نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*یہود پر غضب الٰہی*

وَضُرِبَتْ ۔۔۔۔عَلَيْهِمُ ۔۔۔۔۔الذِّلَّةُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَالْمَسْكَنَةُ 
اور ڈال دی گئی ۔۔۔۔۔اُن پر ۔۔۔ ذلّت ۔۔۔۔ اور محتاجی 
وَبَاءُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بِغَضَبٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مِّنَ ۔۔۔۔۔۔اللَّهِ
اور وہ لپیٹ میں آگئے ۔۔۔۔ غضب کی وجہ  ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ الله 

وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَهِ
اور ڈالی گئی ان پر ذلّت اور محتاجی اور پھرے الله جل جلالہ کا غصہ لے کر 

ضُرِبَتْ۔۔۔ ( ڈال دی گئی ) ۔ اس کا مادہ ضربٌ ہے ۔ یہ مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً  مارنا ، چلنا ، ڈالنا ، چسپاں اور مسلط کر دینا ۔ یہاں اس سے مراد ہے کہ ذلت ان پر چسپاں کر دی گئی ۔ 
ذِلّۃٌ ۔۔ ( ذلّت ) ۔ خواری اور سیاسی اعتبار سے پستی 
مَسْکَنَةٌ۔۔ ( محتاجی ) ۔ اس سے مراد غربت اور محتاجی ہے ۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہودی امیر ترین قوم ہے ۔ لیکن یہ ایک دھوکا ہے ۔ دھن دولت جتنی بھی ہے ۔ وہ قوم یہود کے بڑے بڑے لوگوں تک محدود ہے ۔ اور ان کے عوام مالی اعتبار سے کمزور ہیں ۔ وطن ، دولت والے بھی بخل اور مال کی محبت کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ 
الله تعالی نے بنی اسرائیل پر طرح طرح کی نعمتیں اور احسانات  کئے ۔ لیکن انہوں نے اس کا شکر ادا نہ کیا ۔ الله جل جلالہ کے قانون کی نافرمانی کرتے رہے ۔ انہیں من و سلوٰی دیا گیا ۔ لیکن انہوں نے اس نعمت پر صبر نہ کیا ۔ بلکہ ادنٰی درجہ کی سبزیاں اور ترکاریاں مانگتے رہے ۔ 
اس ناشکری کی وجہ سے الله جل جلالہ کا غصہ ان پر ظاہر ہوا ۔ ایک تو یہ کہ ان پر ذلت چسپاں کر دی گئی ۔ چنانچہ یہ قوم ہمیشہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ماتحت رہی ۔ اسرائیل کے نام سے ان کی حکومت قائم ہوئی ۔ مگر اس کا قیام بھی مغربی حکومتوں کے سہارے ہوا ۔ اور آج بھی اس کی بقا مغربی ملکوں کی ریشہ دوانیوں  کے سہارے سے ہے ۔ 
اس سبق سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کو الله تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہئیے ۔ تاکہ وہ نعمت باقی رہے ۔ کیونکہ جب تک کوئی قوم الله رحیم و کریم کے احسانات کا شکر ادا کرتی رہتی ہے الله تعالی بھی اس پر اپنی نعمتیں نچھاور کرتا رہتا ہے ۔ 
اس کے علاوہ انسان کو کبھی الله جل شانہ کے دین پر اعتراض نہیں کرنا چاہئیے ۔ کہ اگر یوں ہوتا تو بہتر ہوتا ۔ کیونکہ انسان کسی چیز کے انجام کی بھلائی سے واقف نہیں ۔ 
الله کریم ہمیں ہدایت دے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...