نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*بچھڑے کی پوجا*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَاعَدْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُوسَى  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَرْبَعِينَ ۔۔۔۔۔۔۔لَيْلَةً 
اور جب ۔۔۔۔۔ ہم نے وعدہ کیا ۔۔۔۔۔۔ موسٰی علیہ السلام سے  ۔۔۔۔۔ چالیس ۔۔۔۔۔ رات 
ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔ اتَّخَذْتُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْعِجْلَ ۔۔۔۔ مِن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بَعْدِهِ 
پھر ۔۔۔۔۔ پکڑ لیا تم نے ۔۔۔۔۔۔ بچھڑا ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ اس کے بعد 
وَأَنتُمْ ۔۔۔۔۔ ظَالِمُونَ۔  5️⃣1️⃣
اس حال میں کہ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ظالم ہو 
وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ.   5️⃣1️⃣
اور جب ہم نے موسٰی علیہ السلام سے چالیس رات کا وعدہ کیا پھر تم نے موسٰی علیہ السلام کے بعد بچھڑا بنا لیا  اور تم ظالم تھے ۔ 

موسٰی  :-  آپ بہت بلند مرتبہ جلیل القدر نبی ہیں ۔ اکثر مفسرین کا خیال ہے کہ "موسی" عبرانی لفظ ہے ۔ کچھ نے کہا ہے کہ یہ مصری ہے ۔ جس کے معنٰی بچہ یا بیٹا  ہیں ۔ آپ کے والد کا نام عمران تھا ۔ آپ کی بہن مریم اور ہارون تھے ۔ اور یہ دونوں آپ سے بڑے تھے ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کا زمانہ تیرہ یا پندرہ سو سال قبل مسیح بیان کیا جاتا ہے ۔ آپ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی ۔ 
اس آیہ میں الله تعالی نے حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کے وہ حالات بیان فرمائے ہیں ۔ جو بحیرۂ قلزم سے پار اتر کر انہیں پیش آئے ۔ 
جب حضرت موسٰی علیہ السلام سمندر پار کرکے کوہ طور کے پاس پہنچے ۔ تو الله تعالی نے انہیں حکم دیا کہ چالیس دن کوہ طور پر عبادت کریں ۔ حضرت موسی اس حکم کی تعمیل کے لئے کوۂ طور پر عبادت کے لئے چلے گئے ۔ اور اپنے بھائی ہارون کو اپنی غیر موجودگی میں قوم کی دیکھ بھال کے لئے مقرر کر گئے ۔ 
ان کے جانے کے بعد بنی اسرائیل میں آزادی اور خود سری پیدا ہوگئی ۔ وہ حضرت ہارون کے ہوتے ہوئے بھی حق پرستی کی طرف مائل نہ ہوئے ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ مصر والوں کی بت پرستی ابھی انہیں نہیں بھولی تھی ۔ اُن کی اس کمزوری اور بے وقوفی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک شعبدہ باز *سامری* نے سونے کا ایک بچھڑا بنایا ۔ جب ہوا چلتی تو تو اس بچھڑے کے منہ سے کچھ آواز نکلتی ۔ اگرچہ وہ آواز بے معنی تھی ۔ لیکن ان لوگوں کے لئے حیرت کا سبب تھی ۔  صرف چند لوگوں کے سوا تمام اسرائیلی اس بچھڑے کی پرستش کرنے لگے ۔ 
 حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا ۔ لیکن وہ حق پرستی پر مائل نہ ہوئے ۔ گویا حضرت موسٰی علیہ السلام کی چالیس دن کی عدم موجودگی میں بھی وہ حق پر قائم نہ رہ سکے ۔ اور الله جل جلالہ کو چھوڑ کر بے جان اور بے حقیقت بچھڑے کی پوجا میں لگ گئے ۔ اُن کی یہ بہت بڑی کمزوری تھی ۔ اور آج تک بعض قومیں اس غلطی میں مبتلا ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...