نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*سرمایۂ عبرت*

فَجَعَلْنَا  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  هَا ۔۔۔۔  نَكَالًا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لِّمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بَيْنَ 
پھر بنا دیا ہم نے ۔۔۔ اس کو ۔۔۔ عبرت ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔۔۔ جو 
يَدَيْهَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خَلْفَهَا   
سامنے تھے اس کے ۔۔۔ اور جو ۔۔۔ پیچھے تھے اس کے
.وَمَوْعِظَةً۔  ۔۔۔۔۔۔    لِّلْمُتَّقِينَ۔  6️⃣6️⃣
اور نصیحت ۔۔۔ پرھیزگاروں کے لئے 
فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا
خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ.   6️⃣6️⃣
پھر ہم نے اس واقعہ کو ان لوگوں کے لئے عبرت کیا جو وہاں تھے اور جو پیچھے آنے والے تھے ۔ اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت بنایا ۔ 

نَکَالاً ۔ ( عبرت ) ۔ اس کے معنی ہیں ایسی سزا اور واقعہ جو دوسروں کو سبق سکھائے اور جس سے دوسرے نصیحت پکڑیں ۔ 
بنی اسرائیل کی تاریخ کے اہم واقعات قرآن مجید میں الله جل شانہ اس لئے بیان فرمائے  کہ ایک طرف خود یہود کو شرمساری اور ندامت ہو ۔ وہ اپنی حقیقت کو پہچان لیں ۔ اور سیدھی راہ کی طرف مائل ہوں ۔ اور دوسری طرف مسلمانں کو تنبیہ ہو ۔ وہ پہلی قوموں کے واقعات سے عبرت اور نصیحت حاصل کریں ۔ اپنے اعمال کا جائزہ لیں ۔ سبق حاصل کریں اور قرآن مجید کی روشنی میں اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں ۔ 
یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد الله جل جلالہ نے اس آیہ میں اعلان فرما دیا ہے کہ اسے اس وقت کے لوگوں اور قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے نشانہ عبرت اور سرمایۂ نصیحت بنا دیا گیا ہے ۔  تاکہ لوگ الله تعالی کے احکام کی نافرمانی کے انجام سے آگاہ رہیں ۔ ہر لمحہ محتاط رہیں ۔ خاص طور پر متقین کے لئے اس واقعہ میں خاص سبق ہے ۔ کہ انسان کے لئے تقوٰی ہی تمام نیکیوں کی جڑ ہے ۔ اور الله تعالی کی نافرمانی بڑے عذاب کی وجہ بنتی ہی ۔
 صورت کا بدل جانا ۔ انسان کا بندر بن جانا معمولی بات نہیں ۔ انسان کو الله تعالی کے عذاب اور غصہ سے ڈرتے رہنا چاہئیے 
اس آیت سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ دنیا کے پچھلے واقعات سے انسان کس قدر نصیحت حاصل کر سکتا ہے ۔ حقیقت میں قرآن مجید نے یہ بات نہایت وضاحت سے ذہن نشین کرا دی ہے کہ تاریخ کا فائدہ انسان کے لئے کیا ہے ۔ اور یہ کہ ہر واقعہ تاریخ  بننے کے قابل نہیں ۔ صرف وہی واقعات تاریخ کہلانے کے مستحق ہیں جن سے انسان کوئی اچھا سبق حاصل کر سکے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...