نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*دجال*

ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے قیامت کی بہت سی نشانیاں بیان فرمائی ہیں ۔ جن میں سے سب سے بڑی نشانی خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دنیا میں تشریف لانا ہے ۔ کیونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ اب قیامت ہی آئے گی ۔ 
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جو قیامت کی نشانیاں بیان فرمائی ہیں وہ دو قسم کی ہیں ۔ 
اول :- چھوٹی نشانیاں ۔۔۔۔ جیسے جھوٹ اور خیانت کا عام ہو جانا ۔ الله کے مال کو اپنی ملکیت سمجھ لینا ۔ لوگ زکوۃ دینے کو بوجھ سمجھنے لگیں گے ۔ فحاشی اور بے حیائی  عام ہو جائے گی ناچ گانا پھیل جائے گا اور باعث ترقی وعزت سمجھا جائے گا۔  دین کے فرائض ۔۔۔ نماز اور روزہ  زکوۃ اور حج وغیرہ ادا کرنے دشوار ہوں گے اور ان عبادات میں دنیا داری اور دکھاوا شامل ہو جائے گا ۔ لوگ ماں باپ کی نافرمانی کریں گے انہیں برا سمجھیں گے اور غیر لوگوں اور دوستوں سے محبت کریں گے۔ اور ان کا کہا مانیں گ  ۔ لالچی اور بد اخلاق ہو جائیں گے ۔ 
لوگوں کی عزت اور آحترام یا تو ان کے دولتمند ہونے کی وجہ سے کیا جائے گا یا ان کے ظلم و ستم سے ڈر کر ۔ سود حلال کر لیا جائے گا برے حکمران عوام پر مسلط ہوں گے جنہیں صرف مال ودولت کی حوص ہو گی عوام کی پرواہ نہ ہو گی ۔ خوب ظلم کریں گے ۔ لوگ اپنے پہلے بزرگوں کو برا کہیں گے ۔ ان پر بہتان باندھیں گے اور انہیں جھوٹا کہیں گے ۔ حرام چیزوں کوحلال کر لیں گے 
نبی آخر ، رحمت عالم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جب ایسا وقت آئے گا تو الله تعالی کی طرف سے عذاب نازل ہونا شروع ہوجائیں ۔۔ سُرخ آندھیاں چلیں گی ۔ زلزلے آئیں گے ۔ لوگوں کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا ۔ بہت زیادہ  سیلاب آنے لگیں گے ۔مسلمانوں  میں لڑائیاں ہوں گی ۔ آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹیں گے ۔ ایک بڑی جنگ ہو گی جو مسلمان اور عیسائی مل کر یہودیوں کے خلاف لڑیں گے اور اس میں جیت جائیں گے ۔ لیکن پھر ان کی آپس میں لڑائی ہوجائے گی ۔ دنیا میں ہر طرف بد امنی اور انتشار کا دور ہوگا ۔  مصیبتیں ایک کے بعد ایک ایسے نازل ہوں گی جیسے تسبیح ٹوٹنے سے موتی تیزی سے گرنے لگتے ہیں ۔ 
دوم :- بڑی نشانیاں ۔۔۔۔۔ پھر قیامت کی بڑی نشانیاں شروع ہوں گی جس میں حضرت امام مہدی کا دنیا میں آنا ہے ۔ مسلمان اس وقت پریشانی کے عالم میں امام مہدی کا انتظار کر رہے ہوں گے ۔ امام مہدی بیت الله کا طواف کر رہے ہوں گے کہ لوگ انہیں پہچان لیں گے اور زبردستی انکی بیعت کریں گے اور انہیں حاکم بنا لیں گے ۔ پھر مسلمان کافروں کے خلاف جنگیں کریں گے ۔ امام صاحب ملکوں کو فتح کرتے اور ان کا انتظام کرتے کرتے ملک شام میں پہنچ جائیں گے ۔ اس وقت دجال ظاہر ہو گا ۔ جو یہودی ہو گا ۔ پہلے نبوت کا دعوٰی کرے گا ۔ جب اس کے ماننے والے زیادہ ہو جائیں گے تو خدائی کا دعوٰی کر دے گا ۔ اور جنگیں  لڑتا ملک ملک فتح کرتا مکہ اور مدینہ شریف تک پہنچ جائے گا ۔اس کے ساتھ ایک بڑا لشکر ہو گا ۔ لیکن فرشتوں کی حفاظت کی وجہ سے مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ میں داخل نہیں ہو سکے گا ۔ 
 اسی وقت مدینہ مبارکہ میں تین بار زلزلہ آئے گا اور کمزور ایمان والے لوگ مدینہ سے باہر نکل کر دجال کے پھندے میں پھنس جائیں گے ۔ 
مدینہ طیبہ سے ایک بزرگ نکلیں گے جو دجال سے خوب بحث کریں گے ۔ دجال جھنجلا کر انہیں قتل کر دے گا اور ان کے دو ٹکرے کرکے درمیان میں پھرے گا ۔ پھر انہیں زندہ کرے گا اور پوچھے گا ۔ اب تمہارا میرے بارے میں کیا خیال ہے ؟ 
وہ بزرگ فرمائیں گے کہ اب تو میرا یقین اور پختہ ہو گیا ہے کہ تم ہی دجال ہو ۔ پھر دجال ان پر قابو نہیں پاسکے گا ۔ دجال کے ساتھ اس کی بنائی ہوئی جنت اور دوزخ ہوگی ۔ اور دنیا کے سارے خزانوں پر اس کا اختیار ہو گا ۔ حقیت میں اس کی جنت آگ کے شعلے ہوں گے اور جو دوزخ ہوگی وہ الله تعالی کی جنت ہو گی ۔ بہت سے لوگوں کو اپنی دوزخ میں ڈال دے گا ۔ اور وہ رب کی جنت میں پہنچ جائیں گے ۔
امام مہدی دجال سے مقابلہ کرنے شام سے نکلیں گے اور جب دمشق پہنچیں گے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان سے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے جامع مسجد کے مینار پر اتریں گے ۔ پھر سیڑھی لائی جائے گی اور وہ سیڑھی کے زریعے زمین پر آئیں گے ۔ وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کا کلمہ پڑھیں گے لوگ ان کی بیعت کریں گے ۔ امام مہدی انہیں حکومت پیش کریں  گے ۔ تو وہ فرمائیں گے کہ میں دجال کے خاتمہ کے لئے آیا ہوں ۔ امام مہدی  لشکر تیار کریں گے ۔ اور دجال سے لڑائی کا میدان جم جائے گا ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے سانس میں ایسا اثر ہو گا کہ جہاں تک جائے گا کافر ہلاک ہوتے جائیں گے پھر  حضرت عیسٰی علیہ سلام  ایک گھوڑا اور نیزہ منگا کر  دجال کی طرف بڑھیں گے ۔ وہ آپ کو دیکھ کر بھاگے گا ۔ آپ "بابِ لد " نامی جگہ پر اسے ہلاک کر دیں گے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...