*فرعون کی غرقابی*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَرَقْنَا ۔۔۔۔۔ بِكُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الْبَحْرَ ۔۔۔۔۔۔۔
اور جب ۔۔۔۔۔ ہم نے پھاڑ دیا ۔۔۔۔۔ تمہاری وجہ سے ۔۔۔۔۔ سمندر 
فَأَنجَيْنَا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ كُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَأَغْرَقْنَا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔آلَ فِرْعَوْنَ ۔۔۔۔۔ 
پس نجات دی ہم نے ۔۔۔۔۔ تمہیں ۔۔۔۔ اور ہم نے غرق کر دیا ۔۔۔۔۔ آل فرعون 
وَأَنتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تَنظُرُونَ.    5️⃣0️⃣
اس حال میں کہ تم ۔۔۔۔۔۔ تم دیکھتے ہو 

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ.   5️⃣0️⃣
اور جب ہم نے تمھاری وجہ سے سمندر کو پھاڑ دیا اور ہم نے تمہیں بچا لیا اور آل فرعون کو ڈبو دیا  اور تم دیکھ رہے تھے ۔ 

اَلْبَحْرَ ۔( سمندر ) ۔ یہاں البحر سے مراد بحیرۂ قلزم ہے ۔ جسے بحر احمر بھی کہتے ہیں ۔ مصر اس کے ذریعے سینا اور شام سے ملتا ہے ۔ بنی اسرائیل نے اس کو عبور کرکے جزیرہ نما سینا میں قدم رکھا تھا ۔  اس جملہ میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ جب بنی اسرائیل قلزم کو پارکرنے لگے تو سمندر میں ان کے لئے راستہ بن گیا ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام کے ہاتھوں معجزہ کے طور پر اسے پار کرنے کے لئے زمین خشک ہوگئی ۔ 
وَ اَنْتُمْ تنظُرُوْنَ ۔ ( تم دیکھ رہے تھے ) ۔ بنی اسرائیل کو بتایا جاتا ہے کہ تم نے اپنے اس قدر بڑے ، ظالم ، جابر دشمن کو انتہائی ذلّت اور رُسوائی کی موت مرنے کا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ 
بنی اسرائیل مصر کے ظالم بادشاہوں کی سختیاں کئ سال تک سہتے رہے ۔ آخر کار انہوں نے ارادہ کیا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی رہنمائی میں مصر کو چھوڑ کر اپنے آبائی وطن شام اور فلسطین چلے جائیں چونکہ  مصری حکومت انہیں اس بات کی اجازت دینے کے لئے رضامند نہیں تھی ۔اس لئے انہوں نے رات کو سفر اختیار کیا ۔ اندھیری رات ، اپنے گھر بار چھوڑنے کا غم ، مصری حکومت کے پیچھے کا خوف ان سب باتوں نے انہیں ہراساں کر رکھا تھا ۔ پریشانی کی حالت میں راستہ بھول گئے ۔ 
ادھر فرعون کو خبر ہو گئی ۔ وہ اپنے لشکر کو لیکر وہاں آپہنچا ۔ اب بنی اسرائیل بالکل بے بس اور بے یارومددگار تھے ۔ آگے سمندر تھا اور پیچھے غضب سے بھرا ہوا مصری لشکر ۔ سخت پریشانی کا عالم تھا ۔ اسی وقت حضرت موسٰی علیہ السلام نے الله جل جلالہ کے حکم سے سمندر میں لاٹھی ماری ۔ سمندر پھٹ گیا ۔ اور خشک زمین نکل آئی ۔ اسرائیلیوں کا قافلہ پار نکل گیا ۔ اتنے میں فرعون کا لشکر بھی آپہنچا ۔ اور خشک راستہ دیکھ کر اس میں اتر پڑا ۔ لیکن ابھی درمیان میں ہی تھا کہ الله جل جلالہ کے حکم سے پانی آپس میں مل گیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت اس کے بیچوں بیچ غرق ہوگیا ۔ بنی اسرائیل نے اپنے دُشمن کا اس بے بسی میں غرق ہونے کا تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔۔ ایت میں اسی قصے کی طرف اشارہ ہے ۔۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں