نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*ذبح گاؤ کا حکم*

وَإِذْ ۔۔۔۔۔۔  قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مُوسَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لِقَوْمِهِ 
اور جب ۔۔۔ کہا ۔۔۔ موسٰی علیہ السلام ۔۔۔ اپنی قوم کے لئے 
إِنَّ ۔۔۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَأْمُرُكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَن ۔۔۔۔۔۔   تَذْبَحُوا 
بے شک ۔۔۔ الله ۔۔۔۔ وہ حکم  دیتا ہے تم کو ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ تم ذبح کرو 
بَقَرَةً ۔۔۔۔۔۔۔۔   قَالُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَتَتَّخِذُنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ هُزُوًا 
گاۓ ۔۔۔ کہا انہوں نے ۔۔۔ کیا تو بناتا ہے ہم کو ۔۔۔ مذاق 
قَالَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ أَعُوذُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بِاللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔أَنْ 
کہا اس نے ۔۔۔ میں پناہ میں آتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ الله تعالی کی ۔۔۔۔ یہ 
أَكُونَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔ الْجَاهِلِينَ۔.     6️⃣7️⃣
میں ہو جاؤں ۔۔۔ سے ۔۔۔ جاہل ( جمع ) 

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ 
أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ.     6️⃣7️⃣
اور جب موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا  بے شک الله تعالی تمہیں فرماتا ہے کہ گائے ذبح کرو ۔ وہ کہنے لگے کیا تم ہم سے ہنسی کرتے ہو  فرمایا   الله کی پناہ کہ میں جاہلوں میں ہوں ۔ 

اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا ۔۔ ( کیا تو ہم سے ہنسی کرتا ہے ) ۔  بنی اسرائیل کے نزدیک گائے بہت مقدس تھی ۔ جب حضرت موسٰی علیہ السلام نے انہیں الله تعالی کا حکم سنایا کہ گائے ذبح کرو تو وہ ہکا بکا رہ گئے ۔ انہیں یقین نہ آیا کہ ایسے مقدس جانور کو ذبح کر ڈالنے کا حکم ملا ہو گا ۔ وہ یہی سمجھے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام مذاق کر رہے ہیں ۔ 
اَلْجٰھِلِیْنَ ۔ ( جاہل ) ۔ یہ لفظ جہل سے بنا ہے ۔ اس کے لغوی معنی ہیں کسی کام کو اس صحیح طریقے کے اُلٹ کرنا جو اس کے لئے مقرر ہے ۔
اگر اس کی وجہ لاعلمی ہے تو جہل سادہ ہے ۔ اور اگر جان بوجھ کر اُلٹا چلتا ہے تو جہل مرکب ہے ۔ 
حضرت موسٰی دونوں سے الله تعالی کی پناہ مانگتے ہیں ۔ 
الله جل جلالہ کے نام پر جو شخص خود اپنا حکم چلانا چاہتا ہے ۔ وہ یا تو الله تعالی سے غافل ہے یا جاہل ہے ۔ اور دین میں ہنسی مذاق کے نتیجوں سے بے خبر ہے ۔ 
بنی اسرائیل میں ایک شخص   ( عامیل ) نامی مارا گیا تھا ۔ لیکن قاتل کا سُراغ نہ ملتا تھا ۔ الله تعالی نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو حکم دیں کہ وہ ایک گائے ذبح کریں اور اس کے گوشت کا ایک  ٹکڑا مقتول کے جسم پر ماریں ۔ اس سے وہ مقتول زندہ ہو جائے گا ۔ اور قاتل کا پتہ بتا دے گا ۔ 
صدیوں سے مصر میں رہنے کی وجہ سے ۔بنی اسرائیل گائے کو بہت مقدس سمجھنے لگے تھے ۔ اس لئے انہیں یہ گمان ہوا کہ موسٰی علیہ السلام ہنسی کر رہے ہیں ۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے ان کے گمان کو دور کر دیا اور سمجھا دیا کہ پیغمبر دین کی باتوں میں یا الله تعالی کے حکموں میں  ہنسی مذاق کبھی نہیں کرتے ۔  ہنسی مذاق تو جاہلوں کا کام ہوتا ہے ۔ سمجھ دار انسان ایسی حرکتیں نہیں کرتے ۔ جو وقار اور عزت کے خلاف ہوں ۔ اور جن سے دین کی توہین ہوتی ہو ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...