*بنی اسرائیل کی شہری زندگی*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  قُلْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادْخُلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔هَذِهِ ۔۔۔۔الْقَرْيَةَ 
اور جب ۔۔۔۔ ہم نے کہا ۔۔۔ تم داخل ہو جاؤ ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔ شہر
فَكُلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مِنْهَا ۔۔۔۔۔ حَيْثُ ۔۔۔۔۔۔۔ شِئْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔رَغَدًا 
پس تم کھاؤ ۔۔۔۔۔اس سے ۔۔۔۔ جہاں ۔۔۔ تم چاہو ۔۔۔۔ با فراغت 
وَادْخُلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الْبَابَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سُجَّدًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَقُولُوا 
اور داخل ہو جاؤ ۔۔۔۔ دروازہ ۔۔۔۔ سجدہ  کی حالت ۔۔۔۔ اور تم کہو 
حِطَّةٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نَّغْفِرْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خَطَايَاكُمْ 
بخش دے ۔۔۔۔ ہم معاف کر دیں گے ۔۔۔۔ تم کو ۔۔۔۔ غلطیاں تمہاری 
وَسَنَزِيدُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الْمُحْسِنِينَ۔ 5️⃣8️⃣
اور جلد ہی ہم زیادہ دیں گے ۔۔۔۔۔ احسان کرنے والوں کو 

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا 
وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ 
خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ۔   5️⃣8️⃣
اور جب ہم نے کہا داخل ہو اس شہر میں اور کھاتے پھرو اس میں جہاں چاہو با فراغت اور داخل ہو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے اور کہتے جاؤ بخش دے۔ تو معاف کردینگے ہم قصور تمہارے اور زیادہ بھی دیں گے نیکی والوں کو 

اَلْقَرْیَۃَ ۔۔۔( شہر ) ۔ مورّخوں نے کہا ہے کہ یہ بستی فلسطین کا مشہور شہر اریحا تھی۔ اس میں قوم عمالقہ جو قوم عاد سے تھی آباد تھی  ۔ اسے اسرائیلیوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت یوشع علیہ السلام کے زمانے میں فتح کیا ۔ 
حِطَّۃٌ ۔۔( بخش دے ) ۔ یہ ایک جملے کا اختصار ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ " اے ہمارے رب ہماری خطاؤں کو معاف فرما " ۔ بنی اسرائیل کو حکم ہوا تھا کہ وہ اس جملے کو اپنی زبانوں سے ادا کرتے ہوئے شہر میں داخل ہوں ۔ 
مُحْسِنِیْنَ ۔ ( نیکی کرنے والے ) ۔ یہ لفظ احسان سے بنا ہے ۔ جس کے معنی حسِن  سلوک اور نیکی کرنا ہیں ۔ اُردو میں اس لفظ کا استعمال عام ہے ۔ احسان جتلانا اور احسان دھرنا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ 
الله جل جلالہ نے موسٰی علیہ السلام کو دریاۓ ( اردن  ) کے کنارے تک پہنچا کر کنعان کی تمام زمین دکھائی ۔ اور فرمایا بنی اسرائیل کو میں یہ ملک دیتا ہوں ۔ اور عنقریب تم اس شہر اریحا کو فتح کرو گے ۔ جب تم اس میں داخل ہو گے تو الله جل شانہ کی نعمتیں اور طرح طرح کے میوے تمہیں کھانے کو ملیں گے ۔ اس لئے ان کا شکریہ اس طرح ادا کرنا کہ شہر کے دروازوں سے داخل ہوتے ہوئے  غرور اور گھمنڈ نہ کرنا ۔ بلکہ سجدہ کرتے ہوئے نہایت عاجزی  کے ساتھ الله تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے داخل ہونا ۔ ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے ۔ اور نیک بندوں کو اس کے بدلہ میں اور زیادہ انعام عطا کریں گے ۔ 
 بنی اسرائیل نے الله تعالی کے حکم کی پوری پوری تعمیل نہ کی بلکہ نافرمانی شروع کر دی ۔ اور اس طرح عذاب کے مستحق ہوئے ۔ اس کا تفصیلی ذکر آئیندہ آیات میں آئے گا ۔ 
قوموں پر یہ وقت بہت ہی خطرناک ہوا کرتا ہے ۔ جب قومیں الله رحیم و کریم کا انعام پائیں  اور شکر گزار نہ ہوں ۔ بلکہ شکر گزاری کی جگہ بغاوت اختیار کریں ۔ عذاب دیکھیں اور عبرت نہ پکڑیں ۔ بلکہ بد مست ہو جائیں ۔ ہدایت پائیں اور راہ راست پر نہ آئیں بلکہ سر کشی پر اتر آئیں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
تفسیر عثمانی ۔۔۔۔۔ 

جیسا کہ آج ہمارا اور ہماری قوم کا حال ہے ۔ ہر چیز واضح اور کُھلی نظر آرہی ہے لیکن نہ تو شکر کرتے ہیں ، نہ عبرت پکڑتے ہیں اور نہ ہی راہ راست پر آنے کی کوشش کرتے ہیں 
الله کریم ہمیں ہدایت دے ۔ 



کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں