نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*معافی کا اعلان*

ثُمَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَفَوْنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَنكُم ۔۔۔۔۔۔۔۔مِّن ۔۔۔۔۔۔۔بَعْدِ ۔۔۔۔۔۔۔ ذَلِكَ 
پھر  ۔۔۔۔ معاف کیا ہم نے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں ۔۔۔۔۔  سے ۔۔۔۔۔۔۔ بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ 
لَعَلَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تَشْكُرُونَ۔ 5️⃣2️⃣
تاکہ تم ۔۔۔۔۔ تم شکر کرو 

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.    5️⃣2️⃣
پھر ہم نے تمہیں اس پر بھی معاف کر دیا  تاکہ تم احسان مانو ۔ 

تَشْکُرُونَ ۔ ( شکر کرو ۔ احسان مانو ) ۔ یہ لفظ شکر سے بنا ہے ۔ جس کے معنٰی احسان ماننا اور قدر پہچاننا ہےں ۔ اسلام میں شکر سے مراد ہے کہ انسان الله کریم کی نعمت کی قدر مانے ۔ اس کی بخششوں اور نعمتوں کا صحیح اور درست استعمال کرے ۔ نا شکری اور نا قدری نہ کرے ۔ 
اس سے پہلی آیت میں گزر چکا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام الله جل شانہ کے حکم کی تعمیل کے لئے کوہِ طور تشریف لے گئے ۔ تاکہ وہاں الله جل جلالہ کی عبادت کریں اور اپنی قوم کے لئے ہدایت نامہ لائیں ۔ وہاں تیس دن گزارنے کے بعد آپ کو دس دن اور ٹہرنے کا حکم ملا ۔ اور واپس آنے میں دیر ہوگئی ۔ 
آپ کی غیر حاضری میں سامری نے جو ایک چالاک  شعبدہ باز تھا ۔ ایک بچھڑا بنا کر کھڑا کیا جس کے منہ سے آواز نکلتی تھی ۔ اس نے بنی اسرائیل سے کہا تمہارا اور موسٰی کا معبود یہی بچھڑا ہے ۔ اس لئے تم اس کی عبادت کرو ۔ بس پھر کیا تھا سوائے چند لوگوں کے ساری قوم اس کے آگے جھک گئی ۔ اور نہایت انکسار سے اس کی عبادت میں مشغول ہو گئی ۔ 
حضرت موسٰی واپس تشریف لائے تو انہوں نے دیکھا ۔ کہ بنی اسرائیل گمراہ ہو چکے ہیں ۔ انہوں نے غصے سے احکام کی وہ تختیاں جو ساتھ لائے تھے ۔ پھینک دیں ۔ اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلم پر سخت ناراض ہوئے ۔ اور ان سے باز پُرس کی ۔ حضرت ہارون علیہ السلام نے سارا قصہ بیان کر دیا اور اپنی بے چارگی بھی بتا دی ۔ 
آخر کار الله جل جلالہ کئ طرف سے یہ حکم آیا کہ بچھڑے کو دریا میں پھینک دو اور ایک دوسرے کو قتل کر دو ۔ کیونکہ صرف اسی صورت میں تمہاری توبہ قبول کی جا سکتی ہے ۔ چنانچہ ایک دن میں دو ہزار بندے مارے گئے  ۔ آخر کار حضرت موسی علیہ السلام نے الله تعالی سے التجا کی تو معافی کا حکم آیا ۔
یہ الله رحیم و کریم کا محض لطف و کرم ہے کہ انسان خطائیں کرتا ہے مگر الله تعالی ان سے چشم پوشی فرماتا ہے ۔ انسان جونہی اس کے سامنے اپنی غلطیوں ، کوتاہئیوں کا اعتراف کرتا ہے ۔ اور آئندہ برائی سے باز رہنے کا اقرار کرتا ہے ۔ الله تعالی جھٹ سے اپنی رحمت کا در کھولتا ہے اور بندے کو معاف کر دیتا ہے ۔ اگر انسان اس پر بھی احسان نہ مانے تو یہ حد درجہ ناقدری اور نا شکری ہو گی ۔ یہ جرم نا قابلِ معافی ہو گا ۔۔  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...