۔ ظلم کیا انہوں نے ۔۔۔۔ عذاب ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ آسمان 
بِمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  كَانُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔   يَفْسُقُونَ.   5️⃣9️⃣
اس وجہ سے  ۔۔۔۔۔ وہ تھے۔ ۔۔۔۔۔  وہ نافرمانی کرتے 

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ 
فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ 
بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ.   5️⃣9️⃣
پھر بدل ڈالا ظالموں نے بات کو خلاف اس کے جو کہہ دی گئی تھی اُن سے پھر اُتارا ہم نے ظالموں پر عذاب آسمان سے اُن کی عدول حکمی پر 

بَدَّلَ  ۔۔ ( بدل ڈالا ) ۔ یعنی جن الفاظ کو ادا کرنے کی انہیں ہدایت کی گئی تھی ۔ انہیں بدل کر انہوں نے دوسرے الفاظ اختیار کر لئے ۔ جن کے معنی میں ہنسی اور تمسخر کے معنی پوشیدہ تھے ۔ 
رِجْزٌ۔ ۔۔۔ ( عذاب ) ۔ سرکش اور باغی انسانوں پر الله تعالی کا عذاب مختلف صورتوں میں آتا ہے ۔ اور یہ لفظ ہر قسم کے عذاب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ مفسّرین نے کہا ہے کہ جس عذاب کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ وہ بنی اسرائیل پر طاعون کی شکل میں آیا تھا ۔ 
بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔۔۔ ( چونکہ وہ نا فرمانی کرتے تھے ) ۔ یہ لفظ  فِسق سے بنا ہے ۔ جس کے معنی حکم نہ ماننا  اور فرمانبرداری نہ کرنا ہیں ۔ اسی لئے نافرمان اور گناہ گار کو فاسق کہتے ہیں ۔  یہاں اس جملے سے یہ مراد نہیں کہ بنی اسرئیل نے کوئی طبعی بد پرھیزی کی تھی جس کی وجہ سے اُن پر یہ وبا پھوٹ پڑی ۔ بلکہ انہوں نے الله جل جلالہ کے احکام کی مسلسل نافرمانی کی تھی ۔ اور اس کے نتیجے میں انہیں یہ سزا ملی ۔ 
جب حضرت یوشع علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل نے " اریحا " شہر فتح کیا ۔ تو یہ لوگ شکریہ ادا کرنے کے بجائے بدکار بن گئے ۔ اور الله جل شانہ کے حکم کو بدل کر طرح طرح کی ہنسی مذاق کی باتیں کرنے لگے ۔ اور  ( حطۃٌ ) استغفار کی بجائے  ( حِنطۃٌ فِی شَعْرۃٍ ) یعنی دانہ بالی کے اندر۔  مراد ( گندم  ) کہتے ہوئے داخل ہوئے ۔ اور سجدے کی بجائے بچوں کی طرح گھسٹتے ہوئے دروازے میں جا گھسے ۔ 
اس نافرمانی کی سزا میں ان پر عذاب نازل ہوا ۔ طاعون کی بیماری پھوٹ پڑی ۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ کہ تقریباً ستر ہزار اسرائیلی الله تعالی کے اس قہر کا شکار ہوئے ۔ 
الله جل جلالہ بنی اسرائیل کو اپنے یہ احسانات اس لئے یاد دلا رہا ہے ۔ کہ وہ انہیں یاد کریں اور شکر گزار ہو کر سیدھی راہ کی طرف مائل ہوں ۔  
ہمیں اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ الله رحیم و کریم کے انعام و اکرام کے لئے شُکر گزار ہونا چاہئیے ۔  اکڑ اور غرور و تکبر سے قومیں ہلاک ہو جاتی ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*بنی اسرائیل کی شہری زندگی*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قُلْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادْخُلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔هَذِهِ ۔۔۔۔الْقَرْيَةَ 
اور جب ۔۔۔۔ ہم نے کہا ۔۔۔ تم داخل ہو جاؤ ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔ شہر
فَكُلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِنْهَا ۔۔۔۔۔ حَيْثُ ۔۔۔۔۔۔۔ شِئْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔رَغَدًا 
پس تم کھاؤ ۔۔۔۔۔اس سے ۔۔۔۔ جہاں ۔۔۔ تم چاہو ۔۔۔۔ با فراغت 
وَادْخُلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الْبَابَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سُجَّدًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَقُولُوا 
اور داخل ہو جاؤ ۔۔۔۔ دروازہ ۔۔۔۔ سجدہ  کی حالت ۔۔۔۔ اور تم کہو 
حِطَّةٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نَّغْفِرْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خَطَايَاكُمْ 
بخش دے ۔۔۔۔ ہم معاف کر دیں گے ۔۔۔۔ تم کو ۔۔۔۔ غلطیاں تمہاری 
وَسَنَزِيدُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الْمُحْسِنِينَ۔ 5️⃣8️⃣
اور جلد ہی ہم زیادہ دیں گے ۔۔۔۔۔ احسان کرنے والوں کو 

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا 
وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ 
خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ۔   5️⃣8️⃣
اور جب ہم نے کہا داخل ہو اس شہر میں اور کھاتے پھرو اس میں جہاں چاہو با فراغت اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہتے جاؤ بخش دے۔ تو معاف کردینگے ہم قصور تمہارے اور زیادہ بھی دیں گے نیکی والوں کو 

اَلْقَرْیَۃَ ۔۔۔( شہر ) ۔ مورّخوں نے کہا ہے کہ یہ بستی فلسطین کا مشہور شہر اریحا تھی۔ اس میں قوم عمالقہ جو قوم عاد سے تھی آباد تھی  ۔ اسے اسرائیلیوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت یوشع علیہ السلام کے زمانے میں فتح کیا ۔ 
حِطَّۃٌ ۔۔( بخش دے ) ۔ یہ ایک جملے کا اختصار ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ " اے ہمارے رب ہماری خطاؤں کو معاف فرما " ۔ بنی اسرائیل کو حکم ہوا تھا کہ وہ اس جملے کو اپنی زبانوں سے ادا کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوں ۔ 
مُحْسِنِیْنَ ۔ ( نیکی کرنے والے ) ۔ یہ لفظ احسان سے بنا ہے ۔ جس کے معنی حسِن  سلوک اور نیکی کرنا ہیں ۔ اُردو میں اس لفظ کا استعمال عام ہے ۔ احسان جتلانا اور احسان دھرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ 
الله جل جلالہ نے موسٰی علیہ السلام کو دریاۓ ( اردن  ) کے کنارے تک پہنچا کر کنعان کی تمام زمین دکھائی ۔ اور فرمایا بنی اسرائیل کو میں یہ ملک دیتا ہوں ۔ اور عنقریب تم اس شہر اریحا کو فتح کرو گے ۔ جب تم اس میں داخل ہو گے تو الله جل شانہ کی نعمتیں اور طرح طرح کے میوے تمہیں کھانے کو ملیں گے ۔ اس لئے ان کا شکریہ اس طرح ادا کرنا کہ شہر کے دروازوں سے داخل ہوتے ہوئے  غرور اور گھمنڈ نہ کرنا ۔ بلکہ سجدہ کرتے ہوئے نہایت عاجزی  کے ساتھ الله تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے داخل ہونا ۔ ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے ۔ اور نیک بندوں کو اس کے بدلہ میں اور زیادہ انعام عطا کریں گے ۔ 
 بنی اسرائیل نے الله تعالی کے حکم کی پوری پوری تعمیل نہ کی بلکہ نافرمانی شروع کر دی ۔ اور اس طرح عذاب کے مستحق ہوئے ۔ اس کا تفصیلی ذکر آئیندہ آیات میں آئے گا ۔ 
قوموں پر یہ وقت بہت ہی خطرناک ہوا کرتا ہے ۔ جب قومیں الله رحیم و کریم کا انعام پائیں  اور شکر گزار نہ ہوں ۔ بلکہ شکر گزاری کی جگہ بغاوت اختیار کریں ۔ عذاب دیکھیں اور عبرت نہ پکڑیں ۔ بلکہ بد مست ہو جائیں ۔ ہدایت پائیں اور راہ راست پر نہ آئیں بلکہ سر کشی پر اتر آئیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی ۔۔۔۔۔ 

جیسا کہ آج ہمارا اور ہماری قوم کا حال ہے ۔ ہر چیز واضح اور کُھلی نظر آرہی ہے لیکن نہ تو شکر کرتے ہیں ، نہ عبرت پکڑتے ہیں اور نہ ہی راہ راست پر آنے کی کوشش کرتے ہیں 
الله کریم ہمیں ہدایت دے ۔ 



ہیری پوٹر

کیا کسی نے "ہیری پوٹر" فلم سیریز  دیکھی ہے ؟؟
کمال فلم ہے ۔ پتہ ہے اس کا مقصد ( تھیم ) کیا ہے ؟
ظلم ۔۔۔ جبر ۔۔ نا انصافی اور بُری طاقتوں کے سامنے ہر حال میں ڈٹے رہنا ۔۔۔
 ایک طرف شر کی ساری طاقتیں اور دوسری طرف ننھی منی سی خیر ۔
 شر کی ہمیشہ قائم رہنے کی خواہش ۔۔۔ اور خیر کااپنے مقصد پر قربان ہونے کا عزم 
شر کی ساری دنیا پر  اپنی طاقت  سے حکومت قائم کرنے کی حرص ۔۔۔۔ اور خیر کی دلوں پر راج کرنے کی لگن 
پھر ایک مقصد کے لئے اکٹھ ۔۔۔ خیر کا ایک گروہ میں اور شر کا دوسرے گروہ میں ایک دوسرے کے مقابل ڈٹ جانا
مقصد اور دوستی کے لئے ہر چیز قربان کرنا 
ماں باپ کے ایثار اور  قربانی سے شروع ہونے والی داستان مجھے تو بہت پسند ہے ۔
 للی جیمز اور جیمز پورٹر اپنے معصوم بچے کو بچانے کے لئے اپنی جان قربان کر دیتے ہیں ۔
 اور پروفیسر سیورس  سنیپ ۔۔۔ واہ کیا رول ہے ! محبت میں ڈوبا ۔۔۔ اس قدر محبت بے کہ محبوب کا محبوب بھی محبوب ہوگیا  
کمال ولن ہے جو سب سے بڑا ہیرو نکلتا ہے ۔ 
اور پروفیسر ایلوس  ڈمبلڈور اس کا تو ہر رنگ ہی نرالہ ہے ۔ جھپٹنا ، پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا ۔۔۔ 
جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ دوستی ، محبت ۔۔۔۔ شر کے سامنے ڈٹ جانا ہے ۔ بظاہر کمزور ایک صاف واضح نظر آنے والے طاقتور اور ظالم کے سامنے کھڑا ہونے سے ذرا بھی خوف نہیں کھاتا ۔ کیا چیز ہے جو اسے حوصلہ ہارنے نہیں دیتی ۔ 
اُس کا یقین ۔۔۔ خود پر اعتماد ۔۔۔ باطل کے سامنے کبھی سر نہ جھکانے کا عزم  ۔۔۔۔۔ دوستوں پر اندھا اعتماد کہ وہ کسی بھی حال میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑتے ۔۔۔۔ ہمت ۔۔ جہد مسلسل ۔۔۔ اور مشکل سے مشکل وقت میں بھی مایوس نہ ہونا جیسی ہیری ، ویزلی رون اور ہرمائنی کی جادونگری ہے نا۔ بالکل اسی طرح 
آج کی دنیا بھی ایک جادو نگری بنتی جا رہی ہے۔ وولڈیمورٹ  " وہ جس کا نام نہیں لے سکتے "اس کی ہر ایک پر نظر ہے ۔ 
وہ اتنا  طاقتور ہے کہ ہیری کے دماغ میں جھانک لیتا ہے ۔ اس کا نام لیتے ہی تحقیق شروع ہو جاتی ہے کہ کون اُس کا نام لے رہا ہے اور کیوں ۔ فوراً دوست سمجھانے لگتے ہیں اس کا نام نہ لو اسے خبر ہوجائے گی ۔ 
شر کا مقابلہ وولڈیمورٹ کے سامنے  سر جھکانے سے نہیں ہوتا ۔ اس کے لئے کوشش اور جہد مسلسل کرنی پڑتی ہے ۔ اپنی جان پر ستم سہنے پڑتے ہیں ۔ ماتھے پر وولڈیمورٹ کے لگائے زخم کی چھبن ہر وقت سہنی پڑتی ہے ۔  پروفیسر امبرج کے قلم کی دھار سے ہاتھ کٹوانا پڑتا ہے ۔ اور پھر اپنے آپ کو اپنے لوگوں کو ، اپنے دوستوں کو بچانے کے لئے مقابلے کے سارے گُر سیکھنے پڑتے ہیں ۔ جن چیزوں سے ڈر لگتا ہے وہ ڈر نکالنے پڑتے ہیں ۔ جرآت اور دلیری کا دامن تھامنا پڑتا ہے ۔  چھپ کر دھوکا دے کر ، خود ہمت کرنا اپنے ساتھیوں کو ہمت دلانا ۔۔۔ اپنے آرام کو چھوڑ کر مسلسل محنت سے مقابلے کے سارے طریقے سیکھنا ۔ دشمن کی طرف سے آتے ہر وار کو بے کار کرنے کا ہنر جاننا ۔۔۔ اتنا آسان نہیں جتنا نظر آتا ہے ۔ دور دراز صحراؤں  برف زار وادیوں ، کھنڈروں میں تنہائیوں کے عذاب سہنے خالہ جی کا گھر نہیں ۔۔۔ ۔ کوشش مسلسل کوشش ۔۔ ایک لمحے کے لئے بھی ہمت نہ ہارنا لگے رہنا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھتے رہنا ۔۔۔۔ کیا کچھ نہیں ہے اس سیریز میں ۔
میں جب بھی مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبتی ، اداس ہوتی یہ فلم ضرور دیکھتی ہوں ۔ اور سوچتی ہوں کاش میں ہیری کی ساتھی ، اس کی دوست کی طرح  بن سکوں ۔ کاش کفراور شر کے مقابل ڈٹ کر کھڑی ہو سکوں ۔ کاش اس جادو نگری کے سارے جاددؤں کا توڑ کر سکوں ۔ ہرمائنی کی طرح وہ سارے نجات کے نسخے رٹ لوں کہ جہاں میرے دوست ذرا بھولنے لگیں انہیں یاد دلا دوں ۔ اس طلسمی دنیا کی حقیقت بتا سکوں ۔ اپنی جادو کی چھڑی سے سارے اپنوں کی تکلیفیں دکھ درد پلک جھپکتے دور کر دوں ۔ اس دنیا کے وولڈیمور کو ختم کرنے کے لئے اپنے دوستوں کے ساتھ ان کی مدد گار ، غمگسار بن کر کھڑی ہوں ۔ اور اپنے رب کے سامنے جماعت ِ حق میں سے شمار ہوں ۔ 
اور وہ الفاظ ، وہ نام جن کے لیتے ہی شر کی طاقتیں ہمارا خون چوسنے لپک پڑتی ہیں زور زور سے پکار سکوں ۔۔۔ ظلم ۔۔۔۔ دھوکا ۔۔۔ نا انصافی ۔۔۔ مکر ۔۔ فریب ۔۔ جبر۔۔۔۔ قید  ۔۔۔ قتلِ ناحق ۔۔۔ فساد  ۔۔۔ الجھاد 
کیا کوئی اور بھی میری طرح ہیری پوٹر سیریز کا دیوانہ ہے  ؟؟؟؟
یا میں اکیلی ہی پاگل ہوں ؟

*منّ و سلوٰی*

وَظَلَّلْنَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمُ ۔۔۔۔الْغَمَامَ ۔۔۔۔۔وَأَنزَلْنَا
اور سایہ کیا ہم نے ۔۔۔ تم پر ۔۔۔ بادل ۔۔۔۔۔۔ اور اتارا ہم نے 
 عَلَيْكُمُ ۔۔۔۔۔الْمَنَّ ۔۔۔۔۔وَالسَّلْوَى ۔۔۔۔۔۔۔كُلُوا ۔۔۔۔۔۔ مِن 
تم پر ۔۔۔۔۔ من ۔۔۔۔ اور سلوٰی ۔۔۔۔ تم کھاؤ۔۔۔۔۔ سے 
طَيِّبَاتِ ۔۔۔۔۔۔مَا ۔۔۔۔۔رَزَقْنَاكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظَلَمُونَا۔۔
پاکیزہ ۔۔۔۔۔ جو ۔۔۔۔ ہم نے دیا تم کو ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔۔ ظلم کیا ہم نے 
 وَلَكِن ۔۔۔۔۔۔۔كَانُوا ۔۔۔۔۔۔۔أَنفُسَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔يَظْلِمُونَ۔ 5️⃣7️⃣
اور لیکن ۔۔۔۔ وہ تھے ۔۔۔ اپنی جانوں پر ۔۔۔۔۔ وہ ظلم کرتے 

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى
 كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا
 وَلَكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ.    5️⃣7️⃣
اور ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا اور تم پر اتارا من و سلوٰی  کھاؤ پاک چیزیں جو ہم نے تمہیں دیں ۔ اور انہوں نے ہمارا کچھ نقصان نہیں کیا بلکہ اپنا ہی نقصان کیا ۔ 
مَنٌّ ۔۔۔ یہ ایک میٹھی اور مرطوب چیز تھی ۔ جو تلاش اور جستجو کے بعد بنی اسرائیل کو مل جاتی ۔ جزیرہ نماۓ سینا کی صحرا نوردی میں ان پر یہ الله تعالی کا بڑا احسان تھا ۔ مَنٌّ  کی مختلف صورتیں بیان کی گئیں ہیں ۔ بعض نے اسے ایک خاص قسم کی گوند سے مشابہ قرار دیا ہے ۔ بعض نے شہد بیان کیا ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ من ایک میٹھی چیز تھی دھنییے کے سے دانے ترنجبین سے ملتی جلتی ۔ رات کو اوس کی طرح برستی ۔ لشکر کے گرد ڈھیر لگ جاتے ۔ صبح کو ہر ایک اپنی ضرورت کے مطابق اٹھا لاتا ۔
سَلْوٰی۔ ۔۔۔ بٹیر سے ملتا جلتا ایک پرندہ ہے جو جزیرہ نماۓ سینا میں ہوتا ہے ۔ یہ بہت اونچا نہیں اُڑتا جلد تھک جاتا ہے ۔ اور بڑی آسانی سے شکار ہو جاتا ہے ۔ سمندری ہوا انہیں اُڑا کر بنی اسرائیل کے پڑاؤ تک لے آتی ۔ وہ ان پرندوں کو پکڑ لیتے اور مزے دار  خوراک بناتے ۔ 
مفسرین کرام نے اس آیہ کی تشریح میں فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل مصر سے نکلنے کے بعد چالیس سال تک جزیرہ نماۓ سینا کے سنسان صحرا میں پریشان پھرتے رہے ۔ سایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ دھوپ سے گھبرا اُٹھے ۔  حضرت موسٰی علیہ السلام کی دُعا سے ان کے سروں پر سارا دن ایک بادل سایہ کرنے کے لئے رہنے لگا ۔ خوراک کے لئے الله کریم نے بڑی شفقت سے منّ اتارنا شروع کیا ۔ اور بٹیریں بھیجیں ۔ انہیں یہ حکم بھی دیا کہ وہ ان آسمانی نعمتوں کا ذخیرہ نہ کریں ہر روز ضرورت کے مطابق لے لیا کریں ۔ اور اس کے متبادل دوسری چیزوں کی خواہش نہ کریں ۔ لیکن ان لوگوں نے حکم کی نافرمانی کی ۔ 
پہلا ظلم یہ کیا کہ گوشت خوراک جمع کرنی شروع کر دی ۔ جو سڑنا شروع ہو گئی ۔ 
دوسرا اس کے بدلہ میں مسور ، گندم ، لہسن پیاز کی فرمائش کردی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نعمتیں ملنی بند ہو گئیں ۔ اس طرح انہوں نے خود اپنے آپ کا نقصان کیا ۔ اور خود اپنے ہاتھوں خود پر  ظلم کیا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی ۔۔۔

د

انسان کی تخلیق کا مقصد

بے شک الله رحیم و کریم نے فرمایا ۔۔۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
الذاریات ۔۔۔۔ ۵۶
اور فرمایا ۔۔۔ 
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ 
لوگو! اپنے پروردگار کی عبادت کرو جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا تا کہ تم اسکے عذاب سے بچو۔
البقرہ ۔ ۲۱
اور فرمایا ۔۔ 
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا
اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ
النساء ۔۔۔۳۶ 
اور بےشمار آیات عبادت کا مفہوم بیان کرتی اور واضح کرتی ہیں ۔ 
سوال یہ ہے کہ عبادت کیا ہے ؟؟ 
عبادت کا معنی ہے زندگی ۔۔۔۔ الله کریم کے تمام احکام کی ادائیگی کا نام عبادت ہے ۔ ہر وہ عمل جو صرف اور صرف الله جل شانہ کی رضا کے لئے کیا جائے عبادت شمار ہوتا ہے ۔ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، جھاد ۔۔ قرآن وسنت کی روشنی میں معاملاتِ زندگی کی ادائیگی ، احترامِ انسانیت  ، فلاح ِ انسانیت سب عبادات ہیں ۔۔۔ 
عبادت کے کچھ حقوق ہیں ۔ حقوق حق کی جمع ہے جس کے معنی ہیں فرض اور واجب ۔۔۔ اور یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ حقوق دو طرح کے ہیں ۔ 
حقوق الله اور حقوق العباد 
حقوق الله کی انفرادی حیثیت ہے کیونکہ ان کی ادائیگی اور عدم ادائیگی سے پورا معاشرہ ، ،قوم ، ملک بلکہ دنیا متاثر ہوتی ہے 
حقوق العباد حقوق الله سے بھی اہم ہیں ۔ اتنے کہ حقوق الله توبہ  استغفار سے معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد میں کوتاہی ہو جائے تو توبہ کا نسخہ کام نہیں کرتا بلکہ معافی تلافی کے علاوہ حق دار کو اس کا حق بھی پہنچانا ، دلوانا پڑتا ہے حقوق العباد دین کے تین چوتھائی حصے کو گھیرے ہوئے ہیں 
قیامت کے روز مفلس اس شخص کو کہا گیا ہے ۔ جو ڈھیروں ڈھیر عبادت لے کر آئے گا لیکن حقوق العباد کی پرواہ نہ کی ہو گی ۔ ماں ، باپ ، بہن ، بھائی ۔ عزیز رشتہ دار ، محلہ دار ، کاروباری شراکت دار ،کولیگ ۔ شہر کے رہنے والے  اپنے ملک کے لوگ پوری دنیا کے مسلمان غرض سب کے حقوق ہیں ایک انسان پر ۔۔۔ چنانچہ حقوق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اس کی نیکیاں اور عبادتیں لوگوں میں تقسیم کر دی جائیں گی ۔ نوبت یہاں تک آپہنچے گی کہ لوگوں کے گناہوں کے گٹھڑ اس پر لاد دئے جائیں گے ۔ تو کیا ہو گا اس کا ٹھکانا ۔۔۔ کہاں جگہ پائے گی اس کی عبادت 
افسوس کہ آج ہم نے صرف نماز ، روزہ ، تسبیح کا نام دین رکھ لیا ہے ۔ اور معاشرتی حقوق کو دین کی فہرست سے خارج کر چکے ہیں ۔ حالانکہ حقوق العباد کتاب شریعت کا سب سے اہم سبق ہے ۔ جو ہمارے آقا صلی الله علیہ وسلم ساری عمر سکھاتے رہے ۔ اور جسے ہم یکسر فراموش کر چکے ہیں بلکہ یہ بھی یاد نہیں کہ ہم وہ سبق ہی بھول گئے ہیں ۔ 
ہر شخص اپنی زندگی کو بہترین دیکھنا چاہتا ہے ۔ صرف اپنے آپ سے غرض ہے اپنے آرام و عیش کی فکر ہے اپنے حقوق کا علم ہے فرائض کو فراموش کر چکا ہے ۔ اپنے گھر ، محلے ، شہر ، ملک معاشرے کے سنوارنے کی کوئی فکر نہیں ۔ کوئی غرض نہیں ۔۔۔۔ 
بس الله کریم سے التجا ہے کہ ہمیں اپنی تخلیق کا مقصد سمجھنے کی توفیق دے ۔ وہ بے نیاز ہے ہمارے چار سجدے کرنے یا نہ کرنے  سے اس کی کبریائی میں کوئی فرق نہیں آنے والا ۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اور بے شمار فرشتے ہر پل اس کی حمد و ثنا میں لگے ہوئے ہیں ۔ وہ تو ہم سے بس یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی اُس کو راضی کرنے میں گزاری ۔ یا خود اپنے آپ کو راضی کرنے میں ۔۔۔۔۔  ہمارے آئینے دھندلا چکے ۔۔۔۔ کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔۔۔۔ کچھ سُجھائی نہیں دیتا 
اے کاش برس جائے یہاں نور کی بارش 
ایمان کے شیشوں پہ بڑی گرد جمی ہے 

*موت کے بعد زندگی*

ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بَعَثْنَاكُم ۔۔۔۔۔۔۔ مِّن ۔۔۔۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَوْتِكُمْ 
پھر ۔۔۔۔۔ اٹھایا ہم نے تم کو ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔۔ بعد ۔۔۔۔ موت تمہاری 
لَعَلَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔تَشْكُرُونَ۔  5️⃣6️⃣
تاکہ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم شکر کرو 

ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.   5️⃣6️⃣
پھر ہم نے تمہیں تمھاری موت کے بعد اٹھا کھڑا کیا تاکہ تم احسان مانو ۔۔۔ 

الله تعالی بنی اسرائیل کو ایک ایک کر کے اپنے احسانات یاد کروا رہا ہے ۔ تاکہ وہ اُن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بُرے کاموں کو چھوڑ دیں اور سیدھی راہ پر لوٹ آئیں ۔ 
اس آیت میں سابقہ واقعہ تسلسل سے بیان ہو رہا ہے ۔ جب بنی اسرائیل کے ایک گروہ نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے کہا کہ ہم تو الله تعالی کو اپنی ظاہری اور مادی آنکھوں سے دیکھیں گے ۔ تو ان کی اس گستاخی کی وجہ سے ان پر بجلی گری اور وہ سب مر گئے ۔ موسٰی علیہ السلام نے جب یہ دیکھا ۔ تو عرض کیا اے پروردگار میں ان لوگوں کو بنی اسرائیل کے سامنے گواہی دینے کے لئے لایا تھا ۔ اب یہ مر گئے ۔ میں قوم کو کیا جواب دوں گا اور اُن کے سامنے کیا دلیل پیش کروں گا ۔ الله تعالی نے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا ۔ 
اس آیت میں الله تعالی نے بنی اسرائیل کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ اور ارشاد فرمایا ہے کہ تم میرے اس احسان کو یاد کرو ۔ کہ میں نے تمہیں موت کے بعد دوبارہ زندگی بخشی ۔ اور اس کا شکر ادا کرو ۔ شکر ادا کرنے کی صرف یہی صورت ہے ۔ کہ بے دینی اور گمراہی چھوڑ کر الله جل جلالہ کا حکم بجا لاؤ ۔ 
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے ۔ کہ الله تعالی کے حضور میں گستاخی اور اس اعلٰی ذات سے بے جا مطالبہ کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔ اور اس کی سخت سزا ہے ۔ ان لوگوں نے الله تعالی کو اپنی آنکھوں سے بے حجابانہ دیکھنے کی آرزو کی ۔ حالانکہ یہ بشر کے حوصلہ سے  بہت بلند بات تھی ۔ اس گستاخی کی اُن کو سزا ملی ۔ 
ہمیں بھی چاہئیے کہ الله جل جلالہ اور اس کے محبوب صلی الله علیہ وسلم کی ہر بات بلا چون و چرا مان لیا کریں ۔ اس میں خواہ مخواہ کی نکتہ چینی ، دلیل بازی اور حجتیں پیدا کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ کیونکہ اس طرح انسان میں غلط اور فضول بحث کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے ۔ اور جو لوگ فضول بحثیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں وہ ہمیشہ عمل سے جی چراتے ہیں ۔ وہ صرف باتوں کے دہنی ہوتے ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*بنی اسرائیل کی ایک اور گستاخی*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قُلْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔يَا مُوسَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَن نُّؤْمِنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَكَ 
اور جب ۔۔۔۔۔۔ کہاتم نے ۔۔۔۔۔۔ اے موسٰی ۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں ہم ایمان لائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تیرے لئے 
حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نَرَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللَّهَ ۔ ۔۔۔۔۔۔جَهْرَةً ۔۔۔۔۔۔
یہاں تک ۔۔۔۔۔ ہم دیکھ لیں ۔۔۔۔۔ الله ۔۔۔۔۔ کھلم کھلا۔۔۔ 
فَأَخَذَتْكُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الصَّاعِقَةُ 
پس پکڑ لیا تم کو ۔۔۔۔۔ بجلی نے 
وَأَنتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔تَنظُرُونَ۔   5️⃣5️⃣
اور تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم دیکھ رہے تھے 
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً 
فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ۔    5️⃣5️⃣
اور جب تم نے کہا اے موسٰی ہم ہرگز نہیں تجھے مانیں گے  جب تک کہ الله کو کھلم کھلا نہ دیکھ لیں  پھر تمہیں بجلی نے آلیا اور تم دیکھ رہے تھے ۔ 

نَرٰی ۔ ( ہم دیکھ لیں ) ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام ستر آدمیوں کو چُن کر کو ۂ طور پر کلام الٰہی سننے کی غرض سے لے گئے تھے ۔ جب انہوں نے کلام الٰہی سُنا  تو کہا کہ اے موسٰی !  پردے میں سننے کا ہم اعتبار نہیں کرتے ۔ آنکھوں سے دکھاؤ ۔ 
اَخَذَتْکُمُ الصّٰاعِقَۃُ ۔ ( تمہیں بجلی نے آلیا ) ۔ بنی اسرائیل حضرت موسٰی کی بات کو جھٹلا رہے تھے ۔ اور مطالبہ کر رہے تھے کہ ہم الله جل جلالہ کو کھلم کھلا دیکھیں گے ۔ اس لئے انہیں یہ سزا دی گئی کہ ان پر بجلی آ پڑی  جس سے ان کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں ۔ اور ان کی دیکھنے کی صلاحیت بھی ختم ہوگئی ۔ 
اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ بنی اسرائیل کے لئے جب حضرت موسٰی علیہ السلام کوہ طور پر ہدایت نامہ لینے کے لئے گئے تو قوم نے ان کی عدم موجودگی میں بچھڑے کی پوجا شروع کر دی ۔ اور شرک میں مبتلا ہو گئے ۔ جب آپ واپس آئے تو الله جل جلالہ کی طرف سے قتل کی سزا کا اعلان کیا ۔ جس کے مطابق انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا تب ان کی توبہ قبول ہوئی ۔ 
پھر قوم کے ستر بڑے بوڑھوں نے مطالبہ کیا کہ ہم بھی تیرے ساتھ کوہ طور پر الله تعالٰی کا کلام سننے جائیں گے ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام انہیں ساتھ لے گئے ۔ انہیں پہاڑ کے دامن میں کھڑا کرکے خود آگے چلے گئے ۔ الله تعالی آپ سے مخاطب ہوا ۔ آپ نے واپس آکر انہیں بتایا ۔ تو انہوں نے کہا ہم اپنی آنکھوں سے الله تعالی کو دیکھنا چاہتے ہیں ۔ 
اُن کی اس ضد اور کھلم کھلا انکار پر انہیں اس کی سزا دی گئی ۔ اور آسمان سے ان پر بجلی گری اور وہ مر گئے ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے اتنے بڑے معجزے دیکھنے اور الله کریم کی عنایات پانے کے بعد بھی بنی اسرائیل کی پرانی عادت نہ گئی وہ معبودِ حقیقی کو مادی آنکھوں سے دیکھنے کے خواہشمند تھے ۔ اسی لئے انہیں یہ سزا دی گئی ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*حدیث نمبر ~~~~ 6*

*باپ کا صدقہ بیٹے کو مل جائے تب بھی باپ کو اس کی نیت کا ثواب ضرور ملتا ہے*
حضرت *ابو یزید معن بن یزید* رضی الله تعالی عنہ سے مروی ہے ۔ کہ ایک بار میرے والد یزید نے صدقہ کرنے کے لئے کچھ دینار نکالے ۔ اور مسجد میں ایک آدمی کے پاس رکھ دیئے ۔ ( تاکہ اگر کوئی ضرورتمند آئے تو اسے دے دے ۔ اتفاق سے میں مسجد میں آیا تو اُس نے مجھے دے دئے  ) ۔ 
میں نے لے لئے ۔ اور ان کو لے کر آیا اور والد صاحب کو بتایا ۔ انہوں نے کہا : و الله میں نے تجھے دینے کی نیت نہیں کی تھی ۔ 
میرے اور اُن کے درمیان بحث ہونے لگی ۔ ( میں کہتا کہ میں ضرورتمند ہوں اس لئے پہلے میرا حق ہے ۔ وہ کہتے ۔ میں نے تو صدقے کی نیت سے نکالے ہیں ۔ تو تو میری اولاد ہے ۔ تیری کفالت میرا فرض ہے ۔ اولاد کو صدقہ نہیں پہنچتا  ) ۔ ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں فیصلہ کے لئے حاضر ہوئے ۔ 
تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : اے یزید تم نے جو صدقہ کی نیت سے یہ دینار نکالے ہیں اس کا ثواب تم کو ضرور ملے گا ۔ اور مجھ سے فرمایا  : اے معن تم نے جو لیا وہ تمہارے لئے حلال ہے ۔ 
*اہل و عیال پر صدقہ کا حکم* 
زکٰوۃ اور صدقاتِ واجبہ   مثلاً  صدقۂ فطر  ، صدقۂ نذر وغیرہ تو اولاد کے لئے جائز نہیں البتہ نفل صدقات اکر صدقہ کی نیت سے ضرورتمند اور محتاج اولاد کو دے دئے جائیں تو ادا ہو جاتے ہیں ۔ بلکہ اس میں دوہرا ثواب ملتا ہے ۔ صدقہ کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی ۔ 
*نیت کا پھل اور الله جل شانہ کی شانِ کریمی* 
بظاہر حضرت یزید کے دینار گھر میں رہے مگر الله کریم نے محض ان کی نیت کی وجہ سے ان کو صدقہ کے اجر و ثواب سے سرفراز فرمادیا ۔ 
ہر مسلمان کو نفل صدقات صدقہ کی نیت سے سب سے پہلے اپنے محتاج اور ضرورتمند متعلقین اور رشتہ داروں کو دینے چاہئیے ۔ تاکہ صدقہ اور صلہ رحمی دونوں کا ثواب ملے ۔ اور دو عبادتیں ادا ہوں ۔ ایک الله جل جلالہ کی راہ میں صدقہ کرنا اور دوسرے صلہ رحمی ۔ 
*مأخذ*
وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ 
سورۃ البقرہ ۔ ایہ ۔ 177 
اس آیہ مبارکہ میں قرابت داروں کا حق سب سے پہلا رکھا گیا ہے ۔۔۔۔۔ 

*شرک کی سزا*

وَإِذْ ۔۔۔قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُوسَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لِقَوْمِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔يَا قَوْمِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔إِنَّكُمْ ۔
اور جب ۔۔۔ کہا ۔۔۔ موسٰی علیہ السلام  ۔۔۔ اپنی قوم سے ۔۔۔ اے میری قوم ۔۔۔ بے شک تم 
ظَلَمْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أَنفُسَكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتِّخَاذِكُمُ ۔۔۔۔۔۔
ظلم کیا تم نے ۔۔۔۔ جانیں تمہاری ۔۔۔۔۔ اس وجہ سے ۔۔۔۔ بنانا تمہارا ۔۔۔ 
 الْعِجْلَ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَتُوبُوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إِلَى
بچھڑا۔۔۔۔۔۔پس توبہ کرو ۔۔۔۔ طرف 
بَارِئِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَاقْتُلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أَنفُسَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذَلِكُمْ
پیدا کرنے والا تمہارا ۔۔۔۔ پس تم قتل کرو ۔۔۔۔ اپنی جانیں ۔۔۔۔ یہ  
خَيْرٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔لَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عِندَ ۔۔۔۔بَارِئِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَتَابَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عَلَيْكُمْ ۔۔ 
بہتر ۔۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ پاس ۔۔۔تمہارا خالق ۔۔۔ پس متوجہ ہوا ۔۔۔ تم پر  
إِنَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔هُوَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔التَّوَّابُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الرَّحِيمُ۔  5️⃣4️⃣
بے شک وہ ۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔ بڑا توبہ قبول کرنے والا ۔۔۔۔ بہت مہربان ہے ۔
 
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُم بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ
فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ
فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ۔  5️⃣4️⃣
اور جب موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا اے قوم تم نے یہ بچھڑا بنا کر اپنا نقصان کیا  سو اب اپنے پیدا کرنے والے کے آگے توبہ کرو  پس اپنے آپ کو ہلاک کرو  یہی بہتر ہے تمہارے لئے  تمہارے خالق کے نزدیک ۔ پس اس نے تمہاری توبہ قبول کی ۔ 
بے شک وہ ہی معاف کرنے والا بہت مہربان ہے ۔

لٰقَوْمِہ ۔ ( اپنی قوم سے ) ۔ یہاں قوم سے مراد خاص طور پر وہ لوگ ہیں ۔جنہوں نے بچھڑے کو معبود سمجھ کر اُس کو سجدہ کیا ۔ 
ظَلَمْتُمْ ۔ ( تم نے ظلم کیا ۔ نقصان کیا ) ۔ یعنی توحید چھوڑ کر پھر شرک میں مبتلا ہو گئے ۔ اس سے بڑھ کر اپنے اوپر اپنا اور کیا نقصان ہو سکتا ہے ۔ 
فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُم ۔ ( اپنی جانوں کو مار ڈالو ) ۔ یعنی جن لوگوں نے بچھڑے کو سجدہ نہیں کیا ۔ وہ سجدہ کرنے والوں کو قتل کریں ۔ 
مفسّرین نے بیان کیا ہے کہ بنی اسرائیل کے تین گروہ تھے ۔ ایک وہ جس نے بچھڑے کو سجدہ نہیں کیا اور دوسروں کو بھی سجدہ کرنے سے روکا ۔ یہ نیک بندے تھے ۔ 
دوسرا گروہ وہ جس نے سجدہ کیا ۔ 
تیسری وہ جماعت جس نے سجدہ تو نہ کیا لیکن دوسروں کو روکا بھی نہیں ۔
تیسری جماعت کو حکم ہوا کہ دوسرے گرو کو قتل کریں ۔ تاکہ نہ روکنے کا گناہ اُن سے دُور ہو جائے ۔ اور نیک لوگ اس توبہ میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ اُن کو اس کی ضرورت نہ تھی ۔  
خیرٌ لّکُمْ ۔ ( تمہارے لئے بہتر ہے ) ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم ایک دوسرے کو قتل کرو گے تو گناہ کی گندگی سے پاک ہو جاؤ گے ۔ اور مغفرت اور نجات پاؤ گے ۔ 
اس آیت میں الله تعالی بنی اسرائیل کو بتاتا ہے کہ تم نبی کی غیر موجودگی میں حق پر قائم نہ رہ سکے ۔ شرک اور بُت پرستی میں مبتلا ہو گئے۔  اس حرکت سے تم نے اپنا بہت نقصان کیا ۔ اب اس کی سزا یہ ہے کہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو ۔ جب بنی اسرائیل نے حکم ماناتو الله جل جلالہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ۔ اور واقعی انسان کی دنیا اور اُخرٰی کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ الله تعالی کے حکموں کو مان لے ۔ خواہ اسے حکمت اور مصلحت معلوم ہو یا نہ ہو ۔ اور اگر بھول چُوک یا انجان پنے میں کوئی غلطی ہو جائے ۔ تو اس کے اعتراف و اقرار اور اصلاح کے لئے ہر دم تیار رہے ۔ 
اس سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ برائی سے صرف بچنا کافی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی برائی سے روکنا چاہئیے ۔ اور برائی کو دیکھ کر خاموش رہنے والا   برائی کرنے والوں میں شمار ہوتا ہے ۔ 
مأخذ ۔۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی ۔۔۔ علامہ شبیر احمد عثمانی 

*کتاب اور فرقان*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آتَيْنَا۔۔۔۔۔۔  مُوسَى ۔۔۔۔۔۔ الْكِتَابَ ۔۔
اور جب ۔۔۔۔ ہم نے دی ۔۔۔۔۔۔ موسٰی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کتاب 
وَالْفُرْقَانَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لَعَلَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔تَهْتَدُونَ۔ 5️⃣3️⃣
اور جُدا جُدا کرنے والے احکام ۔۔۔۔۔ تاکہ تم ۔۔۔۔۔ تم ھدایت پاؤ ۔۔۔۔۔۔
وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.  5️⃣3️⃣
اور جب ہم نے موسٰی علیہ السلام کو کتاب اور ( حق کو نا حق سے ) جدا جدا کرنے والے احکام دئیے تاکہ تم سیدھی راہ پاؤ ۔ 

اَلْفُرقَانَ ۔ ( جُدا کرنے والے احکام ) ۔ یہ لفظ فرق سے نکلا ہے ۔ لفظ تفریق بھی اسی سے بنا ہے ۔ فرقان کے بارے میں مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں ۔ 
وہ معجزات جو موسٰی علیہ السلام کو عطا ہوئے ۔۔۔ 1
وہ غلبہ اور فتح جو فِرعونی لشکر کے مقابلے میں بنی اسرائیل کو حاصل ہوئی ۔۔۔۔ 2
یہودی اس سے وہ مسائل بھی مراد لیتے ہیں ۔ جن کی تعلیم حضرت موسٰی علیہ السلام کو توراۃ کے علاوہ زبانی طور پر حاصل ہوئی  تھی ۔ ---3
الفرقان قرآن مجید کا بھی ایک نام ہے ۔ ۔۔۔ 4
اس کے علاوہ دوسری آسمانی کتابوں کو بھی فرقان کہا گیا ہے ۔ چونکہ ان سے حق اور باطل کے درمیان فرق ہو جاتا ہے ۔ --5

یہاں الفرقان سے مراد وہ احکام ہیں جن کے ذریعے حق و باطل ۔ سچ اور جھوٹ  ۔ نیک اور بد  الگ الگ ہو جائیں ۔ اور شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے ۔ 
جب بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہو گئی ۔ تو حضرت موسٰی علیہ السلام دوبارہ کوۂ طور پر گئے ۔ اور بہت سے احکام لائے ۔ جو تختیوں پر لکھے ہوئے تھے ۔ انہی احکام کا مجموعہ توراۃ کہلاتا ہے ۔ 
اس آیت میں الله جل جلالہ بنی اسرائیل کو اپنے مزید احسانات یاد دلا رہا ہے ۔ وہ فرماتا ہے کہ تم نے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کی ۔ اور بچھڑے کو پوجنا شروع کر دیا ۔ لیکن ہم نے اپنی رحمت سے تمہیں معاف کر دیا ۔ پھر موسٰی علیہ السلام کو ایسی کتاب دی ۔ جو تمہارے لئے زندگی بسر کرنے کا مکمل قانون اور ہدایت نامہ تھی ۔ اس کے ذریعے حق و باطل حلال و حرام اور نیک و بد کی تمیز ہوتی تھی ۔ 
اس سبق سے پتہ چلتا ہے کہ الله تعالی کی کتاب اور حق و باطل کی میزان انسان کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ ھدایت صرف اسی سے مل سکتی ہے ۔ اور کامیاب لوگ وہی ہیں جو الله تعالی کی کتاب پر عمل کرتے ہیں ۔ اور حق و باطل کی میزان سے کام لیتے ہیں ۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم بھی کتاب و سنت کی روشنی میں اپنا ہر قول اور ہر فعل درست کرلیں ۔ سچ اور جھوٹ ، حق اور باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا کریں ۔ اور نیک اور بد کو ایک جیسا نہ سمجھیں ۔ حلال اور حرام کے فرق کو ہر وقت پیشِ نظر رکھیں ۔۔ 
درسِ قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*اردو میری پیاری اردو*

محبت کے ہزار رنگ ۔۔۔ ایک خوشنما ، دلربا ، جانِ جاں ، مہرباں سا رنگ جو رہتا ہے میرے سنگ سنگ 📌
میری زباں ، میری پہچان اور میری جان 📌

💝❤️💝
اردو ہے جس کا نام ہم ہی جانتے ہیں داغ۔
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے 
🍁
اور میری زبان ہے بڑی نخرے والی ۔ اپنے ناز و انداز یوں دکھاتی ہے 📌
💖💞💖
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے     اردو زباں     آتے آتے​
🍁
یہ بات بھی ہم مانتے ہیں کہ ہم اسے سیکھنے  میں اتنے کامیاب نہیں ہوئے 📌
💗❤️💗

خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میر و مرزا کی
کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے
🍁
چلو کوئی نہیں امید تو بندھ جاتی ہے یہ سُن کر  📌
💞💝💞

سلَیقِے سے ہواؤں میں جو خُو شبو گھول سَکتے ہیں 
ابھی کُچھ لُوگ باقی ہیں جو اُردو بول سکتِے ہیں
🍁
تھوڑی خود پسند بھی ہے ۔ پر جب جھوم جھوم کر اپنی تعریف کرتی ہے تو مزہ آ جاتا ہے اور  📌
اس کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی  جھومنے لگتے ہیں 

💝💞💝

اردو ہے میرا نام میں خسرو کی پہیلی
میں میر کی ہمراز ہوں غالب کی سہیلی

دکن کے ولی نے مجھے گودی میں کھلایا
سودا کے قصیدوں نے میرا حسن بڑھایا
ہے میر کی عظمت کہ مجھے چلنا سکھایا
میں داغ کے آنگن میں کھلی بن کے چنبیلی

غالب نے بلندی کا سفر مجھ کو سکھایا
حالی نے مروت کا سبق یاد دلایا
اقبال نے آئینۂ حق مجھ کو دکھایا
مومن نے سجائی میری خوابوں کی حویلی

ہے ذوق کی عظمت کہ دئیے مجھ کو سہارے
چکبست کے الفت نے میرے خواب سنوارے
فانی نے سجائے میری پلکوں پہ ستارے
اکبر نے رچائی مری بے رنگ ہتھیلی

کیوں مجھ کو بناتے ہو تعصب کا نشانہ
میں نے تو کبھی خود کو مسلماں نہیں مانا
دیکھا تھا کبھی میں نے بھی خوشیوں کا زمانہ
اپنے ہی وطن میں ہوں      مگر آج    اکیلی
(اقبال اشعر)​
🍁
بس اس کا شکوہ سن کر خیال آتا ہے 📌
​💝💖💝

تھا عرش پہ اک روز دماغِ اردو
پامالِ خزاں آج ہے    باغِ اردو
غفلت تو ذرا قوم کی دیکھو کاظم
وہ سوتی ہے بجھتا ہے چراغِ اردو
🍁
📌بس ہم نے تو اس کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ بے اختیار چیخ اٹھی  

❤️💚❤️

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے​
کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے​
کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے​
آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے​
کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے​
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے​
اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی​
ہے شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی​
مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی​
یہ میت غم دہلی مرحوم سے نکلے​
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے​
اے تاج محل نقش بدیوار ہو غم سے​
اے قلعہ شاہی ! یہ الم پوچھ نہ ہم سے​
اے خاک اودھ !فائیدہ کیا شرح ستم سے​
تحریک یہ مصر و عرب و روم سے نکلے​
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے​
سایہ ہو اردو کے جنازے پہ ولی کا​
ہوں میر تقی ساتھ تو ہمراہ ہوں سودا​
دفنائیں اسے مصحفی و ناسخ و انشاء​
یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے​
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے​
بدذوق احباب سے گو ذوق ہیں رنجور​
اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور​
تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور​
فریاد دل غالب مرحوم سے نکلے​
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے​
ہیں مرثیہ خواں قوم ہیں اردو کے بہت کم​
کہہ دوکہ انیس اس کا لکھیں مرثیہ غم​
جنت سے دبیر آ کے پڑھیں نوحہ ماتم​
یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے​
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے​
اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے​
پہلے کوئی سر سیداعظم کو خبر دے​
وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے​
وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے​
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے​
اردو کےجنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی​
صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی​
آزاد و نذیر و شرر و شبلی و حالی​
فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے​
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے​ 
( رئیس امروہی ) 

📌ٹھیک ہی تو ہے اس کا شکوہ ہم نے کب اس کی وہ قدر کی جس کی حقدار ہے۔  

💖💞💝
 
یارانِ خوش مذاق نے اللہ کی پناہ
اردو کو بے قصور مسلمان کر دیا

(منور رانا )​
🍁
📌خوامخواہ  حالانکہ ۔ 
❤️💗❤️

چکبست اور فراق کے ماتھے کا تلک ہوں
اقبال کے نغمات میں آیات کی جھلک ہوں
دوہوں میں کبیر کے محبت کی مہک ہوں
کیوں مجھ کو کہہ رہے ہو کہ میں مسلمان ہوں
ہندوستان کی شان میں اردو زبان ہوں​

🍁
📌 اگرچہ حقیقت تو یہ ہے کہ میری جانِ جگر کی شان تو یہ ہے 
💞💖💞

چرچا ہر ایک آن ہے اردو زبان کا​
گرویدہ کل جہان ہے اردو زبان کا

اس لشکری زبان کی عظمت نہ پوچھیے
عظمت تو خود نشان ہے اردو زبان کا

گم نامیوں کی دھوپ میں جلتا نہیں کبھی
جس سر پہ سائبان ہے اردو زبان کا

مشرق کا گلستاں ہو کہ مغرب کا آشیاں
ویران کب یہ مکان ہے اردو زبان کا

سوداؔ و میرؔ و غالبؔ و اقبالؔ دیکھ لو
ہر ایک پاسبان ہے اردو زبان کا

اردو زبان میں ہے گھلی شہد کی مٹھاس
لہجہ بھی مہربان ہے اردو زبان کا

ترویج دے رہا ہے جو اردو زبان کو
بے شک وہ باغبان ہے اردو زبان کا

مہمان کہہ رہا ہے بڑا خوش نصیب ہے
جو شخص میزبان ہے اردو زبان کا

یہ ارضِ پاک صورتِ کشتی ہے دوستو!
اور اس میں بادبان ہے اردو زبان کا

لوگو! کہیں بھی اس میں پس و پیش کچھ نہیں
اک معترف جہان ہے اردو زبان کا

بولی ہے رابطے کی یہی جوڑتی ہے دل
ہر دل میں ایسا مان ہے اردو زبان کا

روشن ہے حرف حرف مفہوم اس کا آفریں
شیریں سخن بیان ہے اردو زبان کا

وسعت پذیر دامنِ اردو ہے اآج بھی
ہر گوشہ اک جہان ہے اردو زبان کا

کرتا ہے آبیاری لہو سے ادیب جو
وہ دل ہے ، جسم و جان ہے اردو زبان کا

آئیں رکاوٹیں جو ترقی میں اس کی کچھ
سمجھو یہ امتحان ہے اردو زبان کا

پائے گا جلد منزلِ مقصود بالیقیں
جاری جو کاروان ہے اردو زبان کا

عزت سخنورانِ ادب کی اسی سے ہے
شاعرؔ بھی ترجمان ہے اردو زبان کا

🍁
📌اور  
💞❤️💞

مرے کانوں میں مصری گھولتا ہے
کوئی بچہ جب اردو بولتا ہے
(مشتاق دربھنگوی)​
🍁
📌میں تو کہتی ہوں۔ 
💖💝💖

سیکڑوں اور بھی دنیا میں زبانیں ہیں مگر
جس پہ مرتی ہے فصاحت وہ زباں ہے اردو

📌 اور دیار غیر میں اس ہمنشیں کی جب یاد آجائے تو  پردیسی بابو  آہ بھر کر کہتا ہے ۔۔۔    ۔
💗💞💗

سب میرے چاہنے والے ہیں،    میرا کوئی نہیں
میں بھی اِس ملک میں اُردُو کی طرح رہتا ہوں
( حسن کاظمی )
🍁
ہر شخص کو زبانِ فرنگی کے باٹ سے
جو شخص تولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
افسر کو آج تک یہ خبر ہی نہیں ہوئی
اُردو جو بولتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
(انور مسعود)​
🍁
اگرچہ📌
💞❤️💞

فضا کیسی بھی ہو وہ رنگ اپنا گھول لیتا ہے
سلیقے سے زمانے میں جو اردو بول لیتا ہے
( سلیم صدیقی ) 
🍁
📌  اور ہم ان محبوب پردیسیوں کی شان میں کہتے ہیں ۔
💝💖💝

ناز و انداز میں شائستہ سا وہ حسنِ نفیس
ہُو بہُو جانِ غزل ہے مری اردو کی طرح
(عطا تراب ) 

💖💝💖

وہ بولتا ہے نگاہوں سے اس قدر اردو 
خموش رہ کے بھی اہلِ زباں سا لگتا ہے
📌 مزید۔  
💝💖💝

اس کے اردو میں بھی اب کے مغربی لہجہ ملا 
کالے بالوں کی رنگت     زعفرانی۔   ہو گئی
🍁
کہا جو میں نے کہ ان کی ادا انوکھی ہے
کہا بتوں نے کہ اردو میاں کی چوکھی ہے
🍁
📌 لیجئے استاد مَن ڈانٹ رہے ہیں  
💝💖💝

بچّو، یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا
وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہرگز نہیں سوتی
عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا
اردو وہ زباں ہے کہ جو نافذ نہیں ہوتی
(انور مسعود)
🍁
وہ دشمنِ اُردو ہیں وہ ہیں دشمنِ مِلّت
کرتے ہیں جو اُردو کی سلاست کو سبوتاژ
(اکبر لاہوری)
🍁
📌 ڈانٹ تو پڑے گی کیونکہ ہمارا حال ہی ایسا ہے۔  
💖💗💖

مِلا اردو کو اس کا حق نہ جمہوری نظام آیا
ہوئے پورے نہ جو وعدے کیے تھے ہم نے قائد سے
(سید قاسم جلال)
🍁
💖💝💖

گو لاکھ ہو رنگت پھولوں میں خوشبو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
اس ملک میں چاہے ہُن برسے اردو جو نہیں تو کچھ بھی نہیں
(جسٹس آنند نرائن مُلّا)
🍁
📌 ہمارے ایک بنگالی بھائی نے بھی اعتراف کیا چُپکے سے۔  
💖❤️💖
اصفر بجا ہے جادوئے بنگال بھی مگر
اُردو زباں کے فیض سے جادو بیاں ہوں میں
🍁
📌 ہمارے دل کی صدا تو  بس یہی ہے۔  

💝💖💝
مرے آنسو کو جگنو بولتی ہے
مری تہذ یب اردو بولتی ہے​ 

💝💖💝

کس قدر نرم سی نازک سی ہے اردو کی طرح
صرف محسوس کیا کر اسے خوشبو کی طرح

منصور آفاق​

💖💝💖
یارب رہے سلامت اردو زباں ہماری
ہر لفظ پر ہے جس کے قربان جاں ہماری

مصری سی تولتا ہے ، شکر سی گھولتا ہے
جو کوئی بولتا ہے میٹھی زباں ہماری

ہندو ہو پارسی ہو عیسائی ہو کہ مسلم
ہر ایک کی زباں ہے اردو زباں ہماری

دنیا کی بولیوں سے مطلب نہیں ہمیں کچھ
اردو ہے دل ہمارا ، اردو ہے جاں ہماری

دنیا کی کل زبانیں بوڑھی سی ہو چکی ہیں
لیکن ابھی جواں ہے اردو زباں ہماری

اپنی زبان سے ہے عزت جہاں میں اپنی
گر ہو زباں نہ اپنی عزت کہاں ہماری

اردو کی گود میں ہم پل کر بڑے ہوئے ہیں
سو جاں سے ہم کو پیاری اردو زباں ہماری

آزاد و میر و غالب آئیں گے یاد برسوں
کرتی ہے ناز جن پر اردو زباں ہماری

افریقہ ہو عرب ہو امریکہ ہو کہ یورپ
پہنچی کہاں نہیں ہے اردو زباں ہماری

مٹ جائیں گے مگر ہم مٹنے نہ دیں گے اس کو
ہے جا ن و دل سے پیاری ہم کو زباں ہماری
(اختر شیرانی)​
🍁
💝💗💝

گیسوئے اردو ابھی منّت پذیرِ شانہ ہے
*شمع یہ سودائیِ دل سوزئ پروانہ ہے 

💝💗💝

*معافی کا اعلان*

ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَفَوْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَنكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔مِّن ۔۔۔۔۔۔۔بَعْدِ ۔۔۔۔۔۔۔ ذَلِكَ 
پھر  ۔۔۔۔ معاف کیا ہم نے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں ۔۔۔۔۔  سے ۔۔۔۔۔۔۔ بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ 
لَعَلَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تَشْكُرُونَ۔ 5️⃣2️⃣
تاکہ تم ۔۔۔۔۔ تم شکر کرو 

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.    5️⃣2️⃣
پھر ہم نے تمہیں اس پر بھی معاف کر دیا  تاکہ تم احسان مانو ۔ 

تَشْکُرُونَ ۔ ( شکر کرو ۔ احسان مانو ) ۔ یہ لفظ شکر سے بنا ہے ۔ جس کے معنٰی احسان ماننا اور قدر پہچاننا ہےں ۔ اسلام میں شکر سے مراد ہے کہ انسان الله کریم کی نعمت کی قدر مانے ۔ اس کی بخششوں اور نعمتوں کا صحیح اور درست استعمال کرے ۔ نا شکری اور نا قدری نہ کرے ۔ 
اس سے پہلی آیت میں گزر چکا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام الله جل شانہ کے حکم کی تعمیل کے لئے کوہِ طور تشریف لے گئے ۔ تاکہ وہاں الله جل جلالہ کی عبادت کریں اور اپنی قوم کے لئے ہدایت نامہ لائیں ۔ وہاں تیس دن گزارنے کے بعد آپ کو دس دن اور ٹہرنے کا حکم ملا ۔ اور واپس آنے میں دیر ہوگئی ۔ 
آپ کی غیر حاضری میں سامری نے جو ایک چالاک  شعبدہ باز تھا ۔ ایک بچھڑا بنا کر کھڑا کیا جس کے منہ سے آواز نکلتی تھی ۔ اس نے بنی اسرائیل سے کہا تمہارا اور موسٰی کا معبود یہی بچھڑا ہے ۔ اس لئے تم اس کی عبادت کرو ۔ بس پھر کیا تھا سوائے چند لوگوں کے ساری قوم اس کے آگے جھک گئی ۔ اور نہایت انکسار سے اس کی عبادت میں مشغول ہو گئی ۔ 
حضرت موسٰی واپس تشریف لائے تو انہوں نے دیکھا ۔ کہ بنی اسرائیل گمراہ ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے غصے سے احکام کی وہ تختیاں جو ساتھ لائے تھے ۔ پھینک دیں ۔ اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلم پر سخت ناراض ہوئے ۔ اور ان سے باز پُرس کی ۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے سارا قصہ بیان کر دیا اور اپنی بے چارگی بھی بتا دی ۔ 
آخر کار الله جل جلالہ کئ طرف سے یہ حکم آیا کہ بچھڑے کو دریا میں پھینک دو اور ایک دوسرے کو قتل کر دو ۔ کیونکہ صرف اسی صورت میں تمہاری توبہ قبول کی جا سکتی ہے ۔ چنانچہ ایک دن میں دو ہزار بندے مارے گئے  ۔ آخر کار حضرت موسی علیہ السلام نے الله تعالی سے التجا کی تو معافی کا حکم آیا ۔
یہ الله رحیم و کریم کا محض لطف و کرم ہے کہ انسان خطائیں کرتا ہے مگر الله تعالی ان سے چشم پوشی فرماتا ہے ۔ انسان جونہی اس کے سامنے اپنی غلطیوں ، کوتاہئیوں کا اعتراف کرتا ہے ۔ اور آئندہ برائی سے باز رہنے کا اقرار کرتا ہے ۔ الله تعالی جھٹ سے اپنی رحمت کا در کھولتا ہے اور بندے کو معاف کر دیتا ہے ۔ اگر انسان اس پر بھی احسان نہ مانے تو یہ حد درجہ ناقدری اور نا شکری ہو گی ۔ یہ جرم نا قابلِ معافی ہو گا ۔۔  

*بچھڑے کی پوجا*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاعَدْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُوسَى  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَرْبَعِينَ ۔۔۔۔۔۔۔لَيْلَةً 
اور جب ۔۔۔۔۔ ہم نے وعدہ کیا ۔۔۔۔۔۔ موسٰی علیہ السلام سے  ۔۔۔۔۔ چالیس ۔۔۔۔۔ رات 
ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔ اتَّخَذْتُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْعِجْلَ ۔۔۔۔ مِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بَعْدِهِ 
پھر ۔۔۔۔۔ پکڑ لیا تم نے ۔۔۔۔۔۔ بچھڑا ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ اس کے بعد 
وَأَنتُمْ ۔۔۔۔۔ ظَالِمُونَ۔  5️⃣1️⃣
اس حال میں کہ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ظالم ہو 
وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ.   5️⃣1️⃣
اور جب ہم نے موسٰی علیہ السلام سے چالیس رات کا وعدہ کیا پھر تم نے موسٰی علیہ السلام کے بعد بچھڑا بنا لیا  اور تم ظالم تھے ۔ 

موسٰی  :-  آپ بہت بلند مرتبہ جلیل القدر نبی ہیں ۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ "موسی" عبرانی لفظ ہے ۔ کچھ نے کہا ہے کہ یہ مصری ہے ۔ جس کے معنٰی بچہ یا بیٹا  ہیں ۔ آپ کے والد کا نام عمران تھا ۔ آپ کی بہن مریم اور ہارون تھے ۔ اور یہ دونوں آپ سے بڑے تھے ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کا زمانہ تیرہ یا پندرہ سو سال قبل مسیح بیان کیا جاتا ہے ۔ آپ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی ۔ 
اس آیہ میں الله تعالی نے حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کے وہ حالات بیان فرمائے ہیں ۔ جو بحیرۂ قلزم سے پار اتر کر انہیں پیش آئے ۔ 
جب حضرت موسٰی علیہ السلام سمندر پار کرکے کوہ طور کے پاس پہنچے ۔ تو الله تعالی نے انہیں حکم دیا کہ چالیس دن کوہ طور پر عبادت کریں ۔ حضرت موسی اس حکم کی تعمیل کے لئے کوۂ طور پر عبادت کے لئے چلے گئے ۔ اور اپنے بھائی ہارون کو اپنی غیر موجودگی میں قوم کی دیکھ بھال کے لئے مقرر کر گئے ۔ 
ان کے جانے کے بعد بنی اسرائیل میں آزادی اور خود سری پیدا ہوگئی ۔ وہ حضرت ہارون کے ہوتے ہوئے بھی حق پرستی کی طرف مائل نہ ہوئے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ مصر والوں کی بت پرستی ابھی انہیں نہیں بھولی تھی ۔ اُن کی اس کمزوری اور بے وقوفی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک شعبدہ باز *سامری* نے سونے کا ایک بچھڑا بنایا ۔ جب ہوا چلتی تو تو اس بچھڑے کے منہ سے کچھ آواز نکلتی ۔ اگرچہ وہ آواز بے معنی تھی ۔ لیکن ان لوگوں کے لئے حیرت کا سبب تھی ۔  صرف چند لوگوں کے سوا تمام اسرائیلی اس بچھڑے کی پرستش کرنے لگے ۔ 
 حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا ۔ لیکن وہ حق پرستی پر مائل نہ ہوئے ۔ گویا حضرت موسٰی علیہ السلام کی چالیس دن کی عدم موجودگی میں بھی وہ حق پر قائم نہ رہ سکے ۔ اور الله جل جلالہ کو چھوڑ کر بے جان اور بے حقیقت بچھڑے کی پوجا میں لگ گئے ۔ اُن کی یہ بہت بڑی کمزوری تھی ۔ اور آج تک بعض قومیں اس غلطی میں مبتلا ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*فرعون کی غرقابی*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَرَقْنَا ۔۔۔۔۔ بِكُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْبَحْرَ ۔۔۔۔۔۔۔
اور جب ۔۔۔۔۔ ہم نے پھاڑ دیا ۔۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے ۔۔۔۔۔ سمندر 
فَأَنجَيْنَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ كُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَأَغْرَقْنَا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔آلَ فِرْعَوْنَ ۔۔۔۔۔ 
پس نجات دی ہم نے ۔۔۔۔۔ تمہیں ۔۔۔۔ اور ہم نے غرق کر دیا ۔۔۔۔۔ آل فرعون 
وَأَنتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تَنظُرُونَ.    5️⃣0️⃣
اس حال میں کہ تم ۔۔۔۔۔۔ تم دیکھتے ہو 

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ.   5️⃣0️⃣
اور جب ہم نے تمھاری وجہ سے سمندر کو پھاڑ دیا اور ہم نے تمہیں بچا لیا اور آل فرعون کو ڈبو دیا  اور تم دیکھ رہے تھے ۔ 

اَلْبَحْرَ ۔( سمندر ) ۔ یہاں البحر سے مراد بحیرۂ قلزم ہے ۔ جسے بحر احمر بھی کہتے ہیں ۔ مصر اس کے ذریعے سینا اور شام سے ملتا ہے ۔ بنی اسرائیل نے اس کو عبور کرکے جزیرہ نما سینا میں قدم رکھا تھا ۔  اس جملہ میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب بنی اسرائیل قلزم کو پارکرنے لگے تو سمندر میں ان کے لئے راستہ بن گیا ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے ہاتھوں معجزہ کے طور پر اسے پار کرنے کے لئے زمین خشک ہوگئی ۔ 
وَ اَنْتُمْ تنظُرُوْنَ ۔ ( تم دیکھ رہے تھے ) ۔ بنی اسرائیل کو بتایا جاتا ہے کہ تم نے اپنے اس قدر بڑے ، ظالم ، جابر دشمن کو انتہائی ذلّت اور رُسوائی کی موت مرنے کا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ 
بنی اسرائیل مصر کے ظالم بادشاہوں کی سختیاں کئ سال تک سہتے رہے ۔ آخر کار انہوں نے ارادہ کیا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی رہنمائی میں مصر کو چھوڑ کر اپنے آبائی وطن شام اور فلسطین چلے جائیں چونکہ  مصری حکومت انہیں اس بات کی اجازت دینے کے لئے رضامند نہیں تھی ۔اس لئے انہوں نے رات کو سفر اختیار کیا ۔ اندھیری رات ، اپنے گھر بار چھوڑنے کا غم ، مصری حکومت کے پیچھے کا خوف ان سب باتوں نے انہیں ہراساں کر رکھا تھا ۔ پریشانی کی حالت میں راستہ بھول گئے ۔ 
ادھر فرعون کو خبر ہو گئی ۔ وہ اپنے لشکر کو لیکر وہاں آپہنچا ۔ اب بنی اسرائیل بالکل بے بس اور بے یارومددگار تھے ۔ آگے سمندر تھا اور پیچھے غضب سے بھرا ہوا مصری لشکر ۔ سخت پریشانی کا عالم تھا ۔ اسی وقت حضرت موسٰی علیہ السلام نے الله جل جلالہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری ۔ سمندر پھٹ گیا ۔ اور خشک زمین نکل آئی ۔ اسرائیلیوں کا قافلہ پار نکل گیا ۔ اتنے میں فرعون کا لشکر بھی آپہنچا ۔ اور خشک راستہ دیکھ کر اس میں اتر پڑا ۔ لیکن ابھی درمیان میں ہی تھا کہ الله جل جلالہ کے حکم سے پانی آپس میں مل گیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت اس کے بیچوں بیچ غرق ہوگیا ۔ بنی اسرائیل نے اپنے دُشمن کا اس بے بسی میں غرق ہونے کا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔ ایت میں اسی قصے کی طرف اشارہ ہے ۔۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*بنی اسرائیل پر مصائب*

وَإِذْ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نَجَّيْنَاكُم  ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مِّنْ  ۔۔۔۔۔۔ آلِ فِرْعَوْنَ   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    يَسُومُونَكُمْ 
اور جب ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے نجات دی تم کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ سے  ۔۔۔۔ آل فرعون ۔۔۔۔۔ وہ پہنچاتے تھے تم کو 
سُوءَ ۔۔۔۔۔۔ الْعَذَابِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يُذَبِّحُونَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَبْنَاءَكُمْ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَيَسْتَحْيُونَ 
بُرا ۔۔۔۔۔۔۔ عذاب ۔۔۔۔  وہ ذبح کرتے تھے  ۔۔۔۔۔۔۔۔  بیٹے تمھارے ۔۔۔۔ اور زندہ رکھتے تھے 
نِسَاءَكُمْ  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَفِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذَلِكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔   بَلَاءٌ ۔۔۔۔۔۔۔
عورتیں تمہاری  ۔۔۔۔۔۔ اور میں ۔۔۔۔۔۔ اس تمہارے ۔۔۔۔  آزمائش ۔
۔مِّن  ۔۔۔۔۔ رَّبِّكُمْ ۔۔۔۔۔۔  عَظِيمٌ۔  4️⃣9️⃣
سے ۔۔۔۔۔۔ تمہارا رب ۔۔۔۔  بڑائی 

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ
وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ.   4️⃣9️⃣
اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے تمہیں آلِ فرعون سے نجات دی  جو تم پر بڑا عذاب کرتے تھے ۔ تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑتے تھے ۔ اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی آزمائش تھی ۔ 

آلِ فِرْعَوْنَ ۔ (  ۔ آل ۔ اولاد ۔ والے ۔ فرعون ۔ بادشاہ مصر کا لقب تھا ۔ )۔ آل اولاد کو کہتے ہیں اور اس سے مراد ہم مذہب اور تابع لوگوں کو بھی لیا جاتا ہے ۔ 
 فِرعَون ۔۔۔۔ عام طور سے لوگ مصر کے ایک بادشاہ کا نام سمجھتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی ایک شخص کا نام نہیں ۔ بلکہ مصر کے تمام بادشاہوں کا لقب تھا ۔ ۔ جیسے چین کے بادشاہ کو خاقان اور روم کے بادشاہ کو قیصر کہتے تھے ۔ 
حضرت یوسف علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو مصر میں لا کر آباد کیا تھا ۔ انہیں یہاں رہتے صدیاں گزر گئیں ۔ اور ان کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی ۔ مصر کے بادشاہوں نے انہیں اپنا غلام بنا لیا ۔ اور ان سے نہایت ذلیل اور ناروا سلوک روا رکھا ۔ 
ایک مرتبہ مصر کے ایک بادشاہ نے خواب دیکھا ۔ صبح کو کاہنوں کو جمع کرکے اس کی تعبیر پوچھی ۔ کہ میں نے بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ آتے دیکھی ہے ۔ جس نے تمام مصر کو گھیر لیا ہے ۔ اور چُن چُن کر ایک ایک قبطی کو جلا دیا ہے ۔ یہ سُن کر کاہنوں نے کہا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو آپ کی ہلاکت اور سلطنت کے زوال کا سبب بنے گا ۔ 
فرعون نے ملک کی تمام دائیوں کو جمع کرکے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو ۔ فورا قتل کر دیا جائے ۔ البتہ لڑکی کو زندہ چھوڑ دیا جائے ۔ اس حکم کے مطابق بنی اسرائیل کے ہزاروں بچے پیدا ہوتے ہی قتل کر دئیے گئے ۔ مصر کے سرداروں کو خیال پیدا ہوا اگر بنی اسرائیل یونہی قتل ہوتے رہے تو ہماری خدمت کون کرے گا ۔ 
یہ سن کر فرعون نے حساب لگوا کر یہ اعلان کیا کہ ایک سال قتل جاری رہے گا ۔ اور ایک سال بند رہے گا ۔ جس سال یہ قتل بند تھا اُس سال ہارون علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اور جس سال قتل جاری تھا اُس سال حضرت موسٰی علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ لیکن الله کریم نے اپنی حسنِ تدبیر سے انہیں قتل ہونے سے بچا لیا ۔ 
اس آیۃ میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے ۔ فرعون کی قوم نے بنی اسرائیل کو سخت مصیبت اور مشقت میں ڈال رکھا تھا ۔ ان تمام مصائب سے آخر کار الله تعالی نے انہیں حضرت موسٰی علیہ السلم کے ذریعے نجات دی ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں