*حدیث نمبر ~~~~~4~~5*

اخلاص کے ساتھ کسی نیک کام کی صرف نیت کرنے پر عمل کا ثواب ملتا ہے ۔۔۔
حضرت جابر رضی الله تعالی عنہ سے روایت کہ : 
کہ ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں گئے ہوئے تھے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے خطاب کرکے فرمایا ۔ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ  تم نے جو بھی مسافت طے کی ہے ۔ اور جس وادی سے تم گزرے ہو ۔ وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو صرف دُکھ  بیماری نے روک دیا ہے ۔ 
( ورنہ اُن کے دل جہاد میں شرکت کے لئے تڑپ رہے ہیں ۔ ) 
ایک رویت میں  " تمہارے ساتھ ہیں " کے بجائے  " وہ اجر میں تمہارے شریک ہیں " آیا ہے 
صحیح مسلم 
حضرت انس رضی الله تعالی فرماتے ہیں : کہ 
ہم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ہمراہ غزوۂ تبوک سے واپس آرہے تھے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : بےشک 
بہت سے وہ لوگ جن کو ہم مدینہ میں چھوڑ آئے ہیں ۔ جس گھاٹی سے ہم گزرے ہیں اور جس وادی کو ہم نے طے کیا ہے ۔ وہ لوگ اس میں ہمارے ساتھ رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو مجبوری و معذوری نے بے بس کر دیا ہے ۔ 
نیت کی اہمیت :-
جو مجبور اور معذور لوگ کسی کار خیر مثلا حج ، جہاد ، صدقات و خیرات وغیرہ کا جذبہ صادق  پختہ ارادے ونیت کے ساتھ رکھتے ہیں مگر مجبوری اور معذوری کی وجہ سے اس نیک کام کو کر نہیں سکتے ان کو بھی الله جل جلالہ اپنی رحمت سے اس نیک نیتی اور اخلاص کی وجہ سے ثواب عطا فرما دیتے ہیں ۔ 
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔۔۔ جو شخص دل سے کسی نیک کام کی نیت کرتا ہے۔ تو ایک نیکی کا ثواب تو اسی وقت لکھ لیا جاتا ہے اور جب اس پر عمل کر لیتا ہے تو دس نیکیوں کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے ۔ 
نیک نیت خود ایک مستقل عبادت ، بندگی کا تقاضہ اور الله تعالی سے تعلق کی دلیل ہے ۔ 
ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے : کہ آدمی کی نیت اُس کے عمل سے بہتر ہے ۔ ۔۔ اس لئے انسان کا فرض ہے کہ ایسے نیکی کے کام جو الله کریم کی رضا اور خوشنودی کا سبب ہیں ان پر عمل کرنے کی پختہ نیت کر لے ۔ اگرچہ ظاہری اسباب اور وسائل اُس کے اختیار میں نہ ہوں ۔ تاکہ اُن کاموں پر عمل کرنے کی سعادت اس کے حصہ میں نہ بھی آئے پھر بھی کسی نہ کسی درجہ میں ان کے اجر وثواب سے محروم نہ رہے ۔ 
خصوصا  جہاد   اس کے متعلق آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد مبارکہ کا مفہوم ہے : کہ 
جس مسلمان کے دل نے اس کو کبھی جہاد کے لئے بھی نہیں کہا اور اسی حالت میں وہ مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا ۔۔۔۔ العیاذ بالله
یعنی اس نے کبھی جہاد کی نیت بھی نہیں کی ۔۔۔ 
اس نیت ، جذبہ اور شوق سے تو سوائے بدبختی اور قسمت کی خرابی کے اور کوئی چیز نہیں روک سکتی ۔ کہ مفت کا اجر و ثواب ملتا ہے ۔ 
اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے دلوں کو دنیا کے فائدے اور خواہش و غرض نے اس قدر مردہ کر دیا ہے کہ بقول شاعر 
#    کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا 
یہ سب کچھ ایمان یعنی الله جل شانہ سے تعلق کی کمزوری کا نتیجہ ہے ۔ اس لئے جلد از جلد اور سب سے پہلے الله جل جلالہ سے اپنا تعلق اور رشتہ نئے سرے سے جوڑنا چاہئیے ۔ اور اس کو زیادہ سے زیادہ پختہ کرنا چاہئیے ۔ تاکہ الله تعالی ہمیں  اس نیک نیتی اور نیک عملی کی سعادت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔۔۔۔ آمین 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں