نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*صورتیں مسخ ہو جانا*

وَلَقَدْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   عَلِمْتُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الَّذِينَ 
اور البتہ تحقیق ۔۔۔ جان لیا تم نے ۔۔۔ وہ لوگ 
 اعْتَدَوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مِنكُمْ ۔۔۔۔۔   فِي    ۔۔۔۔  السَّبْتِ 
زیادتی کی انہوں نے ۔۔۔ تم میں سے ۔۔۔ میں ۔۔۔ ہفتہ کا دن 
فَقُلْنَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَھُمْ ۔۔۔۔۔۔۔  کُونُوا۔   
پس کہا ہم نے ۔۔۔ ان کے لئے ۔۔۔ ہو جاؤ 
۔ قِرَدَةً ۔۔۔خَاسِئِينَ۔ 6️⃣5️⃣
بندر ۔۔۔ ذلیل 

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ.    6️⃣5️⃣
اور تم ان لوگوں کو خوب جان چکے ہو جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے دن میں زیادتی کی تھی تو ہم نے ان سے کہا ذلیل بندر ہو جاؤ ۔ 

مِنْکُم۔۔ ( تم میں سے ) ۔ اس سے مراد یہودیوں کے آباء و اجداد ہیں ۔ 
اَلسَّبْت ۔ ( ہفتہ کا دن ) ۔ سبت کے لفظی معنی ہیں ہفتہ ۔ یعنی شنبہ ( سٹر ڈے ، سینچر ) ۔ جس طرح عیسائیوں کے ہاں اتوار اور مسلمانوں کے ہاں جمعہ مقدس دن ہے ۔ اسی طرح یہودیوں کے ہاں ہفتہ مقدس دن شمار ہوتا ہے ۔ یہ  دن ان کے ہاں صرف الله کی عبادت کے لئے مخصوص ہے ۔ اور اس دن دنیا کے کام مثلا تجارت ، زراعت یا شکار وغیرہ ممنوع ہیں ۔ 
اَعْتَدُوْا ۔ ( زیادتی کی ) ۔ یعنی اپنی شریعت کی حدوں سے آگے نکل گئے ۔ لفظ عدوان اس کا مصدر ہے ۔ جس کے معنی سرکشی کرنا اور حد سے بڑھ جانا ہے ۔ 
حضرت داود علیہ السلام کے زمانے میں یہودیوں کی ایک بڑی تعداد اَیلہ ( فلسطین کے جنوب )  کے مقام پر آباد تھی ۔ یہ واقعہ اسی آبادی کا ہے ۔ یہ لوگ الله تعالی کے حکم کی خلاف ورزی بڑی چالبازی سے کرتے تھے ۔ انہیں حکم تھا کہ سبت یعنی ہفتہ کے دن مچھلی کا شکارہرگز  نہ کیا کریں ۔ الله تعالی کو ان کی آزمائش بھی درکار تھی ۔ عام طور پر سبت کے دن  بڑی کثرت سے مچھلی آتی ۔ 
یہودیوں نے الله جل جلالہ کے حکم کی ظاہری صورت برقرا رکھتے ہوئے بہانے سے ایک ترکیب نکالی ۔ وہ ہفتہ کے دن دریا کے قریب گڑھے کھود لیتے ۔ مچھلی بڑی مقدار میں پانی کے ساتھ ان گڑھوں میں پہنچ جاتی ۔ اور کے بعد دریا کی طرف والا راستہ بند کر دیتے ۔ اور اگلے روز ان گڑھوں سے مچھلی نکال لیتے ۔ 
اس مسلسل نافرمانی پر الله جل جلالہ نے انہیں یہ سزا دی کہ وہ انسان سے بندر بنا دئیے گئے ۔ اور اُن کی صورتیں مسخ کر دی گئیں ۔ 
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض باتیں الله تعالی کی طرف سے صرف آزمائش کے لئے آتی ہیں ۔ یعنی ان سے صاف طور پر یہ واضح کرنا مقصود ہوتا ہے کہ الله کے بندے سختی اور آسائش و آرام دونوں حالتوں میں اس کے فرمانبردار رہتے ہیں ۔ جو بندہ آزمائش میں پورا اترے اس کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں ۔ لیکن بے صبروں کے لئے سزا بہت سخت ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...