*مفعول فیہ*

سمجھ لو کہ ۔۔۔" فیہ "۔۔ قواعد میں  جہاں بھی ہو گا  ظرف کا معنی دے گا ۔ یعنی اس میں یا تو " وقت " کا ذکر ہو گا یا پھر " جگہ" کا ۔ اور جیسا کہ معلوم ہے ظرف کی دو قسمیں ہیں 
ظرف زماں اور ظرف مکاں 
اب ۔۔ مفعول فیہ ۔۔ وہ مفعول منصوب ہے جس سے کام ہونے کے وقت یا جگہ کا پتہ چل سکے ۔ 
جیسے ۔۔ مَکَثْتُ فی لاھور شھراً ۔۔ میں لاھور میں ایک مہینہ ٹھری ۔ 
یعنی مدت معلوم ہوئی 
شرِبَ المریضُ الدواء  مَسَاءً ۔  ۔۔۔ مریض نے شام کو دوا پی ۔ 
شرب ۔۔ فعل ۔۔۔ المریض ۔۔۔ فاعل ۔۔ دوا ۔۔۔ مفعول ۔۔۔ اور مساء ۔۔ مفعول فیہ 
یہ تو ہوئی ظرف زماں کی مثال 
اور ظرف مکاں میں جگہ کے بارے میں علم ہوتا ہے ۔ 
جَرَیٰ عَلِیُّ مِیْلاً ۔۔ علی ایک میل دوڑا 
مَشَیْتُ اَمْسِ فَرْسَخاً  
میں شام کو ایک فرسخ چلی ۔ 
۔ (ایک  میڑ چلی ایل ڈی کی طرف ) ۔ 
سمجھے کہ نہ سمجھے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں