نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*نماز ، زکٰوۃ اور اتحاد*

وَأَقِيمُوا    ۔   الصَّلَاةَ     ۔ وَآتُوا      ۔ الزَّكَاةَ      
اور تم قائم کرو ۔ نماز ۔ اور تم ادا کرو ۔ زکٰوۃ 
وَارْكَعُوا       ۔ مَعَ           ۔    الرَّاكِعِينَ.   4️⃣3️⃣
اور تم جھکو ۔  ساتھ  ۔                   جُھکنے والے 

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ۔     4️⃣3️⃣
اور نماز قائم کرو اور زکٰوۃ ادا کرو اور  (نمازمیں ) جُھکنے والوں کےساتھ جُھکو ۔ 

اَلزّکٰوۃ ۔ ( زکٰوۃ )  اس لفظ کے معنی ہیں بڑھنا ۔ جیسے زکا الزرع کے معنی ہیں کھیتی بڑھ گئی ۔  الله جل شانہ کے نام پر مستحق لوگوں کو دینے اور جائز کاموں کے لئے خرچ کرنے سے مال بڑھتا ہے ۔ اس لئے سال کے بعد ایک مقررہ حصّہ الله جل شانہ کی راہ میں دینے کو زکٰوۃ کہا جاتا ہے ۔ زکٰوۃ کے دوسرے معنی پاکیزگی کے ہیں ۔ زکٰوۃ دینے سے مال پاکیزہ ہو جاتا ہے *صلٰوۃ اور زکٰوۃ*    دو ایسے فرائض ہیں جو ہر مذہب میں عبادت کا لازمی حصہ رہے ہیں ۔ البتہ ان کی صورتوں اور مسائل میں جُزوی اختلاف رہا ہے ۔ 
ارکعوا ۔ ( جُھکو ) ۔ یہ لفظ رکوع سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں جھکنا ۔ چونکہ یہ نماز کا ایک حصہ ہے ۔ اس لئے پوری نماز کے لئے بھی یہی لفظ اکثر بول دیتے ہیں ۔ کہیں کہیں اس کے ساتھ  اسجدوا کا لفظ بھی آیا ہے ۔ 
الله کریم نے یہودیوں کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے پہلے اعتقاد اور ایمان درست کرنے کا حکم دیا اور یہ کہ وہ الله تعالی کی بھیجی ہوئی تعلیم کو بالکل اس کی اصلی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کریں ۔ اور اس میں اپنی طرف سے کچھ نہ ملائیں ۔ اور نہ کمی بیشی کریں ۔ 
اب انہیں عمل کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے وہ نماز قائم کریں ۔ اور باقاعدگی کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے رہیں ۔
 اس کے بعد انہیں زکٰوۃ ادا کرنے کا حکم دیا ۔ کہ وہ بدستور ہر سال اپنے مال میں سے ایک مقررہ حصہ الله تعالی کے نام پر مسکینوں ، محتاجوں اور مستحق لوگوں کو دیا کریں ۔ اُمت کی فلاح و بہبود  کے لئے مفید کاموں میں الله جل شانہ کا دیا مال خرچ کریں ۔ یہودی لوگ تاجر اور کاریگر ہونے کی وجہ سے بڑے مالدار تھے ۔ اس وجہ سے ان میں مال و دولت کی محبت حد سے زیادہ ہونے کا خطرہ تھا ۔ نماز پڑھنے اور صدقات دینے سے دوسروں کی حاجتوں کا علم اور ہمدردی کے ساتھ ان کا تدارک میسر ہوتا ہے ۔ حکم دیا گیا کہ نماز گھر میں پڑھنے کی بجائے مسجد میں جاکر ادا کریں ۔ اور مستحقوں کو زکٰوۃ دیا کریں ۔ اس اجتماع اور اتحاد کے بے شمار فوائد ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...