نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*منّ و سلوٰی*

وَظَلَّلْنَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمُ ۔۔۔۔الْغَمَامَ ۔۔۔۔۔وَأَنزَلْنَا
اور سایہ کیا ہم نے ۔۔۔ تم پر ۔۔۔ بادل ۔۔۔۔۔۔ اور اتارا ہم نے 
 عَلَيْكُمُ ۔۔۔۔۔الْمَنَّ ۔۔۔۔۔وَالسَّلْوَى ۔۔۔۔۔۔۔كُلُوا ۔۔۔۔۔۔ مِن 
تم پر ۔۔۔۔۔ من ۔۔۔۔ اور سلوٰی ۔۔۔۔ تم کھاؤ۔۔۔۔۔ سے 
طَيِّبَاتِ ۔۔۔۔۔۔مَا ۔۔۔۔۔رَزَقْنَاكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظَلَمُونَا۔۔
پاکیزہ ۔۔۔۔۔ جو ۔۔۔۔ ہم نے دیا تم کو ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔۔ ظلم کیا ہم نے 
 وَلَكِن ۔۔۔۔۔۔۔كَانُوا ۔۔۔۔۔۔۔أَنفُسَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔يَظْلِمُونَ۔ 5️⃣7️⃣
اور لیکن ۔۔۔۔ وہ تھے ۔۔۔ اپنی جانوں پر ۔۔۔۔۔ وہ ظلم کرتے 

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى
 كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا
 وَلَكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ.    5️⃣7️⃣
اور ہم نے تم پر ابر کا سایہ کیا اور تم پر اتارا من و سلوٰی  کھاؤ پاک چیزیں جو ہم نے تمہیں دیں ۔ اور انہوں نے ہمارا کچھ نقصان نہیں کیا بلکہ اپنا ہی نقصان کیا ۔ 
مَنٌّ ۔۔۔ یہ ایک میٹھی اور مرطوب چیز تھی ۔ جو تلاش اور جستجو کے بعد بنی اسرائیل کو مل جاتی ۔ جزیرہ نماۓ سینا کی صحرا نوردی میں ان پر یہ الله تعالی کا بڑا احسان تھا ۔ مَنٌّ  کی مختلف صورتیں بیان کی گئیں ہیں ۔ بعض نے اسے ایک خاص قسم کی گوند سے مشابہ قرار دیا ہے ۔ بعض نے شہد بیان کیا ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ من ایک میٹھی چیز تھی دھنییے کے سے دانے ترنجبین سے ملتی جلتی ۔ رات کو اوس کی طرح برستی ۔ لشکر کے گرد ڈھیر لگ جاتے ۔ صبح کو ہر ایک اپنی ضرورت کے مطابق اٹھا لاتا ۔
سَلْوٰی۔ ۔۔۔ بٹیر سے ملتا جلتا ایک پرندہ ہے جو جزیرہ نماۓ سینا میں ہوتا ہے ۔ یہ بہت اونچا نہیں اُڑتا جلد تھک جاتا ہے ۔ اور بڑی آسانی سے شکار ہو جاتا ہے ۔ سمندری ہوا انہیں اُڑا کر بنی اسرائیل کے پڑاؤ تک لے آتی ۔ وہ ان پرندوں کو پکڑ لیتے اور مزے دار  خوراک بناتے ۔ 
مفسرین کرام نے اس آیہ کی تشریح میں فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل مصر سے نکلنے کے بعد چالیس سال تک جزیرہ نماۓ سینا کے سنسان صحرا میں پریشان پھرتے رہے ۔ سایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ دھوپ سے گھبرا اُٹھے ۔  حضرت موسٰی علیہ السلام کی دُعا سے ان کے سروں پر سارا دن ایک بادل سایہ کرنے کے لئے رہنے لگا ۔ خوراک کے لئے الله کریم نے بڑی شفقت سے منّ اتارنا شروع کیا ۔ اور بٹیریں بھیجیں ۔ انہیں یہ حکم بھی دیا کہ وہ ان آسمانی نعمتوں کا ذخیرہ نہ کریں ہر روز ضرورت کے مطابق لے لیا کریں ۔ اور اس کے متبادل دوسری چیزوں کی خواہش نہ کریں ۔ لیکن ان لوگوں نے حکم کی نافرمانی کی ۔ 
پہلا ظلم یہ کیا کہ گوشت خوراک جمع کرنی شروع کر دی ۔ جو سڑنا شروع ہو گئی ۔ 
دوسرا اس کے بدلہ میں مسور ، گندم ، لہسن پیاز کی فرمائش کردی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نعمتیں ملنی بند ہو گئیں ۔ اس طرح انہوں نے خود اپنے آپ کا نقصان کیا ۔ اور خود اپنے ہاتھوں خود پر  ظلم کیا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی ۔۔۔

د

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...