*تحریف کلام الٰہی کی سزا*

فَبَدَّلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظَلَمُوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قَوْلًا 
پس بدل ڈالا ۔۔۔۔ وہ لوگ ۔۔۔ ظلم کیا انہوں نے ۔۔۔۔ بات
غَيْرَ ۔۔۔۔۔الَّذِي ۔۔۔۔۔۔۔۔ قِيلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَأَنزَلْنَا 
خلاف ۔۔۔۔ وہ جو ۔۔۔۔ کہا گیا ۔۔۔۔ ان سے ۔۔۔۔ پس اتارا ہم نے 
عَلَى ۔۔۔۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ظَلَمُوا ۔۔۔۔۔  رِجْزًا ۔۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔۔۔۔السَّمَاءِ 
پر ۔۔۔ وہ لوگ۔ ۔۔۔ ظلم کیا انہوں نے ۔۔۔۔ عذاب ۔۔۔۔ سے ۔۔۔۔ آسمان 
بِمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  كَانُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔   يَفْسُقُونَ.   5️⃣9️⃣
اس وجہ سے  ۔۔۔۔۔ وہ تھے۔ ۔۔۔۔۔  وہ نافرمانی کرتے 

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ 
فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ 
بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ.   5️⃣9️⃣
پھر بدل ڈالا ظالموں نے بات کو خلاف اس کے جو کہہ دی گئی تھی اُن سے پھر اُتارا ہم نے ظالموں پر عذاب آسمان سے اُن کی عدول حکمی پر 

بَدَّلَ  ۔۔ ( بدل ڈالا ) ۔ یعنی جن الفاظ کو ادا کرنے کی انہیں ہدایت کی گئی تھی ۔ انہیں بدل کر انہوں نے دوسرے الفاظ اختیار کر لئے ۔ جن کے معنی میں ہنسی اور تمسخر کے معنی پوشیدہ تھے ۔ 
رِجْزٌ۔ ۔۔۔ ( عذاب ) ۔ سرکش اور باغی انسانوں پر الله تعالی کا عذاب مختلف صورتوں میں آتا ہے ۔ اور یہ لفظ ہر قسم کے عذاب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ مفسّرین نے کہا ہے کہ جس عذاب کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ وہ بنی اسرائیل پر طاعون کی شکل میں آیا تھا ۔ 
بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ۔۔۔ ( چونکہ وہ نا فرمانی کرتے تھے ) ۔ یہ لفظ  فِسق سے بنا ہے ۔ جس کے معنی حکم نہ ماننا  اور فرمانبرداری نہ کرنا ہیں ۔ اسی لئے نافرمان اور گناہ گار کو فاسق کہتے ہیں ۔  یہاں اس جملے سے یہ مراد نہیں کہ بنی اسرئیل نے کوئی طبعی بد پرھیزی کی تھی جس کی وجہ سے اُن پر یہ وبا پھوٹ پڑی ۔ بلکہ انہوں نے الله جل جلالہ کے احکام کی مسلسل نافرمانی کی تھی ۔ اور اس کے نتیجے میں انہیں یہ سزا ملی ۔ 
جب حضرت یوشع علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل نے " اریحا " شہر فتح کیا ۔ تو یہ لوگ شکریہ ادا کرنے کے بجائے بدکار بن گئے ۔ اور الله جل شانہ کے حکم کو بدل کر طرح طرح کی ہنسی مذاق کی باتیں کرنے لگے ۔ اور  ( حطۃٌ ) استغفار کی بجائے  ( حِنطۃٌ فِی شَعْرۃٍ ) یعنی دانہ بالی کے اندر۔  مراد ( گندم  ) کہتے ہوئے داخل ہوئے ۔ اور سجدے کی بجائے بچوں کی طرح گھسٹتے ہوئے دروازے میں جا گھسے ۔ 
اس نافرمانی کی سزا میں ان پر عذاب نازل ہوا ۔ طاعون کی بیماری پھوٹ پڑی ۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ کہ تقریباً ستر ہزار اسرائیلی الله تعالی کے اس قہر کا شکار ہوئے ۔ 
الله جل جلالہ بنی اسرائیل کو اپنے یہ احسانات اس لئے یاد دلا رہا ہے ۔ کہ وہ انہیں یاد کریں اور شکر گزار ہو کر سیدھی راہ کی طرف مائل ہوں ۔  
ہمیں اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ الله رحیم و کریم کے انعام و اکرام کے لئے شُکر گزار ہونا چاہئیے ۔  اکڑ اور غرور و تکبر سے قومیں ہلاک ہو جاتی ہیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں